جس جگہ پر تقریبا بیس سال مسجد بنا کر نماز با جماعت پڑھی گئی ہو اس جگہ کو فروکت کیا جاسکتا ہے یانہیں؟
جس جگہ کو مسجدبنایا گیا ہے۔اس کو کسی وقت بھی فروخت نہیں کیا جاسکتا کواہ وہاں مسجد کا نام و نشاں مٹ چکا ہو کیونکہ مسجد اللہ کا گھر اور اللہ کی ملکیت ہے کوئی شخص جب کسی دوسرے کی ملیکت کو فروخت نہیں کر سکتا ہے تو اللہ کے گھر کو کیسے فروخت کر سکتاہے۔قرآن پاک میں ہے۔ وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّـهِ
ترجمہ ۔مسجدیں اللہ کی ملکیت ہیں۔
نیز مسجد وقف جگہ ہے۔(الوقف لا يملك) وقف جگہ کسی شخص کی ملیکت نہیں ہوتی بلکہ اللہ کی ملکیت ہوتی ہے۔)لہذا اس کو فروخت کرنا درست نہیں۔آئمہ فقہاء کا مسلک یہی ہے جس کی تفصیل کتب فقہ میں ہے چنانچہ فتاوی الحامدیۃ از ابن عابدین میں ہے۔وقف شدہ جگہ کو بیچنا منع ہے۔ہذا ماعندی واللہ اعلم بالصواب (ابو زوق قدرت اللہ فوق مدرس جامعہ سلفیہ) (اہل حدیث لاہور جلد 7شمارہ 2)
مفتی صاحب کے اس فتوی میں نظر ہے کیونکہ بيع الوقف لا يصح فتاویٰ حمادیہ وغیرہ عبارت قابل تفصیل ہے وقف چیز کوفروخت کرنےج ممانعت سے وہ صورت مراد ہے جو اپنی غرض کیلئے فروکٹ کی جائے ورنہ کوئی ممانعت کی دلیل نہیں ہے دیکھیے قربانی کی کھالج غرباء اور مساکین کا حق ہے اور ان کے لئے وقف ہے غرباء اور مساکین کو کھال دے دی جائے تو وہ اپنی نا تجربہ کاری کی وجہ سے ارزاں قیمت پر فروخت کر دیں گے۔بعض دفعہ نصف قیمت کا فرق ہوتا ہے اس طرح یتیم اور کم عقل بچوں کا حال ہے۔قرآن مجید میں ہے۔
وَلَا تُؤْتُوا السُّفَهَاءَ أَمْوَالَكُمُ الَّتِي جَعَلَ اللَّـهُ لَكُمْ قِيَامًا وَارْزُقُوهُمْ فِيهَا وَاكْسُوهُمْ وَقُولُوا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوفًا ﴿٥﴾ وَابْتَلُوا الْيَتَامَىٰ حَتَّىٰ إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ ۖ وَلَا تَأْكُلُوهَا إِسْرَافًا وَبِدَارًا أَن يَكْبَرُوا ۚ وَمَن كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ ۖ وَمَن كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ ۚ
دیکھئے ان آیات میں سفہاء اور یتٰمٰی کے مال میں متولی کو تمام قسم کے تصرفات کا حق حاصل ہے۔اگر اس میں مال کریدو روخت نہ کی اور ان کے مال میں ایساتصرف نہ کیاجائے جسمیں مال بڑھتا ہے۔تو چند یوم میں برباد ہوجائے گا۔بوڑھا ہوکر ضائع ہو جائے گا کسی کو دیمک کھا جایئگی تو ان کا مال چند سالوں میں ختم ہو جائگا یہ ہی حال وقف مال کا ہے۔اگر وقف مال میں خریدوفروخت نہ کی جائے تو چند سالوں میں موقوف مال بھی ختم ہوجائے گا۔مثلا کسی نے مدرسہ مسجد یا رفاعہ عامہ کیللئے کوئی کارخانہ یا بس وقف کی اور وہ بو سیدہ ہوکر بے کار ہوجایئں۔اگر اس سامان کو فروخت کرکے اور مال مال خرید کر موقوف کے کھاتہ میں جمع کیا جائے تو اس میں کیا قباہت ہے مسجد کا تیل بالا شہتیر وغیرہ بوسیدہ اور لا ضرورت کو فروخت کر کے اسی مسجد یا مسجد کے متولیوں کی اجازت سے کسی دوسری مسجد میں تصرف کیا جائے۔تو اس میں کیا ممانعت ہے۔
یہی حال مسجد کی زمین کا ہے حدیث آیا ہے۔جعلت لي الا رض مسجد وطهورا ادایئگی نمازکے لہاظ سے تمام زمین مسجد ہے اور اسکامالک بھی اللہ کاہے جس میں خرید وفروخت ہو رہی ہے۔اور ایک مسجد عرف کے لہاظ سے جو مسلمانوں کی اصطلاح میں مسجدکہلاتی ہے۔ایسی مسجد اس وقت تک مسجد ہے۔جب تک اس کی ضرورت ہے۔ یااس کے نشان باقی ہیں۔اگر اس کے گرد سے آبادی ختم ہوچکی ہے یاوہ مسجد تنگ ہے فراخی کا کوئی امجان نہیں تو اس ک ی زمین اور سامان کو فروخت کر کے کسی مناسب اوروسیع جگہ میں مسجد تیار کی جائے جہاں ضرورت ہو تو اس میں کیا قباحت 1ہے۔
1۔ہاں اگر کسی نص تصریح سے ثابت ہوجائے کہ مسجد کاسامان وغیرہ فروخت کرنامنع ہے تو پھر جائز نہیں ۔(سعیدی)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مشہور واقعہ ہے کہ کوفی کی تنگ مسجد گرا کر حکومت کی ضرورت میں لے آئے اور اس کے بدلے وسیع میدان میں مسجد تیار کی گئی۔۔ہذا ماعندی واللہ اعلم و علمہ اتم(ابو الحسنات علی محمد سیعیدی جامعہ سعیدیہ خانیوال پاکستان)