السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کارخانہ ، مکان، لاریاں اور ٹرک جو کرایہ پر چلتے ہیں۔ ان کی مالیت ہزار ہا روپیہ ہوتی ہے، ان پر زکوٰۃ ہے یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قرآن مجید میں ہے: ﴿اَمَّا السَّفِیْنَة فَکَانَتْ لِمَسَاکِیْنَ یَعْمَلُوْنَ فِیْ الْبَحْرَ﴾ (پ۱۶)
یعنی جس کشی کو خضر علیہ السلام نے عیب دار کیا ، وہ ان مساکین کی تھی ، جو دریا میں کام کرتے تھے۔ کشی کافی مالیت کی ہوتی ہے، باوجود اس کے اللہ تعالیٰ نے ان کو مساکین فرمایا ہے، جس کی وجہ یہ ہے ، کہ آمدنی تھوڑی تھی، جو گذر اوقات کے لیے کافی نہ تھی، اس سے معلوم ہوا کہ کمائی کے ذرائع کارخانہ، مکان، لاریاں، اور آلات وغیرہ کی مالیت خواہ کتنی بھی ہو، اس پر زکوٰۃ نہیں۔ ہاں ان کی آمدنی نصاب کو پہنچ کر اس پر سال گزر جائے تو اس کی آمدنی پر زکوٰۃ ہے، اور اگر ان ذرائع اور آلات کی تجارت کی جائے، مثلاًلاریوں، ٹرکوں اور کارخانوں وغیرہ کی خرید و فروخت کیا جائے، مثلاً لاریوں، ٹرکوں اور کارخانوں وغیرہ کی خرید و فروخت کی جائے، تو پھر یہ مال تجارت سمجھا جائے گا، اور اس کی مالیت پر زکوٰۃ ہو گی۔ (اخبار تنظیم اہل حدیث جلد نمبر ۱۲ شمارہ نمبر ۳۵)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب