السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
زید نے پانچ سو روپیہ سے کشتی خریدی۔ اب ہر سال اس پر زکوٰۃ فرض ہے یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
کشتی مذکور اگر بغرض تجارت خریدی ہے، تو زکوٰۃ فرض ہے، کیونکہ اموال تجارت میں زکوٰۃ فرض ہے، امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نبوی: ((وامّا خالد فانکم تظلمون خالد اقد احتبس اوراعه واعتادہ فی سبیل اللّٰہ)) کے تحت میں لکھتے ہیں۔
((قال اهل اللغة الاعتاد آلات الحرب من السلاح والحرب وغیر باد معنی الحدیث انہم طلبوا من خالد زکوٰة ظنا منہم انہا للتجارة وان الزکوٰة فیہا واجتبه الیٰ قوله واستنبط بعضہم من ہذا وجوب الزکوٰة فی اموال التجارة وبه قال جمہور العلماء من السلف والخلف خلاء فالداؤد انتہیٰ))
اور اگر بغرض تجارت نہیں ہے، بلکہ پیشہ کے لیے ہے تو زکوٰۃ فرض نہیں کیونکہ اس صورت میں کشتی مذکورہ آلہ معاش ہے، اور آلات معاش میں زکوٰۃ نہیں۔ لا یخفی واللہ اعلم بالصواب۔ (سید محمد نذیر حسین) (فتاویٰ نذیریہ ص ۴۹۷ جلد۱)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب