زید اپنی زمین بکر کے یہاں گروی رکھ کرحسب لیاقت زمین روپیہ لیتا ہے اور یہ وعدہ کرتا ہے کہ جب تک میں آپ کا روپیہ نہ ادا کردوں اس وت تک آپ میری زمین اپنی کاشت میں لاویں اور جب میں روپیہ آپ کا کل ادا کردوں اس وقت آپ میری زمین چھوڑ دیویں ھسب وعدہ زید کو بکر روپیہ دے کر اس کی زمین لے لیتا ہے اور خود جوت بو کہ فصل تیار ہونے کے بعد سب غلہ لے لیتا ہے لیکن بکر زید کو موجودہ سرکاری ریٹ کے مطابق لگان بھی ادا کرتا ہے جو کہ بازاری ریٹ سے کم ہے تو اس شکل میں بکر کازید کے کھیت کاکل غلہ لینا سود میں شمار ہے یا نہیں؟
مرہونہ چیز سے فائدہ اٹھانے یا نہ اٹھانے کے بارے میں علماء کا بہت بڑا اختلاف ہے بعض کے نشدیک مطلقا ناجائز اور سود کے حکم میں داخل ہے اور بعرض کے نشدیک مطلقا جائز ہے اور بعض کہتے ہیں۔کہ جتنا خرچ کرتا ہے اپنی خرچ کی ہوئی مقدار کے موافق اس سے لے سکتا ہے۔اور جو زیداہ ہو مالک کو واپس کردے فتاوی نزیریہ جلد ثانی کتاب الرہن میں اس قسم کے سوالات کے جوابات میں یہ لکھا ہواہے۔ کہ شے مرہونہ سے نفع اٹھانے کے بارے میں احادیث سے دو باتیں ثابت ہیں ایک تو یہ کہ ساری اوردودھ کے جانور مرہون سے بمقابلہ اس کے نفقی کے مرتہن کو نفع اٹھانا جائز ہے یعنی جب سواری کا کوئی جانور یادودھ کاکوئی جانور مرہون ہو۔اور اس کے دانہ گھاس وغیرہ کا خرچہ مرتہن کے زمہ ہوتو مرتہن کو جائز ہے کہ بقدر اپنے خرچہ کے سواری کے مرہون جانور پر سواری کرے اور دودھ کے جانور مرہون کادودھ پئے اور اس کو اپنے خرچہ سے زیادہ فائدہ اٹھاناجائز نہیں مثلا گائے مرہون ر مرتہن کا روز آنہ دو آنہ کرچ ہوتا ہے اور گائے روزانہ چار آنہ کادعدھ دیتی ہے تو اس کو فرف بقدر دو آنہ کے دودھ پینا جائز ہے اورباقی دو آنہ کادودھ راہن کا ہے اور مرتہن کواس باقی دودھ کا پینا جائز نہیں۔اگر اس کو پئے گا تو سود میں داخل ہوگا۔صحیح بخاری میں ہے۔حدیث
نیز صحیح بخاری میں ہے۔حدیث
اور دوسری بات یہ ہے کہ سوائے سواری اور دودھ کے جانور کے اور کسی اور شے مرہون سے نفع اٹھاناجائز نہیں ہے۔کیونکہ اس کا کوئی ثبوت نہٰن بلکہ اس کی ممانعت ثابت ہے۔منتقی میں ہے۔حدیث
پس جب احادیث سے یہ دونوں باتیں ثابت ہیں تو معلوم ہوا کہ زمین مرہونہ سے مرتہن کو نفع اٹھانا جائز نہیں۔اور یہ معلوم ہوا کہ زمین مررہونہ کا قیاس سواری کے جانور اوردودھ کے جانور پر صحیح نہیں ہے۔واللہ اعلم بالصواب۔