سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(160) عشر کی مد سے مدرس کو تنخواہ دینا۔

  • 3270
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1939

سوال

(160) عشر کی مد سے مدرس کو تنخواہ دینا۔
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زکوٰۃ کی مد سے اور عشر سے مدرس کی تنخواہ دی جا سکتی ہے یا نہیں یا مدرسہ کے کسی خرچ میں مثلاً کتب خانہ یا مرمت میں لگا سکتے ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیلکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 زکوٰۃ کے مصارف میں سے ایک مصرف فی سبیل اللہ کی تفسیر میں بعض علماء عام کرتے ہیں، وہ ہر نیک کام میں زکوٰۃ خرچ کرنا جائز کہتے ہیں، نیک کاموں میں مدرسین کی تنخواہ اور مدرسہ کی دیگر ضروریات بھی شامل ہیں۔ (۲۶ رجب ۱۲۶۲ھ)
شرفیہ:… میں کہتا ہوں کہ فی سبیل اللہ کی تفسیر میں بعض علماء نے کتنی وسعت کی ہے کہ کوئی شئے بھی اس کے شموں سے باہر نہیں جا سکتی تو پھر آٹھ مصارف کے بیان کی کیا ضرورت تھی، غور کیا جائے کہ رسول اللہﷺ اور خلفاء راشدین وغیرہ جمہور کو صحابہ کو شہر کی حفاظت خندق وغیرہ مساجد، کنواں، مردوں کے کفن و دفن پلوں وغیرہ کی ضرورت تھی۔ مگر مجھے تو یاد نہیں پڑتا کہ کھبی بھی آپ نے یا خلفاء راشدین نے زکوٰۃ کے مال میں سے ان امور پر صرف کیا ہو، اس سے ثابت ہو گیا کہ باوجود ضرورت، مال زکوٰۃ کو ان پر صرف نہ کرنا، اور طرح سے ان امور کو سرانجام دینا، مال زکوٰۃ کو ان پر صرف نہ کرنے کی بین دلیل ہے، اور لفظ فی سبیل اللہ کا عموم یا کلیہ نہ ہونے پر بھی صحیح مسلم وغیرہ کی مرفوع حدیث بھی ہے کہ عبد المطلب بن ربیعہ اور فضل بن عباس نے رسول اللہﷺ سے درخواست کی کہ مال زکوٰۃ کی تحصیل پر ہم کو مقرر کر دیں، تاکہ ہم بھی وصول کر کے کچھ معاوضہ لیں، تو رسول اللہﷺ نے ان کو فرمایا کہ مال زکوٰۃ اوساخ الناس ہے، وانہاط تحل لمحمد والا آل محمد ﷺ صفحہ ۲۴۳ جلد۱ صفحہ ۲۴۵ جلد ۱۔ ثابت ہوا کہ سادات نبی ہاشم کی ضرورت کو پورا کرنا فی سبیل اللہ میں داخل تھا۔ مگر پھر بھی ان پر جائز نہیں، اور مفت بھی نہیں، محنت تھی، مگر پھر بھی ناجائز ثابت ہو کہ ویسے ہی مساجد خانہ خدا پر بھی اوساغ ان میں صرف کرنا جائز نہیں، کفن دفن پر بھی جائز نہیں، کہ مال زکوٰۃ حق زندوں کا ہے، مردوں کا نہیں، اور نہ فقراء و مساکین مصارف مذکورہ فی القرآن زندوں اور مردوں دونوں کا حق مساوی ہو گا، تو مال زکوٰۃ زندوں کا حق مردوں ہی پر پورا نہ ہو گا، چہ جائیکہ قلعے مساجد وغیرہ ان کی تجدید ہی مشکل ہو گی، اذ لیس فلیس اور پلوں اور سڑکوں، قلعوں، نہروں، چشموں، مسافر خانوں، لنگر خانوں، شہروں کی فصیلوں غرباء تجار جن کے پاس کاروبار چلانے کو روپیہ کم ہو، اور ان کو اور کاشتکاروں کو قرض دینا وغیرہ کہ یہ فی سبیل اللہ کے عموم میں داخل ہیں، ان پر صرف کیا جائے گا، تو اس صورت میں بھی زندوں، فقراء و مساکین وغیرہ مصارف کے لیے خاک بھی نہیں بچ سکتا، اور یذکرعن ابی اساس قال حملنا النبی ﷺ علی اہل الصدقۃ للحج انتہیٰ ما فی ترجمۃ البخاری۔ اول تو یذکر ہے، دوسم اس میں تصریح نہیں کہ وہ لوگ غنی تھے، اور صرف حج ہی باعث حمل تھا، بظاہر وہ زکوٰۃ کے مستحق معلوم ہوتے تھے، یہی جواب عبد اللہ بن عباس کے قول یعطی فی الحج کا ہے، اور قال الحسن ان اشتری اباہ من الزکاۃ جازبہ فی الرقاب کا ایک فرد ہے، اور غنیاء کو مال زکوٰۃ لینے کے متعلق حدیث مرفوع میں آ چکا ہے۔
((لغاز فی سبیل اللّٰہ او لعامل علیہا او لغارم او لرجل اشترا بحاله او لرجل کان له جار مسکین تفصدق علی المسکین فابدی المسکین علی الغنی رواہ مالک و ابو داؤد و مشکوٰة))  (ص۱۶۱ جلد۱)
خلاصہ: یہ کہ فی سبیل اللہ کی تفسیر میں ایسی وسعت نہیں کہ دنیا کی تمام ضروریات کو شامل ہو، جیسے کہ بعض علماء نے حواشی مذکورہ میں کیا ہے، پس اس سے جہاد میں صرف کرنا مراد ہے، ہاں اگر کسی آیت یا حدیث مرفوع صحیح کی نص سے کسی شئی میں کسی کو علاوہ جہاد کے صرف کرنے میں ثابت ہو جائے، تو فبہا ورنہ نہیں اور دینی مدارس جہاں کتاب و سنت کی تعلیم باقاعدہ ہوتی ہو، کتاب و سنت پر عمل بھی صحیح طور پر ہو، صورت و سیرت کتاب و سنت کے مطابق ہو، وہاں دینی جائز ہے، اور صرف یہی نہیں کہ تعلیم انگریزی ہندی تعلیم وغیرہ دنیوی علوم کی ہو، اور برائے نام کچھ عربی کا قلیل اقل شغل رکھ لیا ہو، نہ صورت نہ سیرت نہ نماز کی پابندی نہ اور فرائض کی، نہ اخلاق حمیدہ، نہ اساتذہ پابند شرح، بلکہ بعض شرع کا مذاق اڑانے والے تو وہاں قطعاً جائز نہیں، پس قسم اول ہی کو دینی جائز ہے، اور مدارس مذکورہ جن کو جائز ہے، ان میں طالب العلم اصل ہیں، جو عموماً نادار، مفلس ہوتے ہیں، یا جن کو والدین وغیرہ علم دین حاصل نہیں کرنے دیتے، اور وہ گھر سے نکل کر عموماً پردیس پڑھتے ہیں، وہ ابن السبیل بھی ہوتے ہیں، مسکین فقیر بھی پھر ان کے خوردونوش، لباس و قیام کتب وغیرہ کا انتظام جس میں مدرسین جز اول ہیں، پھر اگر وہ نادار ہوں یعنی وہ صاحب جائداد نہیں، کہ درس دے کر، ان کو ضروریات کے لیے مدرسہ سے لینے کی ضرورت نہ ہو تو، پھر ان کو بھی جائز نہیں، ورنہ جائز ہے، کہ اگر وہ کام کرتے، تو تنخواہ سے اپنی ضروریات پوری کرتے، اب مدرسے سے کریں گے، مدرسہ کی تعمیر کتب کی خرید، جلد سازی بھی بلکہ اگر مدرسہ میں او رملازم منشی وغیرہ کی ضرورت ہو وہ بھی مدرسہ میں داخل ہے، جیسے بیت المال یا تحصیل زکوٰۃ میں قرون ثلاثہ میںتھا، ہاں یہ بھی ضروری ہے، کہ متولی اور ناظم مدرسہ پابند شرع خدا ترس ذی علم جو کتاب و سنت سے اچھی طرح واقف ہو، اور انتظام کا مادہ بھی۔ اور حتی الامکان وہ زکوٰۃ کے مال کو وہیں صرف کرے، جہاں جہاں کرنا چاہیے، اس لیے کہ مدارس میں اور طریق سے بھی چندہ وصول ہوتا ہے، اور مدون میں حتی الامکان اور چندوں سے صرف کرے، ہاں چرم قربانی بھی مدارس مذکورہ دینیہ میں دی جا سکتی ہیں، اور جب ثابت ہو چکا کہ قرآن شریف میں  {اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَائِ الایة} میں لام لبیان المصرف ہے، للتملیک نہیں کما فی الفتح اور مصرف صرف آٹھ ہی ہیں، اور لفظ فی سبیل اللہ سے مراد صرف جہاد میں ہی صرف کرنا مراد ہے، ورنہ اگر ایسا عام مراد ہوتا، جیسے بعض علماء نے لکھا ہے کہ کوئی چیز کوئی مصرف اس سے باہر نہیں رہتا، دنیا کے مصارف اس میں آ جاتے ہیں، تو پھر آٹھ کا بیان ہی معاذ اللہ فضول ہے،  ((وَاِذَا لَیْسَ فَلَیْسَ)) اگر یہ لفظ اول آیۃ میں ہوتا تو اس کے بعد کو اس کی تفسیر بنایا جاتا، اور اگر اس کو سب سے آخر ہوتا تو تعمیم بن تخصیص سو یہ بھی نہیں، تو پھر سوا اس کے اور کچھ نہیں ہو سکتا کہ یہ ایک مستقل چیز ہے، جو اقسام کو جو اس کے ساتھ مذکور نہیں، ان کو شامل ہو اس لیے کہ تقسیم اقسام میں تقابل اور ہر ایک دوسرے کا قسیم ہوتا ہے،ا و رعموم مذکور میں شمول ہوتا ہے، لہٰذا تفسیر بعض علماء قطعاً باطل ہے، صرف جہاد ہی مراد ہے۔
اور یہ جو کہا جاتا ہے، اگر زکوٰۃ میں اتنی وسعت نہ کی جائے، تو اور مصارف کفن دفن موتی، مساجد و چاہ وغیرہ کیسے نہیں تو جواب یہ ہے ، کہ کتاب و سنت میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی مال صرف کرنے کا ذکر یا ترغیب ہے، اس میں سے ان امور کو سرانجام دیا جا سکتا ہے، بلکہ دیا جاتا تھا، زکوٰۃ کے مصارف کو تو خود اللہ تعالیٰ نے متعین کر دیا ہے، اور جانتا بھی ہے، اور تھا کہ فلاں فلاں امور کی ضرورت ہو گی، پھر بھی آٹھ ہی مصرف کو بیان کیا، عام نہ رکھا، ہاں اور طرح اور مصارف یا اور اشیاء کو بیان کر دیا وہ یہ ہے:
{قال اللّٰہ تعالیٰ وَاَقِیْمُوْا الصَّلوٰۃَ وَاَتُوْا الزَّکَوٰة وَمَؤا تُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِکُمْ مِنْ خَیْرٍ تَجِدُوْہُ عِنْدَ اللّٰہِ الایة} (پ۱ ع۳)
{وقال اللّٰہ تعالیٰ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ فَلِاَنْفُسِکُمْ الایة} (پ۳ع۵)
دیکھئے زکوٰۃ کے بعد جس چیز کا بیان ہے، وہ ہر قسم کے خرچ کو شامل ہے، جو مشروع ہو۔
((وقال رسول اللّٰہ ﷺ ان فی المال لحقا سوی الزکوٰة ثم تلا لَیْسَ اَنْ تُوْتُوْا وُجُوْھَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ الایة)) (رواہ الترمذی وابن ماجه والدارمی)
مشکوٰة جلد ۱۶۹ جلد ۱:
((وعن سعد بن عبادة قال یا رسول اللّٰہ ان ام سعد ماتت فای الصدقة افضل قال الماء فحضر بیرأ فقال ھذہ لام سعد رواہ ابو داؤد والنسائی مشکوٰة ص ۱۶۹ جلد نمبر ۱))
((وقال رسول اللّٰہ ﷺ اذا مات الانسان انقطع عند عمله الا من ثلاثة الا من صدقۃ جاریة او علم ینتفع به او ولد صالح یدعوله رواہ مسلم مشکوٰة ص ۳۲ جلد نمبر۱))
((وقال ایضاً ان مما یلحق للمؤمن من عمله حسنة بعد موته عِلْماً علمه ونشرة وولداً صالحاً ترکه او مُصْحَفًا ورثه او مجدا بناہ او بیتا لابن السبیل بناہ او نھرا اجراہ او صدقة اخرجھا من ماله فی صحته وحیوته رواہ ابن ماجه والبیھقی فی شعب الایمان مشکوٰة ص ۳۶ جلد ۱))
((قال رسول اللّٰہ ﷺ من یشتری بئر رومة یجعل ولوہ مع ولا المسلمین بخیر له منھا فی الجنة الحیدث رواہ الترمذی والنسائی والدارقطنی مشکوٰة ص ۵۶۱ جلد نمبر۱))
((وقال رسول اللّٰہ ﷺ  من بنی للّٰہ مسجداً بنی اللّٰہ له بیتاً فی الجنة متفق علیه مشکوٰة ص ۶۸ ج نمبر۱))
ان مذکورہ میں مدارس کی تعمیر بھی آ سکتی ہے، او رہر قسم کے مصارف و ضروریات عامہ اور ہر جگہ و ہر حال وموقعہ ناداری کا عذر غلط ہے، جب بعض زکوٰۃ دیتے ہیں، تو ویسے بھی خرچ کے مستحق بلکہ بعض اوقات ان پر یہ ضروری ہو جاتے ہیں،اور کفن دن تو اہل اسلام پر موتیٰ کا حق ہے۔
((قال رسول اللّٰہ ﷺ اذا کفن احدکم اخاہ فلیحسن کفنه رواہ مسلم وقال ایضًا لَبِسُوْا مِنْ ثِیابِکمْ البیض فانھا من خیر ثیابکه وکسنوا فیھا موتاکم رواہ الخمسة الا النسائی وصحیحه الترمذی)) (بلوغ المرام) (ابو سعید شرف الدین دہلوی)
جواباً عرض ہے:… کہ فقیر کے نزدیک تعمیر مدرسہ، تنخواہ مدرسین، امداد طلبہ وفی سبیل اللہ کے عموم میں داخل ہے، اس لیے کہ لفظ مذکور عام ہے، بعض مفسرین بھی اس طرف گئے ہیں، چنانچہ تفسیر خازن میں ہے:
((قال بعضھم ان اللفظ عام فلا یجوز قصرہ علی الغزاة فقط ولھذا اجاز بعض الفقہاء صرف سھم سبیل اللّٰہ الی جمیع وجوہ بخیر من تکفین الموتیٰ وبناء الجسور والحصون وعمارة المسجد وغیر ذالک لان قوله وفی سبیل اللّٰہ عام فی الکل فلا تختص دون غیرہ انتہیٰ)) (مطبوعه مصر ص ۲۴۰ جلد نمبر۱)
’’بعض مفسرین (قفال وغیرہ) نے کہا ہے، کہ لفظ سبیل اللہ عام ہے، پس اس کو محض غازیوں پر منحصر کرنا جائز نہیں۔ اس لیے بعض فقہا نے حصہ سبیل اللہ کا تمام وجوہ میں صرف کرنا جائز رکھا ہے، جیسے مردوں کا کفن دفن اور پلوں اور قلعوں کا بنانا، مساجد کی تعمیر اور اس کے سوا جیسے مدرسہ کی تعمیر وغیرہ اس لیے کہ اللہ کا فرمان فی سبیل اللہ ہر ایک کو عام ہے پس وہ غزوہ ہی کے ساتھ خاص نہ ہو گا۔ ‘‘
امام رازی تفسیر کبیر میں فرماتے ہیں:
((اعلم ان ظاهر اللفظ فی قوله وفی سبیل اللّٰہ لا یوجب الفقراء علی الغزاة فلھذا المعنی نقل القفال فی تفسیرہٖ عن بعض الفقہاء انجد اجاز واصرف الصدقات الی جمیع وجوہ الخیر من تکفین الموتیٰ وبانء الحصون وعمارة المساجد لان قوله فی سبیل اللّٰہ عام فی الکل انتہیٰ)) (مفاتیح الغیب مصری ص ۶۸۱ جلد نمبر۲)
’’یقین کرو کہ اللہ تعالیٰ کے قول وفی سبیل اللہ کا ظاہر لفظ موجب حضر پر مجاہدین ہے، اس معنی کے لحاظ سے امام قفال مروزی (محدث) نے اپنی تفسیر میں بعض فقہاء سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے زکوٰۃ کا تمام وجوہ خیر میں صرف کرنا جائز رکھا ہے، جیسے تکفین موتی اور قلعوں کا بنانا او رمساجد کی تعمیر اس لیے کہ اللہ کا قول وفی سبیل اللہ ہر امور (خیر) کو عام ہے۔‘‘
 ایسا ہی خاتمہ المفسرین نواب صدیق الحسن صاحب مرحوم نے تفسیر فتح البیان میں فرمایا ہے، حیث قال:
((ان لاللفظ عام فلا یجوز قصرہ علی نوع خاص ویدخل فیه وجوہ الخیر من تکفین الموتیٰ وبناء الجسور وعمارة المساجد وغیر ذالک انتہیٰ)) (فتح البیان۔ مصری س۱۲۴۔ جلد نمبر ۴)
’’بے شل لفظ (سبیل اللہ) عام ہے، پس اس کو ایک خاص قسم (غزوہ) پر منحصر کرنا جائز نہیں، اس میں نیکی کے تمام اقسام داخل ہیں، کفن، موتی،پل اور قلعوں کا بنانا، مسجدوں کی تعمیر کرنا اور بھی اس کے سوا (جیسے تعمیر مدرسہ وغیرہ) انتہیٰ۔ ‘‘
ان عبارات سے ظاہر و باہر ہے کہ لفظ سبیل عام ہے، جو ہر نیک کام کو شامل ہے، اس میںطلباء کی امداد و اعانت بھی شامل ہے، جیسا کہ تفسیر مظہری میں ہے۔
((من انفق ماله فی طلبة العلم صدق انه انفق فی سبیل اللّٰہ ص ۵۱ مطبوعه ہاشمی))
’’جس نے اپنا ملا طالب علموں پر صرف کیا اس کی بابت یقیناً کہا جائے گا کہ یہ خرچ ثمانیہ سے سبیل اللہ میں داخل ہے۔‘‘
اسی طور سے تعمیر عمار ت مدرسہ بھی مال زکوٰۃ سے فی سبیل اللہ میں داخل ہے، کام مریبانہ فقیر کے نزدیک اسی طور سے تنخواہ علماء مدرسین بھی سبیل اللہ میں داخل ہے۔
امام شوکانی وبل الغمام میں لکھتے ہیں:
((ومن جملة فی سبیل اللّٰہ الصرف فی العلماء فان لھم فی مال اللّٰہ نصیبا سواء کانوا اغنیاء او فقراء بل الصرف فی ھذہ الجھة من اھم الا مور وقد کان علماء الصحابة یاخذون من جملة ھذہ الاموال التی کانت تفرق بین المسلمین علی ھذہ الصفة من الزکوٰة اہ ملحضاً)) (دلیل الطالب ص ۴۳۲)
’’منجملہ سبیل اللہ کے علمائے کرام پر صرف کرنا بھی ہے، اس لیے کہ ان کا بھی اس مال میں حصہ ہے خواہ وہ امیر ہوں، یا فقیر، بلکہ اس راہ میں خرچ کرنا بہت ضروری ہے، علماء صحابہ (رضی اللہ عنھم اجمعین) بھی ان مالوں سے لیتے تھے، جو مسلمانوں پر مد زکوٰۃ سے تقسیم ہوتے تھے۔‘‘
نواب محمد صدیق حسن صاحب مرحوم اس عبارت شوکانی کا ترجمہ اپنی کتاب  المعرف الجاوی میں یوں تحریر فرماتے ہیں:
سبیل اللّٰہ مختص بہ جہاد نیست۔ منجملہ سبل خدا صرف زکوٰۃ در اہل علم است۔ ایشاں را نصیبے در مال خدا است تو انگر باشد یا گدا۔ بلکہ صرف آں دریں جہت از ہم امور است الخ (ص۷۱)
خاکسار تفسیر سبیل اللہ میں انہیں اصحاب مذکورین کا ہمنوا ہے، اور اب تک اسی خیال پر قائم ہے، سائل موصوف کی اگر اس سے تشفی ہو جائے، اور خدا کرے کہ ہوجائے توفبہاء ورنہ ان کے نزدیک جو حق ہو آشکارا فرمائیں۔  (فتاویٰ ثنائیہ جلد اولد ص ۴۴۹)

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 7 ص 186۔192

محدث فتویٰ

تبصرے