کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیاں شرع متین اس مسئلہ میں کہ زید نے بکر کاپانچ صد وپیہ قرض دینا تھا جس وقت بکر نے زید کو کہا کہ تم میرا روپیہ ادا کرو تو زید نے کہا کہ تم میری زمین روپے کے عوض گروی کر لو۔جب میں روپے دے دوں گا۔تب اپنی زمین لے لوں گا۔تو بکر نے کہا کہ میں تیری زمین گروی لینی حرام سمجھتا ہوں او ر میں عالم ہوں۔اس لئے میرا گروی لینا بالکل ناجائز ہے۔نیز لوگ مجھے طعنے دیں گے اور ملامت کریں گے۔کہ عالم ہو کر تو لوگوں کو حرام بتلاتا ہے۔اور خود زمین گروی رکھ لیتا ہے۔اس لیے بہتر ہے کہ تم زمین کو بیع کردو۔اور تم ہی اپنے قبضے میں رکھو اور مجھ کو حصہ دے چھوڑنا جب روپیہ تمہارے پاس ہوگا اس وقت میں زمین چھوڑ دوں گا یعنی واپس دے دوں گا اور اپنا روپہیہ مبلغ پانچ صد لے لوں گا اس شرط بیع نسخ سمجھ کر زید نے زمین بیع کوادی۔کیونکہ بکر شرط کر رہا ہےہ۔کہ جب روپیہ دو گے تو میں زمین چھوڑ دوں گا۔اوربکر زید کا رشتہ دار ہے۔نیز عالم بھی ہے۔اس لئے زید نے بیع نامہ کے وقت شرط درج نہ کراوئی اور نہ علیحدہ کسی کاغذ پر لکھائی کیونکہ بکر رشتہ دار اور عالم ہے سوچا کہ اگر میں نے اس کو یہ بات کہی تو ناراض ہوگا۔اور کہے گا کہ تم میرا اعتبار نہیں کرتے۔ہم سے ناراض ہوگا۔قطع رحمی ہو جائے گی اور پھ یہ میری زمین بھی نہیں لے گا اس لئے بکر کے زبانی کہنے کو معتبر سمجھا اور بکر کو بڑا امانت دار سمجھا اور اپنی زمین کو گروی ہی سمجھا کیونکہ زمین زید کے قبضہ میں رہی جب تکک بکر زندہ رہا زید کوکسی طرح کا خدشہ نہ ہوا۔اور جس وقت زمی بیع کیتوبکر نے اپنے نام درج نہ کرائی اور بکر کا حقیقی بیٹا عمرو جس کی عمر اس وقت 13 سال کی تھی اس کے نام درج کرائی لیکن جب بکر فوت ہوا تو اس وقت اس کی عمر چالیس سال ہوچکی تھی اور رعمرو کے سن بلوغت میں بھی بات چیت ہوتی رہی کہ زمین چھوڑنے کی شرط کی وہوئی ہے بکر چونکہ ملازم تھا اس لئے اپنے حقیقی بیٹ عمرو کے نام درج کرائی ۔
بکر اس وقت فوت ہوچکا ہے۔اور عمرو زندہ ہے۔اب عمرو سے زید اپنی زمین لینا چاہتا ہے۔کہ تم اپنا روپیہ لے لو اورہماری زمین چھوڑ دو عمرو کہتا ہے کہ ہم نہیں چھوڑتے کیونکہ ہم نے واپسی کی کوئی شرط نہیں کی۔زید کہتا ہے کہ اگر شرط نہیں کی تو ہم کو قسم دے دےدوعمرو قسم سے انکاری ہے اس لئے علماء دین سے دریافت کرتا ہوں کہ اگر عمرو انکاری ہو تو زمین زید کو عند الشرع مل سکتی ہے یا نہیں؟
قرآن مجید و حدیث شریف سے ہو بینوا توجروا (کمترین حاجی امام الدین ولد کرم بخش ساکن دودہ)
الجواب۔حدیث میں ہے کہ حضرت عائشہ کے پاس لونڈی بریرہ آئی اور کہا کہ میں نے اپنے مالکوں سے کتابت کی ہے۔(یعنی ان کو لکھ دیا ہے کہ اتنے سالوں میں اتنا روپیہ ادا کرکے آذاد ہوجائوں گی۔)تو میری امداد کر حضرت عائشہ نے کہا اگر تیرے مالک چاہیں تو میں تیرا سارا روپیہ یک مشت ادا کرکے خرید لوں اور تجھے آذاد کردوں۔بریرہ نے اپنے مالکوں سے پوچھا۔تو انھوں نے کہا عائشہ بے شک خرید لے مگر تیرا "ولاء" ہمارے لئے ہوگا(یعنی آذاد کرنے کیوجہ سے جو آذاد کردہ کو آذاد کرنے والے کے درمیان وراثت بھی جاری ہو جاتی ہے وہ تیرا تعلق ہم سے رہے گا۔بریرۃ نے حضرت عائشہ کو آ کر بتایا کہ وہ مجھے اس شرط پر فروخت کرتے ہیں۔کہ (ولا) کا تعلق ہم سے رہے۔حضرت عائشہ نے کہا کہ میں اس شرط پر تمھیں نہیں خریدتی۔اگر (ولاء) کا تعلق مجھ سے ہو تو میں خریدسکتی ہوں۔
جب رسول اللہﷺ کو اس بات کا پتہ چلا تو حضرت عائشہ کو فرمایا کہ تو خرید لے اور ان سے ۔ولاء۔کی شرط کرلے جب سودا ہوگیا تو آپﷺ نےخطبہ میں منبر پر اس بات کی تردید کی اور فرمایا ان لوگوں کا کیا حال ہے۔جو ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو کتاب اللہ میں نہیں۔جو شرط کتاب اللہ میں نہ ہو خواہ وہ سو شرط ہو باطل ہے ولاء کا تعلق آذاد کرنے والے کا ہے۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو شرط بیع میں خلاف شریعت ہو اس کا اعتبار نہیں سوال کی صورت بھی اس قسم سے ہے۔اس میں جو شرط فسخ بیع کی لگائی گئی ہے بالاتفاق باطل ہے۔کیوں کہ یہ شرط خیار کی قسم سے نہیں ہوسکتی۔وہ تو صرف اس غرض سے ہوتی ہے کہ ذرا سوچ سمجھ لیا جائے۔مثلا ایک شے فروخت کی اوردو چار روز کی مہلت لے لی کہ میں سوچ سمجھ لوں۔اگر بیع قائم رکھنی مناسب سمجھی تو قائم رکھوں گا ورنہ توڑ دوں گا۔اسی طرح خریدنے والا بھی شرط کر سکتا ہے۔مگر سوال کی شرط تو اس قسم کی نہیں کیونکہ یہ سوچنے کی شرط نہیں اور دوسری کوئی شرط جوا کی ہی نہیں بن سکتی اس لئے یہ باطل ہے پس زید کا کوئی حق نہیں کہ عمرو سے زمین واپس لے۔
اس کے علاوہ اور سنیے! موطا امام مالک حدیث
یعنی عبد اللہ بن مسعود نے اپنی بیوی سے ایک لونڈی خریدی بیوی نے یہ شرط کی کہ اگر آپ اس کو کسی پر فروخت کریں۔تو جتنی قیمت سے فروخت کریں۔اتنی ہی سے یہ میری ہوئی عبد اللہ بن مسعود نے اس کی بابت حضرت عمر سے پوچھا تو انھوں نے فرمایا ایسے حال میں آپ لونڈی کے قریب نہ جایئں۔جب کہ اس میں کسی کیلئے شرط ہو۔
اس لونڈی کی شرط سوال کی شرط سے بہت ہلکی ہے۔کیونکہ سوال میں تو خرید کرنے والے کو مجبور کیا جاتا ہے۔کہ وہ شے واپس کرے۔اس کو پاس رکھنے کا یا بیع کرنے کا یا ہبہ کرنے کا کوئی اختیار نہیں بر خلاف اس لونڈی کے کہ اس میں عبد اللہ بن مسعود کو پورے اختیارات دے دیئے گئے ہیں کواہ پاس رکھین یا ہبہ کریں۔یا فروخت کریں۔یا کسی اور قسم کا تصرف کریں۔کوئی رکاوٹ نہیں صرف فروخت کرنے کی صورت میں اتنی شرط سے کہجتنے میں کسی اور کو دیں اتنے میں یہ بائع کی ہے مگر باوجود اس کے حضرت عمر نے عبد اللہ بن مسعود کو اس لونڈی سے فائدہ اٹھانے سے منع کر دیا۔جس کی وجہ یہ ہے کہ عبد اللہ ابن مسعود کا اس لونڈی پر پورا قبضہ نہیں ہوا۔پس سوال کی صورت میں اگر شرط کو قائم رکھا جائےتو بکر بطریق اولی زمین سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ چونکہ بکرنے تصریح کی ہے۔کہ مجھے اس زمین کا حصہ چھوڑنا اور زید نے بھی اس بات کو منظور کر لیا۔اور اس پر عمل درآمد کرتے ہوئے۔حصہ دیتا رہا۔تو اب یہ شرط قائم نہیں رہ سکتی۔کیونکہ دونوں کے عمل درآمد سے بیع مکمل ہوگئی۔
تنبیہ۔اس حدیث سے گروی شے سے فائدہ اُٹھانا بھی ناجائز ثابت ہوا۔کیونکہ جب بیع میں صرف ایک شرط کی صورت ہونے میں فائدہ اٹھانا جائز ہے۔تو گروی جس میں شے بالکل مالک کی رہتی ہو اس سے فائدہ اٹھانا کس طرح جائز ہوگا۔؟اور بیع اس کو نہیں بنا سکتے کیونکہ فریقین اس کو بیع نہیں بناتے برخلاف سوال کی صورت کے فریقین نے اس کو بیع بنایااور بیع ہی لکھایا اس لئے سوال کی صورت کو مروجہ گرو کا حکم نہیں دے سکتے۔اور مروجہ گروی کا حکم گرو کا ہی رہے گا اور اس سے فائدہ اتھانا سود کے حکم میں ہوگا۔(عبد اللہ امرتسری روپڑی) (اخبار تنظیم اہل حدیث لاہور جلد 12 شمارہ 26)
جو کسی کی ملکیت نہ ہو اگر اس کوکوئی آباد کرے۔تو کیا صرف اتنے سے اس کی ملکیت ثابت ہوجائے گی۔یا کوئی اور بھی شرط ہے۔(حضرت العلام حافظ صاحب)