سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(151) کیا مکان کی پگڑی جائز ہے؟

  • 3261
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1571

سوال

(151) کیا مکان کی پگڑی جائز ہے؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مئلے میں کہ شہر کراچی میں زید ایک مکان بطور کرایہ دار چالیس روپے ماہوار میں  رہتا ہے۔اب کسی مجبوری کے تحت یہ مکان چھوڑ کر کسی دوسرے شہر میں جانا چاہتا ہے۔اور جاتے وقت مکان کا قبضہ بجائے مالک جایئداد  کو دے محمود کو دے  رہا ہے۔اور محمود زید سے یہ طے کر لیتا ہے۔کہ تم مالک جائداد سے اس مکان کی رسید میرے نام تبدیل کرائو۔تاکہ مالک جائداد مجھ کو اپنا کرادیہ دار تسلیم کرے۔اور مکان کا قبضہ مجھ کو دے۔کر مجھ سے بطور پگڑی مبلغ آٹھ ہزار روپے لے لو پھر محمود زید سے یہ معاملہ طے کر کے  بکرسے یہ کہتا ہے کہ میں نے زید سے ایک مکان آٹھ ہزار پگڑی پرلیا ہے۔ لیکن میرے پاس روپے نہیں ہیں۔ اس لئے تم آٹھ ہزار روپے زید کو دے کرمکان کی رسید اپنے نام کرالو مکان میں میں رہوں گا۔میں بطور کرایہ تم کو ایک سو چالیس  روپے ماہوار دیتا رہوں گا۔تم چالیس روپے ماہوار  مالک مکان کو دینا او ر اور سو روپے ماہوار  اپنے پاس رکھنا اور جب میرے پاس آٹھ ہزار روپے ہو جائیں گے۔تم کو آٹھ ہزار روپے دے کر مالک مکان سے رسید اپنے نام کرالوں گا۔اور چالیس روپے ماہوار میں  خود براہ  راست مالک جائداد کو دیتا رہوںگا۔ مہربانی فرما کر بتا یئں کہ بکر کو اس طریقے پر  سو روپے ماہوار لینا شرعا جائز ہے یا نہیں اس میں سود وغیرہ کا کوئی گنا تو نہ ہوگا۔ بکر کو اس طریقے پر سو روپے ماہوار لینا اگر ناجائز ہوتو دوسری بات محمود یہ پیش کرتا ہے کہ جب تک میرے پاس روپے ہوجایئں گے۔ اس وقت مکان کی پگڑی کی رقم  جو بھی دوسرا دے چاہے وہ گھٹ کر چھ ہزار روپے رہ جائے۔ چاہے آٹھ ہزار سے دس ہزار ہو جایئں۔وہ تم کو دے کر رسید اپنے نام کرالوں گا۔اور مالک جائداد کو براہ راست چالیس روپے ماہوار دیتا رہوں گا۔ازراہ عنایت تحریر فرمائیں۔کہ شرع شریف کی رو سے دونوں طریقے جائز ہیں یا ایک یادونوں ناجائز ہیں۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صورت مسئلہ بالا میں واضع ہو کہ اولا زید کو چاہیے کہ جب کہ مکان خالی کرکے دوسری جگہ منتقل ہونا چاہتا ہے تو مکان کا قبضہ مالک مکان کو دے دے اور محمود کا بکر کو سو رپیہ ماہوار دینا یہ سود ہے۔لقول النبي صلي الله عليه وسلم كل قرض جر منفعة فهوا ربا  نیز دوسری صورت بھی مشکوک ہے۔جوشرعا ٹھیک نہیں ہے۔فقط واللہ اعلم عبد القہار غفرلہ معاون نائب مفتی

(فتاوی ستاریہ جلد 4 صفحہ 16۔17)

توضیح

پگڑی مکان سود بھی ہے ۔ظلم اور غصب بھی ہے۔ یہ سلسلہ پگڑی در پگڑی چلتا رہے گا۔مالک مکان نہ کرایہ بڑھا سکے گا۔اور نہ اپنا قبضہ لے سکے گا۔یہ مکان تو ایک قسم کا گروی ہوگیا۔مالک مکان جب بھی قبضہ لے گا۔ قابض مکان کو وہ کل رقم ادا کر کے قبضہ لے گا۔واللہ اعلم علی محمد سیعدی۔


فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 14 ص 130

محدث فتویٰ

تبصرے