سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(147) زید نے اپنے ایک عزیز سے کچھ زمین گروی رکھ کر ایک ہزار روپیہ لیا...الخ

  • 3257
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-06
  • مشاہدات : 886

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زید نے اپنے ایک عزیز سے کچھ زمین گروی رکھ کر ایک ہزار روپیہ لیا۔کچھ دنوں بعد زید نے بکر سے پرونوٹ لکھالیا۔اس وقت زمین قیمت آٹھ سو روپے تھی۔مگر زید کو معلوم تھا کہ بکر نے ایک ہزار روپے دیا ہے۔اس لئے پرونوٹ ایک ہزار کا لکھایا دس سال گزر جانے کے بعد زمین 1800 روپے میں بکر نے بیچ ڈالی۔اور اپنے قرضے میں دے دی زید چاہتا ہے کہ ایک ہزار روپیہ زائد جو ملا ہے۔وہ زید کو دیا جائے۔بکر کہتا ہے کہ جب پرونوٹ لکھ دیا۔تو اب زید ایک ہزار سے زیادہ کا حق دار نہیں شرعا کیا حکم ہے۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کر نے جتنا قرض دیا ہے۔اتنا ہی ادا کرنا واجب ہے۔باقی جبر معلوم ہوتا ہے۔حدیث شریف میں آیا ہے۔علي اليد ما اخذت(اہل حدیث جلد نمبر 44 صفحہ 16۔17)
شرفیہ۔
سائل کا سوال واضع نہیں ہے۔پھر جواب اختصار مخل ہے۔سوال میں عزیز سے مراد بکر معلوم ہوتا ہے۔اور بکر نے پرونوٹ لکھوایا اس سے مراد بکر کو لکھ کر دےدیا معلوم ہوتا ہے۔اور اپنے قرضے میں دیدی سے مراد اپنے قرضہ میں مُجرا کر لی معلوم ہوتا ہے۔حاصل یہ معلوم ہوتا ہے کہ زید مقروض ہے۔بکر مقرض اور پرونوٹ سے مراد اگر یہ ہے کہ زمین ایک ہزار میں زید نے بکر کے ہاتھ فروخت کر دی تو جواب صحیح نہیں بنتا مگر یہ مراد بھی صحیح نہیں۔بظاہر صورت اولی ہے۔اور مجیب مرحوم نے جو لکھا ہے۔ کہ باقی جبر معلوم ہوتا ہے۔مرحوم کی مراد یہ ہے کہ زمین جتنے میں بکی وہ زید کی ملکیت بکی لہذا ایک ہزار روپیہ بکر انے قرضے میں محسوب کرے اور باقی روپیہ زید کا ہے۔وہ بکر کو لینا حرام ہے۔بلکہ دس سال تک وہ زمین اگر بکر مقروض کے قرضے میں رہی۔اور اس نے اس سے غلہ حاصل کیا گو اپنا خرچ بھی کیا تو وہ بھی بکر حساب کرنا ہوگا۔جتنا خرچ کیا ہے وہ اور اپنی محنت و لگان وغیرہ پورا حساب کر کے ے لے اب جتنا بچے وہ بھی زید کا ہے۔اور اغلب یہ ہے کہ اس صورت میں زید کو کچھ بھی دینا نہ پڑے گا۔اس حساب کی رو سے وہ سب روپیہ زید کا ہی ہوگا۔اس لئے کہ مقرض کو گروی شے سے نفع لینا جائز نہیں سود ہے۔فتاوی نزیریہ ملاحظہ ہو۔
مفتی مرحوم نے جس حدیث کا زکر کیا ہے وہ یہ ہے۔قال النبي صلي الله عليه وسلم علي اليد ما اخذت1 حتي تودي (ترمذی۔ابو دائود۔و ابن ماجہ میں مشکواۃ جلد 1 صفحہ 255)(ابو سعید شرف الدین دہلوی) (فتاوی ثنائیہ۔جلد 2 ۔صفحہ 147۔149)


 

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 14 ص 124

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ