ایک صاحب اناج کی منڈی رکھتے ہیں۔ان کی تجارت کا طریقہ یہ ہے۔کہ جو لوگ اناج لاتے ہیں۔اس کو نیلام کر کے اپنے کمیشن کاٹ کراناج کا روپیہ اپنے پاس سے ادا کر دیتے ہیں۔اور اناج کے خریداروں سے اپنی کمیشن بڑھا کرروپیہ روپیہ وصول کر لیتے ہیں۔کیا اس طرح دونوں طرف سے کمیشن لینی جائز ہے۔(عبدلحکیم)
بعض مسائل عرف عام پر مبنی ہوتے ہیں۔اگر اس منڈی میں دونوں طرف سے کمیشن لینے کا رواج ہے۔تو کوئی حرج نہیں اگر نہیں ہے تو دو طرف سے نہ لے بحر حال منڈی کے حالات پر موقوف ہے۔(اہل حدیث جلد 43۔44)
صورت مرقومہ میں حکم جواز ثابت نہیں رہا آڑھت کا معاملہ تو اس کے جواز کی یہ صورت ہے۔کہ آڑھتی صاحب سے اپنے مکان دوکان پر مال یا خود صاحب مال کے ٹھرانے کا کرایہ لے سکتا ہے۔کہ معاوضہ مکان کا ہے۔ایسے ہی تلوائی مال کا معاوضہ یا کسی چیز ٹھیلہ وغیرہ سے نکلوا کر بوریوں وغیرہ میں بھروانے لدوانے کا انتظام کرنا وغیرہ کی اجرت لے سکتا ہے۔جو شرعا جائز ہے۔مگر یہ سب مال والے سے ہے۔کہ توں جو کچھ مالک مکان کے زمہ ہے۔بحکم حدیثاذا ابتعت فاكتل واذا بعب فكل رواه احمد قال في مجمع الزوايد اسناده حسن كذاقي الليل (جلد 5 ص126) اب اس اجرت کا نام کمیشن رکھ لو یا اجرت و کرایہ غرض یہ جائز ہے۔اور مشتری سے کمیشن یا اجرت لینا جائز نہیں ہاں اگر مشتری کو بھی اپنی دکان مکان پر ٹہرانے یا مال لدوانے بوریوں یا ٹھیلے میں رکھوانا یااور کسی قسم کا انتظام کرنا ہو تو اس سے ان امور کا معاوضہ و اجرت لینی جائز ہے۔ ورنہ نہیں۔واللہ اعلم(ابو سیعد شرف الدین دہلوی)
(فتاوی ثنائیہ۔جلد2 صفحہ393۔394)