سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(117) چنے مکی کے برابر مقرر کرلینی جائز ہے یا نہیں؟

  • 3227
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 948

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آج ایک شخص کو مکی دے کر ہاڑی کو جو چنے مکی کے برابر مقرر کرلینی جائز ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

برابر ہو یا کم و بیش ہو دونوں حالتوں میں جائز ہے۔کیونکہ جنس مختلف ہے۔

تعاقب

مفتی صاحب اہل حدیث نے 30 ربیع الاول کے پرچہ اہل حدیث میں لکھا ہے۔کہ آج چیت کا مہینہ ہے۔ ایک شخص مکی دے کر ہاڑی کے موقع پر گندم برابر ہو یا کم و بیش ہر دوصورتوں میں لے سکتا ہے۔ غالباً مفتی صاحب نے مسلم کے الفاظ فاذا اختلفت هذه الا صناف فبيعو ا كيف شئتمپر  ساا دارومدار رکھا ہے۔اور فتوی دیا ہے۔جس میں انھوں نے مسامحت کی ہے۔ کیونکہ مختلف اجناس کی صورت میں جہاں کہیں بھی نبی کریم ﷺ نے بیع کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی ہے۔وہاںيد بيدا نقد بیع کرنے کی تاکید کی ہے۔اور ادھار کو ناجائز قرار1 دیا ہے۔

چنانچہ دیگر مقامات پر مختلف الفاظ نقل کر کے بد بید کے ساتھ مستفید فرمایا ہے۔مسند امام شافعی میں عبادہ بن صامت سے مرفوع حدیث ہے۔لا تبيعو الذهب بالذهب الحديث کے آخر میں ہے۔کہ گندم کو جو سے اور نمک کو کھجور سے مختلف اجناس جس طرح چاہو بیجو مگر نقد کی صورت ہونی  چاہیئے۔

1۔جو شخص بھوکا مر رہا ہو۔اور نقد لینے کی اس کو طاقت نہ ہو وہ کیا کرے اس کو متعاقب ن حل نہیں کیا(مولف)

حتٰی کے بخاری شریف اصح المطابع ص290 جلد اول کے الفاظ بيعو الذهب با القضة والفضة با لذهب كيف شئتم کی شرح میں علامہ کرمانی۔اور علامہ عینی فرماتے ہیں۔ومتساريا ومتقا ضلا بشرط التقابض في المجلسص صرف ایک مجلس میں نقد کی صورت میں جائز ہے۔چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ باب بيع الدينار با لدينار نسيا  میں نبی ﷺ کہ الفاظ لاربي الاقي النسية کی تشریح میں لائے ہیں۔هذا عند نا في الذهب بالورق والخطة با لشعير متفاضل ولا باس به يدا بيد ولا فيه نسية نقد تفاضل جائز ہے۔اور مذکورہ سوال کی صورت میں ادھار میں قطعا جائز نہیں۔اگرچہ اجناس میں اختلاف ہی کیوں نہ ہو۔علی ہذالقیاس مولوی عبد الرحمٰن صاحب  شرح  ترمذی جلد 2 ص239 باب ما جاء ان الخطة مثلا بمثل و كراهية التفاضل فيه عبادہ بن صامت کی حدیث کے لفظبيعوا الذهب بالفضة كيف شئتم يدا بيد وبيعو االبر با لتمر كيف شئتم يدا بيد کی شرح میں فرماتے ہیں۔حالاّ مقبوضاّ في المجلس قبل افتراتهما عن الاخر اس وقت مجلس میں جدا ہونے سے پہلے ایک دوسرے سے کم و بیش چیز لے سکتا ہے۔ ادھار کی صورت میں جائز نہیں چنانچہ اسی پر امام ترمذی نے کافہ اہل علم کا عمل زکر کیا ہے اور فرمایا ہے۔فا اذا ختلف الاجناس فلا باس ان يباع متفاضلا ّ اذا كان يدا بيد مکی کو جو سے نقد بیچنے کی صورت میں کم وبیش جائز ہے۔اور ادھار جیسا کہ مفتی صاحب نے فرمایا ناجائز ہے۔ان اريد الاالا صلاح (راقم محمد دائود ارشد عثمان والا ضلع لاہور    15 ربیع الاخر سن1364ھ (فتاوی ثنائیہ جلد 2 ص 454۔455)

اضافہ تشریح مفید۔از  حضرت مولانا عبد السلام مولوی فاضل بستوی۔


فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 14 ص 106

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ