سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(79) ۔ غلہ کی زکوٰۃ نکالنی واجب ہے یا نہیں

  • 3221
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1484

سوال

(79) ۔ غلہ کی زکوٰۃ نکالنی واجب ہے یا نہیں

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

غلہ کی زکوٰۃ جس کو عشر کہتے ہیں، نکالنی واجب ہے یا نہیں؟ اگر وجب ہے تو نہری زمین سے کتنا حصہ کس طرح آنا چاہیے؟ مولوی ثناء اللہ صاحب نے اخبار اہل حدیث مورخہ ۹ ربیع الثانی ۲۳۰ا ہجری مطابق مارچ ۱۹۱۲ء میں یہ مسئلہ بایں مضمون لکھا ہے کہ غلہ کی زکوٰۃ وجب ہے، مگر چونکہ سرکاری مال گذاری بھی ضروری ہے، اس لیے میری ناقص رائے میں بقایا میں سے چالیسواں حصہ ادا کرنا کافی ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 یہ مسئلہ باعث شہرت محتاج بیان نہیں ہے، مگر شاید مولوی ثناء اللہ صاحب کی تحریر سے شبہ پیدا ہوا ہے، وہی موجب سوال ہے، حدیث نبویﷺ میں تو صاف صاف یہ حکم ہے کہ جو بارش خواہ زمین کی شادابی سے پیدا ہو اس میں دسواں حصہ اور جس میں پانی سینچنے سے پیداوار ہو، اس میں نصف العشر یعنی بیسواں ہے، دو ہی صورت رسول اللہ نے فرمائی ہیں، مولوی ثناء اللہ صاحب کا یہ اپنا خیال ہے کہ سرکاری مالگذاری کے سبب سے کم ہونا چاہیے۔ اور چالیسواں حصہ کافی ہے، یہ ان کی ذہنی بات ہے، نہ شریعت کا حکم۔ شریعت میں دو ہی صورت ہے جو پہلے مذکور ہوئی اور حدیث میں وارد ہے، کہ صحابہ کرایہ کی زمین کی پیداوار میں سے عشر دیتے تھے اور چالیسواں حصہ کا ذکر بالکل نہیں ہے:
((عن یحییٰ ثنا ابن المبارك عن یونس قال سالت الزھری عن زکوٰة الارض التی علیھا الجزیه فقال لم تزل المسلمون علی عہد رسول اللّٰہ ﷺ وبعدہ یعاملون علی الارض ویسترونہا و یؤدون الزکوٰة مما خرج مما فتری ھذہ الارض علی نحوذ ذلك))
اگر کسی کو مرسل ہونے کا خیال ہو تو کم از کم اتنا تو ضرور ثابت ہے کہ مدینہ کا دستور یہی تھا کہ یہ ولی زمین میں عشر دیا جاتا تھا۔ اولاً نصوص کا عموم۔ اس کے ساتھ یہ روایت کیا عمل سخن ہے علاوہ چالیسواں حصہ اپنی صرف سے نکالنے کا کیا حق کسی کو ہے؟
تعاقب:… جناب نے اپنے موقر اخبار مجریہ ۲۰ جمادی الاول ۱۳۵۷ ھ میں سوال نمبر ۱۰۸ کے جواب میں فرمایا ہے کہ ایسی حالت میں نصف عشر یعنی بیسواں حصہ ادا کر دیان کافی ہے۔ جامع ترمذی اور صحیح بخاری وغیرہ میں ہے:
((عن سالم عن ابیه عن رسول اللّٰہ ﷺ انه سکن فیما سقت السماء والعیون او کان عثریا العشور وفیما اسقی بالنصح نصف العشر)) (ترمذی باب الصدقة) فیما یسقی بار نہار وغیرہا
’’یعنی رسول اللہ اس پیداوار میں جس کو آسمان (کی بارش) اور چشمہ پائے یا وہ زمین تری والی ہو( جس کے ٹپانے کی ضرورت نہ ہو، اس میں دسواں حصہ مقرر فرمایا ہے، اور جس کو اونٹ وغیرہ کے ذریعے ٹپایا ہو، اس میں بیسواں حصہ مقرر فرمایا ہے۔‘‘
اس حدیث سے اور اس کے ما سوا دوسری صحیح حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے کہ جو غلہ آسمانی یا نہر وغیرہ کے پانی سے پیدا ہو اس میں دسواں حصہ فرض ہے، یہی مذہب تمام محدثین کا ہے زمین کے خراجی ہونے سے عشر میں تخفیف نہیں ہو سکتی، ہمارے استاد مکرم حضرت علامہ زبان مولانا عبد الرحمن صاحب مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ نے شرح ترمذی میں یہی مسلک اختیار فرمایا ہے، نیز آپ نے اپنے دیگر فتویٰ قلمیہ اور مصبوعہ میں اسی کو حق وصواب فرمایا ہے، دیکھئے فتاویٰ نذریہ اور خاکسار کے پاس موصوف کا ایک قلمی فتویٰ بھی موجود ہے، آپ نے شرح ترمذی میں عشر کے علی الاطلاق بلاتخصیص واجب ہونے پر منجملہ اور دلائل کے دو اثر بیان فرمائے ہیں۔ پہلا اثر حضرت عمر بن عبد العزیز سے، عمرو بن میمون نے پوچھا کہ مسلمان کے قبضے میں خراجی زمین ہے، اور اس سے مال زکوٰۃ (یعنی عشر) طلب کیا جاتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرے ذمے خراج ہے، تو عمر بن عبد العزیز نے جواب دیا کہ
((الخراج علی الارض والعشر علی الحب))
’’یعنی خراج مال گذاری زمین پر ہے، اور عشر پیداوار پر ہے۔‘‘
دوسرا اثر امام زہری سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے ہعد میں اور آپ کے بعد مسلمان لوگ برابر زمین کا معاملہ کرتے ، اس کو کریہ پر، یعنی مالیہ کے عوض لیتے، اور اس کی زکوٰہ اس کی پیداوار سے ادا کرتے رہے،
((لم یزل المسلمون علی عہد رسول اللّٰہ ﷺ وبعد ہ یعاملون علی الارض ویستکرونھا ویؤدون الزکوٰة مما یخرج منھا))
پس اس صورت زکوٰۃ اور ہر دو اثر مذکور سے صاف نکلتا ہے کہ زمین سے جو غلہ بلا مؤنث اور خرچ کے پیدا ہو اس میں دسواں حصہ فرض ہے، اور بیسواں حصہ کافی نہ ہو گا، لہٰذا آنجناب سے مؤدبانہ عرض ہے کہ آپ اپنے جواب پر نظر ثانی فرما کر محقق و مدلل جواب سے بذریعہ اخبار مسرور و ممنون فرما دیں۔
جواب:… تعاقب کا یہ فقرہ جو بلا مونث اور خرچ کے پیدا ہو، اس میں عشر ہے اپنے معنی میں بالکل صحیح ہے، مگر اس سے پہلے جس صورت میں آپ نے نصف عشر خود تسلیم فرمایا ہے، اس کو مونت پر منبی آپ بھی مانتے ہیں، اب یہاں فقہ الحدیث کی بنا پر دیکھنا ہے کہ پانی کنویں سے نکالنے کی جو مؤنث (خرچ) ملحوظ رکھی گئی ہے تو نہری آبیانہ کو نظر انداز کس طرح کر سکتے ہیں۔ کیا ی مؤنت نہیں ہے، یقینا ہے، شریعت کے احکام میں غور و تدبر کرنا چاہیے، خصوصاً ان مسائل میں جو نظام حکومت کے متعلق ہوں کامل غور سے کام لینا چاہیے، مؤنت آبیانہ نہری کے علاوہ مؤنت مالکگذاری بھی قابل لحاظ سے میں اس کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتا، کیونکہ یہ بھی زمینداروں کی خود ساختہ مؤنت نہیں، بلکہ جبریہ مؤنث ہے، جو کسی طرح نظرانداز نہیں ہو سکتی۔ پس آپ آیات و احادیث پر فاروقی دماغ سے تدبر کرین، محض بے دلیل قیاس نہیں ہے، بلکہ اس کی بنا بھی ملتی ہے، چنانچہ آپ نے بھی چاہی مؤنث کی وجہ سے عشر تسلیم کیا، اور کرنا چاہیے۔ فافہم و تدبیر (۱۷ اکتوبر ۱۹۳۸ء) (فتاویٰ ثنائیہ جلد اودل ص ۴۶۵)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 7 ص 183۔185

محدث فتویٰ

تبصرے