کیا کوئی انجمن اپنے بیت المال میں ہر قسم کے صدقات خیرات زکواۃ جمع کر کے اس سے کتابیں چھاپ کر اس کی تجارت کر سکتی ہے؟
(مولنا عبید اللہ صاحب رحمانی مبارک پوری)
صدقات و خیرات کی رقم فقرا مساکین و دیگر مصارف منصوصہ کا حق ہے۔انجمن یا جمعیت وصول کرکے وکالتا اس اصول کو ان کے مصارف میں صرف کرنے کی زمہ دار ہے۔اس رقم میں ایسی تجارت جس میں اصل رقم کے اندر نقصان و خسارہ کا زرہ بھر کی اندیشہ ہو قطعا درست نہیں ہے۔ خاص صدقات کی رقم سے تجارت کرنے کے بارے میں خلافت راشدہ کے زمانے کا کوئی واقعہ نظر سے نہیں گزرا۔ہاں حضرت ابو موسٰی اشعری امیر بصرہ نے حضرت عمر کے دو صاحب زادے عبید اللہ اور عبد اللہ کو بطور قرض کےبیت المال کی کچھ ر قم جو غالباً جزیہ یا خمس غنائم کی تھی۔وہی تھی کہ اس سے تجارت کا مال خرید کر مدینہ لے جایئں۔اور فروخت کر کے اصل رقم امیر المومنین کے حوالے کردیں۔اور نفع خود رکھ لیں۔حضرت عمر نے اس کو پسند نہیں کیا۔پھر بعض مصاحبین کے مشورے سے اس کو مضاربت قرار دے کر اصل رقم سے آدھا نفع بیت المال میں داخل کر کے دیں۔اور آدھا نفع دونوں لڑکوں کو مضارب ہونے کی حیثیت سے دے دیا۔
(الاعتصام جلد 6 شمارہ نمبر 42)