دوبارہ خرید فروخت یعنی ایک وقت میں دو بیع کرنا نقد پر بیشی کےساتھ اور ادھار پر مکی کے ساتھ دینا اس طرح کی خریدو فروخت درست ہے یا نہیں اس کا جواب میں آپ کے ہاں سے فتوی آیا کہ نقد پر کم قیمت لینا اور ادھار پر زیادہ قیمت لینا درست ہے یہ مسئلہ ترمذی اور نیل الاوطار میں ملتا ہے۔اور اسی طرح کا فتوی اخبار اہل حدیث قبل رمضان سن 323ھ میں دیکھا گیا ہے۔مگر اس کے ثبوت میں کچھ شک پڑتا ہے۔کیونکہ ترمذی میں کوئی دلیل کافی نہ پائی اور نیل الاوطار یہاں موجود نہیں مگر برعکس اس کے ملتا ہے۔یعنی تلخیص الصاح باب البیوع جلد اول ص 142 مترجم مطبوعہ صدیقی لاہور۔کہ ایک وقت میں دو بیع کرنا درست نہیں ہے اور کیونکہ ادھار پر زیادہ قیمت لیتا رہا ہوگا۔اس واسطے مقرر عرض ہے۔کہ اس مسئلے میں قرآن حدیث سے جواب ملنا چاہیے۔ کسی کے رائے اور اجتہاد ضروری نہیں۔(عبد المجید اہل حدیث از دھورہ ٹانڈہ)
حدیث شریف میں آیا ہے۔کہ آپ ﷺ نے ایک بیع میں دو بیع کرنے سے منع فرمایا ہے۔اس حدیث کی تشریح میں اقوال مختلف 1ہیں۔ جس صاحب کو جو قول پسند 2ہوتا ہے۔ اس پر وہ نتائج مرتب کر دیتا ہے۔نیل الاوطار میں ایک قول یوں بھی موجود ہے۔اگر کوئی یہ کہے کہ نقد پر سوروپیہ اورادھار پر دو سو روپیہ لوں گا۔خریدار کہے میں نے نقد کی صورت یا ادھار کی صورت قبول کی تو جائز ہے۔(جلد نمبر5ص12)ترمذی میں بھی مرقوم ہے۔کہ صورت مرقومہ میں خرید جب ایک صورت کو اختیار کرے تو جائز ہے۔ (باب النهي عن بيعتين في بيعة3)
غرض صورت مرقومہ کےمنع پر کوئی آیت یا حدیث صاف دلالت نہیں کرتی۔اس لئے 4 جائز معلوم ہوتا ہے۔(25 فروری سن 1912ء)