سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(77) مسجد یا مدرسہ میں ایک میاں یا ملا رکھ کر گاؤں کے بچوں کو تعلیم دلاناالخ

  • 3212
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1285

سوال

(77) مسجد یا مدرسہ میں ایک میاں یا ملا رکھ کر گاؤں کے بچوں کو تعلیم دلاناالخ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 مسجد یا مدرسہ میں ایک میاں یا ملا رکھ کر گاؤں کے بچوں کو تعلیم دلائی جاتی ہے، اور ان میں صاحبان زکوٰۃ کے بچے بھی تعلیم پائیں تو کیا یہ جائز ہو گا یا نہیں، درآنحالیکہ زکوٰۃ دینے والے حضرات میاں یا ملا کی تنخواہ اپنے عشر و زکوٰۃ کی رقم سے دیتے ہیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 اصحاب اموال کا اپنے بچوں کو ایسے لوگوں سے تعلیم دلانا جن کو وہ تنخواہ اپنے اموال کی زکوٰۃ و عشر سے دیتے ہوں درست نہیں۔ ((ھذا ھو الواحج عندی الی ھذا الآن)) ایسے علمائے دین جو اس آیت کے مصداق ہوں۔ ﴿اَلَّذِیْنَ اُحْصِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ ضَرَباً فِی الْاَرْج، یَحْسَبُھُمْ الایة﴾ یعنی دین کی تعلیم و خدمت کے لیے وقف ہو گئے ہوں، اور فکر معیشت کے لیے وقت نہ نکال سکتے ہوں، ’’مساکین‘‘ میں داخل ہیں، بشرطیکہ انہوں نے تعلیم دین کو حصول زر کا پیشہ نہ بنا لیا ہو، ضرورت اور حاجت سے زیادہ نہ لیتے ہوں، اور کسی حالت میں بھی ساعی و سائل نہ بنتے ہوں، ایسے علماء و دعاۃ مد زکوٰۃ کے بلاشبہ مستحق ہیں، اسی طرح غریب طلبہ علوم دینیہ بھی آیت مذکورہ کی رو سے فقراء و مساکین میں داخل ہیں، اور ضروری ہے کہ اس مد سے ان کی خبر گیری کی جائے، رہ گئے علماء اغنیاء جو سونے چاندی کے نصاب کے مالک ہیں، یا خوشحال و زمیندار ہیں، یا کرایہ کی جائیدادوں کے مالک ہیں، اور قرآن و علوم دینیہ کی ترویج اور دعوت و ارشاد ہدایت و تبلیغ یا درس و تدریس میں مصروف و مشغول رہتے ہیں، ان کو زکوٰۃ دینی اور خود ان کو زکوٰۃ لینی جائز ہے، یا نہیں؟ اسی طرح مدارس کا اجراء و قیام اور مدرسین و ملازمین کی تنخواہ اس مد سے دینی جائز ہے یا نہیں، سو اس میں اختلاف ہے بعض علماء اہل حدیث اسے جائز و درست کہتے ہیں، ان میں سے بعض نے ان علماء و مدرسین کو ’’سبیل اللہ‘‘ میں داخل سمجھا ہے، ان کا خیال ہے کہ سبیل اللہ کے ذریعہ ایک جامع دعا دی مقصد کا دروازہ کھول دیا ہے، جس میں دین و امت کے مصالح کی ساری باتیں آ گئیں، مثلاً قرآن اور علوم شرعیہ کہ ترویج و اشاعت مدارس کا اجراء و قیام دعاۃ و مباخین کا قیام ارسال ہدایہ و ارشاد امت کے تمام مفید مسائل۔
اکثر علماء کے خیال میں سبیل اللہ سے مراد صرف مجاہدین و غزاۃ ہیں۔
((کما قال شمس الائمة ابن قدامه فی الشرح الکبیر علی متن المقنع لا خلاف فی انھم الغزاہ لان سبیل اللّٰہ عند الاطلاق ھو الغزو انتہیٰ))
علقمہ سید رشید رضا مصری مرحوم نے مخالفت کی ہے، چنانچہ لکھتے ہیں:
((ھٰذا غیر صحیح بل سبیل اللّٰہ ھو الطریق الوصل ای موضلة وجنة وھو الاسلام فی جملته واٰیات الانفاق فی سبیل اللّٰہ تشتمل جمیع انواع المنفقة المشروعة وما ذا یقول فی اٰیات الصدو الاضلالل عن سبیل اللّه ولحجرة فی سبیل اللّٰہ بل لا یصح ان یفسر سبیل اللّٰہ فی اٰیات القتال نفسھا بالغزولان القتال ھو  الغز وانما یکون فی سبیل اللّٰہ اذا ارید به ان تکون کلمة اللّٰہ ھی العلیاء ودینه ھو المسبع فی سبیل اللّٰہ فی الایة یعم الغزو والشرعی وغیرہ من مصالح الاسلام بحسب لفظه العر بے ویحتاج التخصیص الیٰ دلیل صحیح انتہیٰ قلت الواحج عندی انھم الغزاة خاصه واف کانت کلمة سبیل اللّٰہ یحسب لفظھا العر بے عامة تشتمل جمیع مصالح الاسلام العامة لکن المراد فی ایة مصارف الزکوٰة فیام اری واللّٰہ اعلم بمراد او کلامهہ الغزاة خاصة والدلیل علی ھذا التخصیص ما روی احمد ومالک و ابو داؤد و ابن ماجة وغیرھم عن ابی سعید مرفوعاً لا تحل الصدقة لغنی الا لخمسة لعامل علیھا او رجل اشتراھا بما له او غارم او غاز فی سبیل اللّٰہ الخ وعلی ھذا فلا یدخل فی سبیل اللّٰہ الاغنیائُ من اصحاب الدعوة والارشاد والھدایة والتبلیغ واہ فتاء والتدریس وغیرھم من الموظفین فی المدارس الدینیة ولا یدخل فیھا ایضاً تاسیس المعاہد الدینیة وتعمیرھا واعانتھا واقامتھا وغیر ذلاک مما یشبه))
اور بعض علماء اہل حدیث نے ایسے اصحاب نصاب کو ((عَامِلَیْنَ)) میں داخل سمجھا ہے، ان کا خیال یہ ہے کہ عاملین کو زکوٰۃ کا مصرف ٹھہرانے کی علت بجز اس کے اور کچھ نہیں، ان عاملین نے ایک کام کو جو مصالح سے ہے، انجام دیا ہے۔
((قال الشوکانی فی حدیث ابن سعید (عند الشیخین) دلیل علی ان عمل الساعی سبب لاستحقاق الاجرة کما ان وصف الفقراء والمسکنة ھو السبب فی ذلک واذا کان العمل ھو السبب اقتضیٰ قیاس قواعد الشرح ان الماخوذ فی مقابلة اجرة))
اسلامی حکومت کے اور عاملین کو اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر زکوٰۃ کا مصرف نہیں ٹھہرایا ہے، لیکن روایات حدیثیہ سے ثابت ہے کہ عہد نبوت میں جو اشخاص اس قسم کے کاموں کو انجام دیتے تھے، ان کو بھی رسول اللہﷺ ان کے کاموں کی اجرت عنایت فرماتے تھے، ابو داؤد میںبریدہ سے مرفوعاً روایت ہے:
((من استعملنا علی انه عمل فرذقنا رزقاً فما اخذ بعد ذلک فھو غلول قال الشوکانی فیه دلیل علی انه لا یحل للعامل زیادة علی ما فرض له من استعمله وان ما اخذہ بعد ذالک فھو من الخلول وذالک بناء علی انه اجارة ولکنھا فاسدة یلزم فیھا اُجرة المثل  الی اخر ما قال)) (نیل الاوطار)
پس حکومت اسلامی کے دیگر عاملین مثل قضاۃ وغیرہ بوجہ اشتراک فی العلۃ حکم سعاۃ میں داخل ہیں، اس کے علاوہ عہد خلافت راشدہ میں بھی دیگر عاملین کی اجرت بلکہ خود حاکم کی اجرت مال مسلمین سے دیا جانا ثابت ہے، اور انہی وجوہ سے خلف و سلف کی ایک بڑی جماعت اسی جانب گئی ہے۔
((قال الطبری ذھب الجمہور الیٰ جواز اخذ القاضی الاجوة علی الحکم لکونه یشتغله الحکم من القیام بمصالحه (عمدة القاری للعینی) واحتج ابو عبدیة علی جواز ذلک بما فرض اللّٰہ للعاملین علی الصدقة جعل لھم حقا منھا القیامھم وسعیھم الیٰ قوله وقال ابن المنذر حدیث ابن سعدی حجاز فی جواز ارزاق القضاة من وجوھھا (فتح الباری) وقال القاری فی المرقات فی شرح حدیث وغیرہ جواز اخذ البیقھی من بیت المال علی العمل العام وان کان فرضاً کالقضاء والحسبة والتدریس بل یجب علی الامام کفایة ھولاء ومن فی معناھم فی بیت المال انتہیٰ (وقال المولوی عبد الحی لکھنوی فی عمدة الرعایت وکل من فرض نفسه بعمل من امور المسلمین یستحق علی ذلک رزقاً کالقاضی الخ))
پس ایسا مدرسہ جو مصالح مسلمیں پر مشتمل ہے، اس کے مدرسین کو مد زکوٰۃ سے تنخواہ دینی کیوں درست نہیں، ساتھ ہی اس کے اس زمانہ میں مدارس دینیہ کے قیام و بقا کی جو ضرورت ہے، وہ مخفی نہیں، یہ بھی ظاہر ہے کہ تاوقتیکہ مدرس کی امداد مد زکوٰۃ سے نہ ہو گی۔ کوئی مدرسہ چل نہیں سکتا، پس جب عاملین صدقات کے ساتھ دوسرے عاملین ملحق ہیں، اور عاملین زکوٰۃ کے لیے بحالت ان کے غنی ہونے کے بھی زکوٰۃ سے اجرت لینی درست ہے۔ تو مد زکوٰۃ سے مدرسین کو زکوٰۃ معین و غیر معین دونوں طرح لینا ان کے غنی ہونے کی صورت میں بھی جائز اور درست ہو گا، جیسا کہ حضرت ابو بکر کی تنخواہ کے واقعہ سے ثابت ہے:
((اخرج ابن سعد عن میمون قال لما استخلف ابو بکر جعلوا اله الفین فقال زید ولی فان لی عیاہ وشغلتمو فی عن التجارة فزاودہ خمس مائة)) (تاریخ الخلفاء)
علماء حنفیہ کے نزدیک مد زکوٰۃ سے مدرسین و ملازمین مدرسہ کو بصورت ان کے غنی ہونے کے تنخواہ نہیں ادا کی جا سکتی، اور نہ ان کے لیے لینا جائز ہے، وہ کہتے ہیں، زکوٰۃ ایک فریضہ الٰہی ہے جس کی ذمہ داری مالک نصاب پرہوتی، اور چونکہ وہ حض روزہ نماز کی طرح ایک عبادت ہے، اسی لیے مالک نصاب کو مقررہ شروط و قیوط کا لحاظ رکھتے ہوئے ، مال کا ایک معین حصہ اس کے مصارف میں بطور تملیک اس طرح ادا کرنا ضروری ہے، کہ اس کی ادائیگی میں بجز امتثال امر الٰہی شخص مؤدی الیہ سے کسی قسم کی کوئی غرض حصول نفع کی خاطر نہ ہو (تنویر الابصار) اس لیے وہ ان لوگوں پر بھی اس کو صرف نہیں کر سکتا کہ جن کے دینے میں حصول نفع کا احتمال ہو۔
((کما قال فی رد المختار فلا یدفع لاصلله ای وان علاو لفرعه ای وان سفل وکذاالزوجته وزوجہا وعبدہ ومکاتبه لانه بالدفع الیھم لم تنقطع المسقعة عن الملک ای المذکی من کل وجه)) (رد المختار جلد نمبر ۲ ص۷۷)
اور اسی بنا پر اجرت معاوضہ بھی اس کا صرف کرنا جائز نہیں، معلوم ہوا کہ مدرسین کی تنخواہ مد زکوٰۃ سے نہیں ادا کی جا سکتی کہ وہ معاوضہ ہے ان کے عمل کا اور زکوٰۃ میں معاوضہ مقصود نہیں ہوتا، حنفیہ کہتے ہیں کہ عاملین صدقات کے ساتھ اغنیاء مدرسین کو ملحق کرنا صحیح نہیں۔ کیونکہ ان کو جو کچھ ملتا ہے، وہ بطریق عمالہ ہے اور چونکہ یہ عمالہ بقدر کفاف یعنی ان کے اور ان کے اعوان کی ضرورت اور حاجت کے مطابق دیا جاتا ہے، اس لیے اس کو اجرت و معاوضہ سمجھنا غلط ہے، کیونکہ وہ مقدار جو اس کو اور اس کے اعوان کو کافی ہو سکے، وہ مجہول اور غیر معلوم ہو، اور احد العوضین کی جہالت و جواز اجارہ سے مانع ہے، پس معلوم ہوا کہ عامل صدقہ کا استحقاق بطور اجرت و معاوضہ کے نہیں ہے، بلکہ بطریق کفایہ ہے، بنا بریں مدرسین و ملازمین مدرسہ کو عاملین صدقات کے ساتھ ملحق کرنا غلط ہے۔
حنفیہ کہتے ہیں کہ دیگر عاملین کے عمالہ سے جو ان کو بیت المال سے ملتا ہے، مدرسین کے مد زکوٰۃ سے تنخواہ دینے کے جواز پر استدلال صحیح نہیں ہے، اس لیے کہ بیت المال دراصل اسلامی خزانہ کا نام ہے، جس کے مختلف شعبے ہوتے تھے، اور ہر شعبے کے مصارف جداگانہ ہوتے ہیں، مثلاً ایک شعبہ بیت الخمس کا تھا، جس میں جنس غنائم وغیرہ جمع ہوتے تھے، اور اس کو آیت :  ﴿وَاَعْلَمُوْا اَنَّمَا غَنَمْتُمْ الخ﴾ کے تحت صرف کیا جاتا تھا، دوسرا شعبہ بیت الصدقات تھا جس میں عشر و زکوٰۃ فطرہ کے اموال جمع ہوتے تھے، اور اس کو مصارف مفاوضہ ثمانیہ میں صرف کیا جاتا تھا، تیسرا شعبہ خراج الارض والجزیہ تھا، جس میں زمینوں کا خراج اور جزیہ وغیرہ کا مال جمع رہتا۔ اس شعبہ سے قاضی مفتی اور علماء کرام کو بقدر کفاف ملتا تھا، چوتھا شعبہ لاوارث لوگوں کے ترکہ اور لقطات کا تھا، جس کو ضوائح کہتے ہیں، اس سے عام مصالح مسلمین میں امداد ملتی تھی (عالمگیری) پس یہ ثابت کر کے علماء و قضاۃ اور عمال کو بیت المال سے تنخواہ ملتی تھی، یہ ثابت کرنا مد زکوٰۃ سے مدرسین تنخواہیں پا سکتے ہیں، صحیح نہیں، الی آخرہ۔
توضیح:… ان سب عبارتوں کا جواب قاضی محمد سلیمان منصور پوری کے مضمون میں دیکھئے (سعیدی)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 7 ص 178-183

محدث فتویٰ

تبصرے