تاڑی کے خمر سے ڈبل روٹی یا بسکٹ وغیرہ بنا کر اس کی تجارت کرنا جائز ہے یا نہیں اور ان کے کھانے کا کیا حکم ہے۔کیونکہ بعض کارخانوں میں بعض تاڑی کے خمیر سے روٹی بسکٹ وغیرہ تیار ہو کرانگریزوں وغیرہ کو فروخت کرتے ہیں اس کی تجارت کا کیا حکم ہے۔؟
ایسے بسکٹوں کی بابت میں نے علماء یورپ کا طرز عمل دو اصولوں پر پایا ہے۔مولنا حافظ عبد اللہ صاحب غازی پوری تو نہیں کھاتے تھے۔یہ تو اس اصول پر تھے کہ تاڑی تو بذات خود چونکہ متشی چیز ہے۔اس کے بسکٹ بھی ناقابل اکل ہیں۔
مولانا عبد العزیز کھاتے تھے۔یہ اس اصول پر تھے کہ خمیر کے بعد جو آٹا تیار ہوا ہے ۔اس مجموعہ میں نشہ نہیں اس لئے حرام نہیں یہ ہیں دو مختلف اصول جس سے جس عمل پر ہوسکے کرے۔
میں کہتا ہوں کے دوسرا اصول بالکل غلط ہے۔کہ مجموعہ میں نشہ نہیں لہذا جائز یہ اصل حدیث نبوی کے خلاف ہے۔قال رسول الله صلي الله عليه وسلم ما اسكر كثيره فقليله حرام رواه ترمذي و ابو داود و ابن ما جه وقال رسول الله صلي الله عليه وسلم ما اسكر منه العرق فملاء الكف منه حرام
(رواہ احمد و ترمذی۔و ابو دائود ۔ومشکواۃ۔جلد1 صفحۃ 317)
یہ امر بدہی ہے کہ جب فرق اسکر تو ملا الکف مسکر نہیں اور حرام ہے۔اس سے قلیل میں شرط نشہ باطل ہے۔
(فتاوی ثنائیہ جلد2 ص438)