السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
گاؤں والے صدقہ زکوٰۃ عشر اور چرم قربانی جمع کر کے ایک یا دو مدرس رکھ کرگاؤں کے بچوں کو تعلیم دلاتے ہیں، کیا اس مدرسہ میں مالداروں کے بچے بھی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں، اور کیا اس قسم کے مال کو مسجد میں بھی لگایا جا سکتا ہے، یا اپنی ہی مسجد کے لیے منع کیا گیا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نفلی صدقات و خیرات اور فریضہ عشر و زکوٰۃ اور چرم ہائے قربانی، ان تینوں کا حکم ایک نہیں ہے، یہ معلوم ہے کہ قربانی اور ہدی میں فرق ہے، بنا بریں قربانی کی کھال فقراء و مساکین کے لیے مخصوص نہیں ہ وگی، قربانی کرنے والا خود بھی اس کو اپنے مصرف میں لا سکتا ہے، اور دوسرں کو ہدیہ بھی کر سکتا ہے، اور مہدی الیہ و موہوب لہٗ اس کو اپنی ضروریات کے علاوہ تمام مصالح اور رفاہ عام کے کاموں میں بھی صرف کر سکتا ہے، اور طلبہ کے وظائف ، مدرسین کی تنخواہوں اور مدارس کی تعمیر و ترمیم پر بدرجہ اولیٰ خرچ کر سکتا ہے، علامہ محب الدین الخطیب العواصم بن القواضم کے مقدمہ ص ۲۶ میں قاضی ابو بکر بن العربی مالک قاضی اشبیلیہ کے متعلق لکھتے ہیں:
((کان ابن العربی اول من خطر علی باله الاستقادة من جلود الاضاحی فی المصالح العامة محض الناس علی ان یتبر عوا بجلود اضاحیہم لبنا، ہذ الرسول (ای سور اشبیلیة) فکان فی ذلک موفقا الا ان اعداء ہ وصبغضی طریقة اثار والعامة علیه باسالیہم الخبیثة الخ))
نفلی صدقات و خیرات محض اختیاری ہوتے ہیں، اور صرف فقراء و مساکین کو دئیے جاتے ہیں، اور اس کے دینے سے محض اخروی ثواب مقصود ہوتا ہے، کوئی دنیاوی منفعت مطلوب نہیں ہوتی۔ پس نفلی صدقہ کرنے والوں کو اپنی خیرات کی رقم کو اپنے بچوں کی تعلیم پر یا غریب کے بچوں کی تعلیم پر یا غریب ملازم کی تنخواہ میں صرف کرنا صدقہ اور خیرات کے مفہوم اور موضوع شرعی کو مسخ کر دینا ہے، فرض زکوٰۃ کا مصرف قرآن میں موجود ہے، جو علماء اہل حدیث (سبیل اللہ) کو مطلق وجوہ خیر پر محمول کرتے ہیں، وہ زکوٰۃ عشر کو مدرس کی تنخواہ اور تعمیر مدرسہ ومسجد وغیرہ میں صرف کرنے کو جائز بتاتے ہیں، اور جو اس کو جہاد بالسیف پر محمول کرتے ہیں، ان کے نزدیک اموال زکوٰۃ و عشر کا جہاد اور اس کی ضروریات کے علاوہ دوسرے غیر منصوص وجوہ خیر میں صرف کرنا ناجائز نہیں وہذا ہوا لراحج عندی۔
بعض علماء اہل حدیث کا خیال ہے کہ زکوٰۃ و عشر کی رقم سے جس مدرس کو مستقلاً غرباء کے بچوں کو تعلیم کے لیے تنخواہ دی جائے، تو زکوٰۃ دہندگان کے بچے تبعاً اس مدرس سے تعلیم حاصل کر سکتے ہیں، ولا یخفیٰ ما فیه
ہر شخص پر اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت صحت و لباس کا انتظام ضروری ہے جب عشر و زکوٰۃ بچوں کو کھلانا جائز نہیں تو ان کی روحانی و دماغی غذا پر بھی صرف کرنا جائز نہ ہو گا۔
زکوٰۃ و عشر نہ اپنی مسجد پر خرچ کرنا جائز ہے، نہ دوسری مسجد پر۔ مسجد اور اس کی ضروریات زکوٰۃ کے مصرف میں داخل نہیں ہے۔ واللہ اعلم بالصواب (مولانا عبید اللہ رحمامی مبارکپوری) (ترجمان دہلی جلد ۶ شمارہ)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب