السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
فتوٰی عشر پر ایک نظر ڈالتے ہیں ؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جناب حضرت العلام علامۃ الدبر و مجتہد العسر حافظ عبد اللہ صاحب محدث روپڑی متع اللہ المسلمین بطول حیاتہم کا علم و فضل مسلم ہے، آپ جامع معقول و منقول ہے۔ ماہر اصول و فروع ہیں، خصوصاً میری عقیدت میں آنجناب بحر العلوم ہیں، جن پر جماعت کو جا بجا طور پر ناز ہے کئی بار کا تجربہ ہے، کہ راقم الحروف نے مسائل مختلف فیہا میں حضرت العلام سے تبادلہ خیالات کیا، تو آپ مجھے علمی سمندر کی اتنی گہرائی میں لے گئے کہ وہاں پہنچ کر غوطے کھانے لگا، آخر آپ ہی نے اطمینان دلا کر بفضل خدا سلامتی سے باہر نکال لیا، تو میں نے آپ کا یہ کمال دیکھ کر یہ کہا:
عالم بین العلوم کامل بین الکمال مثله ما جاء شخص فی الدھر والزمن
لیکن بندہ کسی جامع العلوم سے کتنی ہی حسن عقیدت رکھتا ہو، ان کی بات بلا دلیل تسلیم نہیں کیا کرتا۔ بلکہ اس کو تقلید تصور کرتا ہوں، اس لیے ہر شرعی مسئلہ کی دلائل سے تحقیق کرنے کے درپے رہتا ہوں، جب تک اس مسئلہ کی دلیل سمجھ میں نہ آئے، کبھی نہیں مانتا، چنانچہ ایسے ہی حضرت العلام حافظ صاحب روپڑی کا یہ فتویٰ کہ ’’جو شئے ذخیرہ ہو سکے، اس سے عشر دینا پڑے گا، راجح مذہب یہی ہے۔‘‘
میری سمجھ سے بالا تر ہے، کہ اس کی نہ کوئی دلیل بعبارۃ النص حضرت ممدوح کے مضمون میں مل سکی، اور نہ ہی دیگر کتب شرعیہ میں۔ ہاں یہ ائمہ دین میں سے کسی امام مجتہد کا اجتہاد ہو جس کی اتباع حضرت العلام نے فرمائی ہو، تو یہ ممکن ہے، لیکن ؎
ما اہل حدیثم ودغار انش سیم باقول بنی چوں وچرانشا سیم
اگر اجہتاد مجتہد اور قول خلاف عبارۃ النص حجت ہے، تو پھر علماء اہل حدیث کو مجتہد امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا یہ مسلک مان لینا چاہیے کہ ’’زمین کی ہر پیداوار قلیل و کثیر میں عشر واجب ہے، کہ اس میں احتیاط بھی ہے، اور ظاہر قرآن : {مِمَّا اخرجنا لکم من الارض} کے مطابق بھ ہے، لیکن حدیث نصاب ((خمسۃ اوسق)) سے دست بردار ہونا پڑے گا، اگر یہ تسلیم نہیں تو پھر یہ بھی تسلیم نہیں کہ ہر شیٔ ذخیرہ ہو سکنے والی میں عشر ہے۔‘‘ کہ یہ مندرجہ ذیل دلائل کے سراسر خلاف ہے، جن کا کوئی مسکت جواب نہیں ہے۔
دلیل اول:… تحفۃ الاحوذی جلد نمبر ۲ صفحہ ۱۴ میں ہے:
((رواہ الحاکم فی المستدرك عن معاذ رضی اللّٰہ عنه ان رسول اللّٰہ ﷺ قال فیما سقت السماء والبللی واللیل العشر وفیما سقی بالنضح نصٖ العشر وانما یکون ذلك فی التمر والحنطة، والحبوب۔ واما القشاء والبطیخ والرمان والقصب فقد عفی عنه رسول اللّٰہ ﷺ۔ قال الحاکم صحیح الاسناد))
’’یعنی حاکم نے مستدرک میں معاذ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس کو بارش نے پانی پلایا۔ تروتازگی زمین نمناک سے پیدا ہوئی یا سیلاب سے سیراب ہو کر پیدا ہوئی۔ اس چیز میں دسواں حصہ ہے، اور جس پیداوار کو پانی نکال کر دیا جائے، اس میں بیسواں حصہ ہے، اور کھجور اور گندم اور غلہ میں ہے، ککڑی، کھیرے اور کدو خربوزے، اور انار اور گنا پونڈا۔ بانس سے رسول اللہﷺ نے عشر معاف کر دیا ہے۔‘‘
اس حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ زراعت اور باغ کی ان چیزوں میں زکوٰۃ ہے جو طعام کے طور پر استعمال میں آتی ہے، جن میں سے بعض کا نام لیا ہے، کہ کھجور اور گندم ہیں، اس تخصیص کے بعد تعمیم ہے کہ حبوب، دانوں میں عشر ہے، اس کلام میں ((انما ذلك)) جملہ حصر پر دال ہے پس کپاس سبزی، کماد وغیرہ اس سے خارج ہوا۔
دلیل دوم:… جزوء کتاب الزکوٰۃ ابن ابی شیبہ ص ۱۸ میں ہے:
((عن ابی سعید قال قال رسول اللّٰہ ﷺ اذا بلغ الطعام اوسق ففیه الصدقة))
’’یعنی جب طعام پانچ وسق کو پہنچ جائے تو اس میں زکوٰۃ ہے۔‘‘
اس سے ظاہر ہوا کہ کپاس، کماد، سبزی وغیرہ جو کیلی اور طعام نہیں، ان پر زکوٰۃ نہیں۔ صاع اور وسق میں کھجور، زبیب حبوب گندم وغیرہ کا اندازہ کیا جاتا ہے۔ کماد۔ کپاس کا نہیں کہ نہ ان میں زکوٰۃ ہے، اور نہ ان کا صاع یا وسق سے نصاب بیان کیا گیا ہے، کماد کی زکوٰۃ جب معاف ہوئی، جو اصل ہے، تو شکر، گڑ، کھانڈ کی خود معاف ہو گی کہ وہ اس کی فرع ہے۔ ہاں ان کی صراحت آ جائے تو مانا جا سکتا ہے، ورنہ قیاس کو بمقابلہ نصوص کوئی دخل نہیں ہے کہ یہ طعام عرفاً نہیں ہے۔
دلیل سوم:… جز کتاب الزکوٰۃ ص ۱۹ میں ہے:
((عن عمرو بن شعیب عن ابیه عن جدہ عن النبی ﷺ قال العشر فی التمر والزبیب والحنطة والشعیر))
’’یعنی نبیﷺ نے فرمایا کہ عشر کھجور اور داکھ اور منقیٰ اور جو میں ہے۔‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہر دانہ اور غلہ اور طعام اور میوہ میں عشر نہیں ہے، عشر صرف چار چیزوں میں ہے، کھجور، منقیٰ، گندم، جو۔
جن حدیثوں میں حبوب اور طعام کا لفظ ہے، وہ مجمل ہیں یا عام ہیں، اور یہ حدیث ان کی مفسر ہے یا مخصص ہے، امام طحاوی نے دو حدیثوں کی بابت ایک مقام پر یہ قائدہ ظاہر کیا ہے کہ :
((ان الان مفسرة وھٰذا مجملة فالمفسر من ذلك اولیٰ من المجمل))
’’یعنی روایت اولٰ مجمل ہے، اور دوسری قسم ہے، مفسر کا لینا اولیٰ ہے۔‘‘
دلیل چہارم:… نیل الاوطار جزء رابع ص ۱۴۳ مصری میں ہے:
((اخرجه الحاکم والبیہقی والطبرانی من حدیث ابی موسیٰ ومعاذٍ حین بعثھم النبی ﷺ الی الیمن یعلمان الناس امر دینھمد فقال لا تاخذ الصدقات الا من ھٰذا الاربعة الشعیر والحنطة والذبیب والتمر قال البیھقی رواته ثقات وھو متصل))
’’یعنی ابو موسی رضی اللہ عنہ اور معاذ رضی اللہ عنہ کو نبی ﷺ نے یمن کی طرف بھیجا کہ لوگوں کو دین کی تعلیم دیں، اور ساتھ ہی عاملین کی حیثیت سے لوگوں سے زکوٰۃ وصول کریں، پس عشر فصلی چار چیزوں سے وصول کریں، ان چار کے علاوہ کسی چیز پیداوار سے عشر نہ لیں، اور وہ چار چیزیں یہ ہیں: جو۔ گندم۔ منقی۔ کھجور۔‘‘
اس حدیث میں صاف حصر کے ساتھ یہ بیان کیا گیا ہے کہ عشر صرف چار جنسوں میں ہے، ان کے علاوہ کسی چیز سے لینا منع ہے۔
دلیل پنجم:… جز کتاب الزکوٰۃ ص ۱۹ میں ہے، ابو بردہ کہتے ہیں:
((عن ابی موسیٰ الاشعری انه لم یاخذھا الا من الحنطة والشعیر والتمر والزبیب))
’’یعنی حسب الحکم ابو موسی الاشعری رضی اللہ عنہ چار اشیاء مذکورہ کے بغیر کسی جنس سے زکوٰۃ وصول نہ کرتے تھے۔‘‘
اسی طرح حضرت معاذ کا عمل مروی ہے، پس ارشاد نبوی اور عمل عاملین صاف مظہر ہیں کہ عشر صرف چار چیزوں میں ہے، ان کے علاوہ کسی پیداوار میں عشر نہیں ہے۔
حضرت حسن بصری رضی اللہ تعالیٰ سے مروی ہے کہ:
((والزکوٰة فی البر والشعیر والتمر والزبیب))
’’یعنی زکوٰۃ صرف گندم، جو، کھجور، منقیٰ میں ہے۔‘‘
ان کے علاوہ کسی جنس میں کسی حدیث صحیح سے عشر ثابت نہیں ہے۔
دلیل ششم:… ((عن علی قال الصدقة عن اربع من البر فان لم یکن بو فتمر فان لم یکن عمر قریب فان لم یکن زبیب فشعیر)) (جزء کتاب الزکوٰة ص۱۹)
’’یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ صدقہ چار چیزوں میں ہے، گندم میں ہے، اس میں نہ ہو تو کھجور میں ہے، کھجور میں نہ ہو تو منقیٰ میں ہے، اگر منقیٰ میں نہ ہو تو جو میں ہے۔‘‘
دلیل ہفتم:… مشکوٰۃ میں ہے:
((عن موسی بن طلحة قال عندنا کتاب معاذ بن جبل عن النبی ﷺ انه قال انما امرہ ان یاخذ الصدقة من الحنطة والشعیر والزبیب والتمر موسل رواہ فی شرح السنة))
’’یعنی موسیٰ بن طلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہمارے پاس حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کا خط ہے جو نبی کریم ﷺ سے منقول ہے کہ معاذ نے کہا کہ مجھ جو نبی ﷺ نے حکم فرمایا کہ زکوٰۃ چار چیزوں سے لیں۔ گندم،جو، کھجور اور منقیٰ سے یہ حدیث مرسل ہے، جس کی تائید، دوسری مرسل سے ہوتی ہے۔‘‘
دلیل ھشتم:… ((عن الشعبی انه قال کتب رسول اللّٰہ ﷺ الیٰ اھل الیمن انما الصدقات فی الحنطة والشعیر والتمر والزبیب))
’’یعنی شعبی نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے اہل یمن کو لکھا کہ صدقہ صرف ان چیزوں میں ہے، گندم، جو، کھجور، انگور (ان کے علاوہ کسی چیز میں نہیں ہے)۔‘‘
دلیل نھم:… دارقطنی میں عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ کی روایت میں الفاظ یہ ہیں:
((انما سن رسول اللّٰہ ﷺ الزکوٰة فی الحنطة والشعیر والتمر والزبیب))
’’یعنی رسول اللہﷺ نے طریقہ ٹھہرا عشر زکوٰہ کا چار چیزوں میں گندم، جو، کھجور، انگور خشک۔‘‘
دلیل دھم:… نیل الاوطار میں ہے:
((اخرجه الطبرانی عن عمر قال انما سن رسول اللّٰہ ﷺ الزکوٰة فی ھذہ الاربعة فذکرھا))
’’یعنی رسول اللہﷺ نے چار فصلی چیزوں میں عشر مقرر کیا ہے، جو مذکور ہوئیں۔‘‘ (یہ حدیث مرسل ہے)
((تلك عشرة کاملة)) یہ دس دلائل مجموعی طور پر اس امر کے ثبوت پر قطعی ہیں، کہ عشر چار فصلی چیزوں میں منحصر ہے، ان کے علاوہ کسی چیز میں عشر نہیں ہے، ابن ماجہ میں جوار کا ذکر ہے، جو غیر ثابت ہے، پس ان کے علاوہ کسی چیز میں عشرلینا درست نہیں، سخت خطرہ کا مقام ہے۔ کہ حدیث میں ہے کہ
((المعتدی فی الصدقة کما نعھا))
’’یعنی زکوٰۃ لینے میں زیادتی کرنے والا مثل زکوٰۃ نہ دینے والے کی ہے۔‘‘ نعوذ باللّٰہ منھا
اس بنا پر امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ
((فیکنو الحاق ما ذھب الیه الحسن البصری والحسن بن صالح والثوری والشعبی من ان الزکوٰة لا تجب الانی البر والشعیر والتمر والزبیب لا فیما عدا ھذہ الاربعة مِمّا اخرجت الارض))
’’یعنی اس مسئلہ میں حق مسلک امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ اور حسن بن صالح اور امام ثوری رحمۃ اللہ علیہ اور امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے کہ زکوٰۃ ان چار چیزوں میں منحصر ہے۔‘‘
اسی طرح تلخیص الجیر میں حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کا فیصلہ ہے، اور اسی طرح علامہ امیر یمنی کا سبل السلام میں فیصلہ ہے، ان کے علاوہ تنقیع الروۃ تخریج مشکوٰۃ میں علامہ مولانا ابو الوزیر احمد حسن محدث مرحوم حدیث ’’اربعہ اجناس‘‘ پر لکھتے ہیں کہ
((والحدیث یدل علی انه لا تجب الزکوٰة الا فی البر والشعیر والتمر والزبیب لا فیما عدا ھذہ الاربعة))
’’یعنی حدیث اربعہ اجناس اس حکم پر دال ہے کہ زکوٰۃ فصلی ان چار جنسوں پر واجب ہے، گندم، جو، کھجور اور انگور خشک، ان چار کے سوا کسی جنس زراعت پر زکوٰۃ واجب نہیں۔‘‘
پس مؤلف سبل السلام علامہ یمنی کا یہ فرمان صحیح ہے کہ
((فالا وضح دلیلا مع الحاصرین للوجوب فی ھذہ الاربعة))
’’یعنی جو لوگ چار جنسوں میں زکوٰۃ عشر کا حصر کرتے ہیں، ان کی دلیل بہت واضح ہے۔‘‘
پھر اس کے قریب امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب ہے کہ ’’جمیع حبوب جو طعام کا حکم رکھتے ہیں، ان سے عشر لیا جائے۔‘‘
جیسے بروایت حاکم اس لفظ جواب دال ہے، نیز مشکوٰۃ میں ہے:
کہ ((لیس فی حب ولا تمر صدقة حتی یبلغ خمسة اوسق)) (نسائی)
’’یعنی غلہ اور کھجور میں عشر نہیں ہے، جب تک پانچ وسق کو نہ پہنچ جائیں۔‘‘
پس سبزی، کماد، کھانڈ، شکر، کپاس اشیاء کیلی نہیں، اور نہ یہ طعام ہیں، لہٰذا ان چیزوں میں عشر لینے دینے کا کوئی ثبوت نہیں ہے، اور عموم ادلہ سے استدلال صحیح نہیں ہے، کہ وہ مخصوص ہو چکی ہیں، اور اب وہ اپنے عموم پر باقی نہیں ہیں۔
آنجناب نے دلیل اربعہ کا معارضہ کرتے ہوئے جو دلیلیں بیان فرمائی ہیں، وہ سب اجتہادی اور وجدانی ہیں، کوئی معارضہ کے قابل نہیں، البتہ کپاس والی حدیث ایک ایسی حدیث ہے، جس سے سطحی نظر رکھنے والا شخص ظاہر یہ ضرور دھوکہ کھا سکتا ہے، کہ اس سے کپاس کا عشر مفہوم ہے، لیکن عمیق تحقیق سے کام لینے والا شخص ضرور اس نتیجہ پر پہنچے گا، کہ اس حدیث میں عشر کا ذکر نہیں ہے، بلکہ اس میں جزیہ مراد ہے۔
سنن بیہقی کبری جب میرے پاس عہد قیام ہندوستان میں تھی تو اس وقت اس کے مطالعہ سے مجھے انکشاف ہوا تھا کہ حدیث ابو داؤد زرع قطن سے عشر مراد نہیں جزیہ ہے، اب سنن کبریٰ میرے پاس نہیں ہے، لیکن مندرجہ ذیل وجوہ جن کی بنا پر میں حدیث کو جزیہ پر محمول سمجھتا ہوں۔
۱۔ امام ابو داؤد نے اس حدیث کو کتاب الخراج میں ارض یمن کے ذکر میں بیان فرمایا ہے، جہاں اہل ذمہ کے احکام ہیں، عشر زکوٰۃ کو کتاب الزکوٰۃ میں باب صدقۃ الزرع میں ذکر کی جاتی ہے، اذ لیس فلیس
۲۔ اس حدیث میں صاف یہ الفاظ جزیہ پر دال ہیں: ((فصائح النبی ﷺ علی سبعین حلة)) ’’کہ نبیﷺ نے اہل سبا سے ستر حلہ پر صلح کر لی۔‘‘ زکوٰۃ خدائی فریضہ ہے، جو پیداوار کے نصاب کے اندازہ پر لیا جاتا ہے، اس میں یہ صلح کیسی کہ سالانہ ستر حلہ دے دیا کریں ، پیداوار زیادہ ہو یا کم ہو، پھر فصل پر چھ ماہی عشر ہے، یہ سالانا خراج یا جزیہ ہے، جو صلح سے طے ہوا ہے، پھر یہ کپڑے لیے گئے ہیں، اگر عشر ہوتا تو جنس پیداوار کے حساب سے لی جاتی ہے، جیسا کہ عشر کا قاعدہ ہے، مقدار زکوٰۃ میں کمی بیشی پر صلح کیسی؟
ابو داؤد کی ایک روایت اسی کتاب الخراج میں ہے ((صالح رسول اللّٰہ ﷺ اھل نجران علی الفیٰ)) ’’ظاہر ہے کہ صلح اہل ذمہ سے ہے۔‘‘
۳۔ عشر ہر مالک یا کاشتکار سے اس کی مملوکہ پیداوار کا حساب لگا کر دسواں یا بیسواں حصہ لیا جائے گا، لیکن اس حدیث میں یہ ذکر ہے کہ ((کل سنة عمن بقی من سبا بمادب)) ’’یعنی ہر سال ستر حلے ان لوگوں سے وصول کیے جاتے رہے، جو مارب میں باقی رہ گئے تھے۔‘‘ (خواہ وہ زراعت کریں یا نہ کریں) کسی کو کم ہو یا زیادہ، یہ طریقہ جزیہ خراج کا تو ہو سکتا ہے، عشر کا یہ دستور شرعی نہیں ہے۔
۴۔ پھر اس میں یہ ذکر ہے کہ پہلے تو ستر حلہ عہد صدیقی تک رہے، پھر صدقہ مقرر ہو گیا، اس سے ظاہر ہے کہ پہلے جزیہ تھا کپڑوں سے پھر صدقہ ہو گیا، گویا یہ سیاسی نظام تھا، شرعی نہیں کیونکہ شرعی قوانین مقرر ہیں، وہ بدلتے نہیں ہیں، ((لا تبدیل لکلمات اللّٰہ۔))
اگر اس میں صدقہ سے مراد صدقہ نفلی ہو تو یہ بھی ممکن ہے کیونکہ وہ بحکم {واتو حقّه یوم حصادہٖ} ہر فصل سے کچھ دینا پڑتا ہے، جس کا کوئی اندازہ نہیں ہوتا، مالک زراعت کی مرضی سے ہوتا ہے، ((فی المال حق سویٰ الزکوٰة)) آنحضورﷺ نے اہل سبا کو ترغیب دی کہ ((لا بد من صدقة)) تب انہوں نے کچھ دینا شروع کر دیا تھا، جو صلح اور رضا مندی سے طے ہوا تھا، یہ توجیہہ بایں شرط ہے کہ اس وقت اہل سبا اسلام قبول کر چکے ہوں، ورنہ جزیہ متصور ہے۔
۵۔ ابو داؤد کی اسی کتاب الخراج میں آگے ((باب فی اخذ الجزیة)) میں اس کی صراحت ہے، کہ
((امرہ ان یاخذ من کل حالم یعنی محتلما دینارً او عدله من المعاذیٍ ثیاب تکون بالیمن))
’’یعنی عامل کو حکم دیا کہ ہر بالغ سے ایک دینار یا اس کے برابر من المعافری کپڑے جو یمن میں ہوتے ہیں، وصول کرو۔‘‘
جزیہ کی وصولی عاملین کے ذمے تھی، کسی سے دیناروں کا حساب فی کس یا کپڑے دیناروں کے حساب سے، اور کسی قبیلے سے ستر حلے لے لیتے تھے۔
۶۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ زمین خراجی ہو اور اس سے سالانہ خراج لیا گیا ہو، کیونکہ اگر عشر ہوتا تو غلہ پر ہوتا، جیسے خلیفہ عادل حضرت عمر بن عبد العزیز کا فرمان ہے کہ
((الخراج علی الارض والعشر علی الحب))
’’یعنی خراج زمین پر ہوتا ہے، اور عشر غلہ پر ہوتا ہے۔‘‘
آنحضورﷺ نے جب اس وفد سے صدقہ کی بابت فرمایا، تو انہوں نے زراعت قطن بتلائی کہ اس میں عشر نہیں ہوتا۔ تو آپ نے کپڑوں پ رصلح کر لی۔ کہ چلو نفلی صدقہ ہی سہی، پھر ابو بکر رضی اللہ عنہ کے بعد غلہ ہوا، تو یہ صلح ٹوٹ گئی، پھر فرضی عشر مقرر ہو گیا۔
خلاصہ:… یہ کہ بحکم ((خذ الحب من الحب)) عشر غلہ پر ہوتا ہے، اور غلہ ہی لیا جاتا ہے کہ ہر جنس سے وہی جنس زکوٰۃ میں لینا مشروع ہے، امام ابو داؤد کے ’’باب ارض الیمن‘‘ سے یہ بھی ظاہر ہے کہ یہ زمین خراجی تھی، جس سے کپڑے لیے جاتے تھے، عشر نہیں تھی۔ ورنہ عشر وصول کیا جاتا۔ ((فتفکروا یا اولی الالباب))
۷۔ شاید آنجناب یا دیگر اہل علم سے کوئی صاحب حدیث میں الفاظ صدقہ کو مدنظر رکھتے ہوئے، یہ فرمائیں کہ یہ شخص (حصاری) بڑا کم فہم ہے، کہ لفظ صدقہ کا صاف موجود ہے، اور یہ خلاف محاورہ صدقہ سے جزیہ مراد لے رہا ہے، تو میں عرض کرتا ہوں کہ قصور و فہم اور کم علمی کا تو مجھے اعتراف ہے، خصوصاً حضرت العلام کے آگے تو سمندر کے مقابلہ میں ایک قطرہ ہوں، لیکن مجھے بالکل ہی بے وقوف نہ سمجھ لیا جائے، بلکہ احادیث جزیہ اہل ذمہ پر ظاہرانہ نظر کر لی جائے تو یہ ظاہر ہو جائے گا، کہ اہل ذمہ کے جزیہ کو صدقہ سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔
چنانچہ جزء کتاب الزکوٰۃ لابن ابی شیبہ ص ۵۱ میں:((باب فی نصاریٰ بنی تغلب ما یؤخذ منھم)) کے تحت یہ حدیث ہے کہ
((ان عمر بن الخطاب استعمل اباہ ورجلا اخر علیٰ صدقات اھل الذمة مما یختلفون به الی المدینة فکان یامرھم ان یاخذ ومن القمح نصف العشر تخفیفاً علیھم لیحملوا علی المدینة ومن القطنیة وھی الحبوب العشر)) (ص۵۱)
’’یعنی عبید اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے میرے باپ عبد اللہ اور ایک شخص کو اہل ذمہ کے صدقات پر عامل مقرر کیا اور ان کو حکم دیا گیا کہ گندم سے نصف عشر وصول کریں، یہ ان کی رعایت تھی، اور دیگر غلوں کا دسواں حصہ وصول کریں۔‘‘
نیز دوسری حدیث میں ہے:
((عن عمر بن الخطاب انه صالح نصاریٰ بنی تغلب علی ان تضعف علیھم الزکوٰة موتین))
’’یعنی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نصاریٰ بنی تغلب سے اس بات پر صلح کر لی کہ وہ زکوٰۃ دگنی (یعنی سال میں دو بار) ادا کریں۔‘‘
تیسری روایت میں ہے کہ ابن ابی ذئب کہتے ہیں، میں نے امام زہری سے نصاریٰ کلب و تغلب کے جزیہ کی بابت سوال کیا، تو انہوں نے فرمایا کہ
((بلغنا انه یوخذ منھم نصف العشر من مواشیھم))
’’یعنی ہم کو روایت پہنچی ہے کہ ان کے مویشیوں سے نصف عشر لیا جاتا تھا۔‘‘
نیز دوسرے باب میں یہ روایت ہے کہ ایک نصرانی نے عدالت فاروق رضی اللہ عنہ میں درخواست کی کہ میں بوڑھا عیسائی ہوں، آپ کا عامل مجھ سے سال میں دو بار عشر لیتا ہے، کچھ رعایت کیجئے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں بوڑھا حنیف ہوں، پھر عامل کو حکم دیا کہ اس سے سال میں ایک بار عشر لیا کریں۔
نیز درایہ تخریج ہدایہ ص ۱۵۹ میں ہے:
((ابو عبیدہ فی الاموال من طریق داؤد بن کودوس ان عمرو صالح نصاریٰ بنی تغلب علی ان یضا عف علیھم الصدقة))
’’یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نبی تغلب کے عیسائیوں سے اس بات پر صلح کی کہ یہ نسبت مسلمانوں کے ان سے دگنا صدقہ وصول کیا جائے گا۔‘‘
نیز درایہ میں ابن حجر رضی اللہ عنہ کے ص ۲۷۱ میں ہے:
((نصاریٰ بنی تغلب یوخذ من اموالھم ضعف ما یوخذ من الزکوٰة لان عمر صالحھم علی ذل بمحضر من الصحابة))
ان دلائل سے صاف واضح ہوا کہ اہل ذمہ کے جزیہ پر صدقہ زکوٰۃ، عشر کا اطلاق آیا ہے، لیکن مجازاً حقیقت میں وہ جزیہ تھا۔
درایہ کے اس صفحہ میں ہے کہ
((قال عمر ھذا جزیة فموھا ما شئتم))
’’ہے تو اس کا نام جزیہ مگر تم جو مرضی ہے نام رکھ لو۔‘‘
پس ثابت ہوا کہ اہل سبا سے بھی جزیہ پر صلح ہوئی تھی، جس کو صدقہ ان کے محاورہ کی بناء پر کہا گیا ہے، وہ شرعی عشر نہ تھا، جو مسلمانوں پر فرض ہے، اہل ذمہ کے جزیہ کو بھی عشر کہتے ہیں، مگر اہل اسلام کے عشر اور اہل ذمہ کے عشر میں فرق ہے، کما لا یخفی اعلیٰ ہل العلم
۸۔ حدیث ابو داؤد متعلقہ کپاس اہل سبا سے استدلال کرنے میں کہ اس سے مراد عشر زکوٰۃ اہل اسلام ہے، حضرت العلام منفرد ہیں، کسی محدث نے متقدمین و متاخرین سے اس حدیث سے عشر کپاس پر استدلال نہیں کیا، حاضرین زکوٰۃ اجناس اربعہ کے مقابلہ میں دیگر دلائل عامہ سے تو معارضہ کرتے رہے ہیں، لیکن اس حصر حقیقی کو توڑنے کے لیے حدیث ابو داؤد سے معارضہ کسی نے نہیں کیا، کیوں کہ وہ جانتے تھے، کہ اس سے مراد جزیہ ہے، اس لیے معارضہ بے سود ہے۔
پس اپنی گستاخی کی معافی مانگتا ہوا، حضرت العلام کی عدالت میں اپیل کرتا ہوں کہ یہ فرضی زکوٰۃ کا معاملہ ہے اس لیے اپنے فیصلہ پر نظر ثانی فرمائیں، اور حدیث حصر اجناس اربعہ کے مقابلہ میں کوئی قطعی الثبوت اور قطعی الدلالت دلیل بیان فرمائیں، جس کی بنا پر اس حصر حقیقی کو حصر اضافی قرار دیا جا سکے۔
مولوی عبد القادر صاحب نے صرف چار چیزوں میں عشر بتلایا ہے، اور اپنے خیال میں چار چیزوں کے انحصار پر دلائل ذکر کیے ہیں۔
پہلی حدیث:… میں آخر کے یہ الفاظ قابل غور ہیں: ((وانما یکون ذلك فی التمر والحنطة والحبوب)) کے متعلق مولوی عبد القادر صاحب نے کہا ہے کہ تعمیم بعد تخصیص ہے لیکن پھر اس کو شعیر کے ساتھ خاص کر لای ہے، تو پھر غور فرمائیے تعمیم بعد تخصیص کیسے ہوئی، اور اگر شعیر کے ساتھ خاص نہ ہو تو پھر تعمیم بعد تخصیص کے کچھ معنی ہی نہیں، اور اسی حدیث میں ککڑی، تربوز اور انار اور گنے کو عشر سے مستثنیٰ کیا ہے، یہ بھی قرینہ ہے کہ حبوب سے خاص شعیر مراد نہیں بلکہ عام ہے۔ کوئی جنس ہو خواہ طعام ہو یا غیر طعام اور اس کی تائید حدیث:
((لیس فی الخضروات صدقة))
’’یعنی سبزیوں میں صدقہ نہیں۔‘‘
مطلب یہ ہوا کہ جو ذخیرہ نہیں ہو سکتیں۔
دوسری حدیث:… ابو سعید خدری کی ذکر کی ہے، اس میں کوئی کلمہ حصر نہیں۔
تیسری حدیث:… عمرو بن شعیب کی ہے، یہ پہلی حدیث کے خلاف ہے، کیونکہ پہلی حدیث بھی حصر کے لیے ہے، اور تیسری کو بھی حصر پر محمول کریں، تو پہلی سے منقطع کی نفی ہو گی، اور اس سے منقطع کا اثبات ہو گا۔
چوتھی حدیث:… اسی طرح چوتھی حدیث ابو موسی رضی اللہ عنہ اور معاذ رضی اللہ عنہ کی ذکر کی ہے، جو پہلی کے خلاف ہے، کیوں کہ اس میں بھی منقطع کا ذکر ہے، ہاں اگر تیسری چوتھی کا مطلب یہ بیان کیا جائے۔
یمن کے اس علاقہ میں جہاں ابو موسی رضی اللہ عنہ اور معاذ رضی اللہ عنہ بھیجے گئے، وہاں زیادہ تر چار ہی چیزوں کی پیداوار ہوتی ہے، اس لیے چار پر اکتفا کیا۔ یہ مطلب نہیں کہ جس علاقہ میں اور چیزوں کی پیداوار ہو وہاں ان میں عشر نہیں اور یہ ایک مسلمہ اصول ہے۔
وقائع الاعیان لا یحتج بھا علی العموم (نیل الاوطار کتاب الجمعہ ص ۳) یعنی خاص واقعہ سے عام استدلال صحیح نہیں کیوں کہ یہ خاص یمن کا واقعہ ہے، اس لیے ہر ملک پر اس کو چسپاں نہیں کر سکتے، جہاں دوسری چیزوں کی بھی پیداوار ہو۔
پانچویں حدیث:… یہ بھی چوتھی کی مثل ہے۔
چھٹی حدیث:… جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، اس کے الفاظ عجیب قسم کے ہیں، ظاہر الفاظ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ
’’صرف ایک چیز یعنی گندم میں عشر ہے، اور گندم نہ ہو تو پھر کھجور میں اور اگر کھجور نہ ہو تو پھر منقیٰ میں اور اگر منقیٰ نہ ہو تو پھر جو میں ہے۔‘‘
ان الفاظ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جہاں یہ چاروں چیزیں ہوں، تو چار میں عشر نہیں ہو گا۔ صرف گندم میں ہو گا، اور اگر گندم نہ ہو، اور باقی تین چیزیں موجود ہوں تو پھر صرف کھجور میں ہو گا، باقی میں نہیں ہو گا، علیٰ ہذا القیاس۔
حالانکہ یہ کسی کا مذہب نہیں ، اور پہلی پانچ حدیثوں کے بھی خلاف ہے، پھر اس کا تعلق بھی یمن کے ساتھ ہے، کیونکہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی یمن کو گئے تھے۔
ساتویں، آٹھویں، نویں اور دسویں:… حدیث چوتھی اور پانچویں کی طرح ہیں، ان کا بھی وہی ہے، غرض ان حدیثوں کی موافقت اس طرح نہ کی جائے، جیسے ہم نے تیسری چوتھی، حدیث میں ہے، تو پھر ان احادیث سے استدلال صحیح نہیں، کیونکہ آپس میں ایک دوسرے کے معارض ہیں، اس کے علاوہ یہ سب متکلم فیہ ہیں، صحت کو کوئی بھی نہیں پہنچی، اور ملا کر ایک دوسری کو تقویت پہنچائی جائے تو پہلے موافقت ہونی چاہیے، کیونکہ تعارض کی صورت میں ضعف ہو جاتا ہے، اور استدلال کے قابل نہیں رہتیں۔
اخیر میں مولوی عبد القادر صاحب نے ابو داؤد کی حدیث کا جواب دینے کی کوشش کی ہے اس میں کئی ڈبل غلطیاں کی ہیں، جن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مولوی عبد القادر صاحب نے حدیث کے الفاظ پر غور نہیں کیا۔ ہم پورے الفاظ نقل کیے دیتے ہیں،اور پھر ان کی غلطیاں بتلاتے ہیں، الفاظ حدیث یہ ہیں:
((عن سعید یعنى ابن ابیض عن جدہ ابیض بن حسان انه کلم رسول اللّٰہ ﷺ فی الصلاة ای فی زکوٰة العشران لاتوخذ منھم حین وفد علیه فقال ای النبی ﷺ یا اخسباء لا بد من صدقة العشر فقال انما زرعنا القطن یا رسول اللّٰہ وقد تبدت سباء ولم یبق منھم ای من اھل سباء الا قلیل بما دب فصالح نبی اللّٰہ ﷺ علی سبعین حلة ہز من قیمة وفطاء ہذ المعافر کل سنة عمن بقی من سباء بمارب فلم یزالوا یؤدونھا حتّٰی قبض رسول اللّٰہ ﷺ فیما صالح ابیض بن حمال رسول اللّٰہ ﷺ فی الحلل السبعین فررد ذلک ابو بکر وروی الطبرانی ان ابیض وفد علی ابی بکر لما انتقض علیه عمال الیمن فاقرہ ابو بکر علی ما صالحا علیه النبی ﷺ حتی مات ابو بکر فلمّا مات ابو بکر انتقض ذلک وصارت علی الصدقة ای العشر او نصف العشر کما لعامة المسلمین فی اراضیھم واللّٰہ اعلم والحدیث سکت منہ المنذری)) (ابو داؤد مع عن المبود ح نمبر ۳ ص ۱۲۸)
’’ابیض بن حمال جب کہ اپنی قوم کی طرف سے نمائندہ ہو کر آئے تو رسول اللہﷺ سے زکوٰۃ عشر کے بارے میں گفتگو کی کہ یہ زکوٰۃ عشر ہم سے نہ لیا جائے، تو رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’ زکوٰۃ عشر سے چارہ نہیں، وہ ہر صورت میں دینی پڑے گی۔‘‘ ابیض بن حمال نے کہا یا رسول اللہ! ہماری زراعت صرف کپاس ہے، اور اہل سبا منتشر ہو گئے ہیں، ان میں سے تھوڑے لوگ شہر سبا علاقہ مآرب میں آباد ہیں۔ رسول اللہﷺ نے یمنی کپڑے معافر کی قسم سے ہر سال ستر جوڑوں پر مصالحت کر لی۔ جتنے لوگ سبا شہر میں باقی رہ گئے، ان سب کی طرف سے ہمیشہ رسول اللہﷺ کی حیات تک وہ ستر جوڑے ادا کرتا رہے، رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد عاملوں نے اس کو اصل زکوٰۃ عشر کی صورت دے دی، ابیض بن حما نمائندہ ہو کر ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے، ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اسی حالت پر کر دیا جس حالت میں نبیﷺ نے صلح کر لی تھی، حضرت ابو بکر کی وفات کے بعد یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت اور اس کے بعد عشر یا نصف عشر کی صورت ہو گئی، جیسے عام مسلمانوں سے عشر یا نصف عشر وصول کیا جاتا ہے، او ر اس حدیث پر منذری نے سکوت کیا ہے یعنی حدیث صحیح ہے۔‘‘
اس حدیث میں صاف بیان ہے کہ کپاس میں زکوٰۃ عشر ہے، رسول اللہﷺ نے اہل سبا کے ساتھ نرمی برتی اور عشر لینے کی بجائے صرف ستر جوڑے متعین کر لیے، مقصد ان پر تخفیف تھی، کیوں کہ ابیض بن حمال نے کچھ کمزوری کی معذرت کی تھی، تو آپ نے اس کی معذرت کو قبول کر یا، بالکل معافی نہیں دی، اس کو خراج کی شکل دے دی، کیوں کہ یہ رسول اللہﷺ کو اختیار ہے ک ہ کسی کی خصوصیت کر دیں، جیسے بعض مواقع پر آپ نے بعض احکام میں بعض صحابہ رضی اللہ عنہ کو خاص کر دیا، جذعہ بکری قربانی میں جائز نہیں، آپ نے ایک صحابی کے لیے اجازت دے دی، ایک عورت کو بیعت کرنے سے پہلے نوحہ (بین) کرنے کی اجازت دے دی، ایسے واقعات بہت ہوئے ہیں، سو ایسے ہی ابیض بن حمال کا واقعہ ہے۔
مولوی عبد القادر کا اس کو جزیہ بنانا ڈبل غلطی ہے، خراج ضروری نہیں کہ جزیہ ہو، مالک غلام پر خراج مقرر کر دیتا ہے، اس کو جزیہ نہیں کہتے، جزیہ کافر پر ہوتا ہے، ابیض بن حمال مسلمان تھا، چنانچہ ’’یا رسول اللہ‘‘ سے صاف واضح ہے، اور عاملوں کا اس کو زکوٰۃ عشر کی طرف لوٹانا اور پھر آخر خلافت فاروقی میں اور اس کے بعد زکوٰۃ عشر کی طرف لوٹانا اس سے بھی صاف ظاہر ہے کہ یہ جزیہ نہ تھا، اور اس لیے صاحب عون المعبود نے ’’کعامۃ المسلمین‘‘ کہا ہے، یعنی جیسے عام مسلمانوں سے زکوٰۃ ہوتی ہے، ان سے بھی زکوٰۃ عشر لیا جاتا تھا، صحابہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہﷺ کی تخفیف کو عارضی چیز سمجھا، اس لیے اس کو بدل دیا، ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس ابیض بن حمال کا دوبارہ آنا اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کا مصالحت کا برقرار رکھنا یہ بھی عارضی تھا، ورنہ خلافت حضرت عمر رضی اللہ عنہ میں اور اس کے بعد تبدیلی نہ ہوئی، اہل سبا کو مولوی عبد القادر صاحب کا ’’بنی تغلب‘‘ پر قیاس کرنا ڈبل غلطی ہے کیوں کہ بنی تغلب عیسائی تھے، اور اہل سبا مسلمان تھے، پھر ایک غلطی مولوی عبد القادر صاحب نے یہ کی کہ جزیہ کو صدقہ کہہ دیا، حالانکہ جزیہ نہ لغتہ میں صدقہ ہے، نہ اصطلاح شرح میں اسی واسطے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بنی تغلب کو کہا کہ تم اس کا نام جو چاہو رکھ لو۔ اصل واقعہ یہ ہے کہ بنی تغلب عرب میں ایک معزز قوم کہلاتی تھی، انہوں نے جزیہ کے لفظ کو برداشت نہ کیا، کیونکہ یہ ذلت کی طرف اشارہ ہے، قرآن مجید میں ہے:
﴿حَتّٰی یُعْطُوْ اَلْجِزْیَة عَنْ یَدٍ وَّھُمْ صٰغِرُوْنَ﴾
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس انہوں نے درخواست کی تھی کہ مسلمان جو زکوٰۃ عشر دیتے ہیں، ہم اس سے دگنا دینے کو تیار ہیں، مگر آپ اس کا نام بدل کر زکوٰۃ عشر رکھ دیں، حضرت عمر نے کہا کہ تم جو مرضی ہو رکھ لو، یہ درحقیقت فرضی نام ہے، نہ لغتہ میں صحیح ہے، نہ عشرعاً رسول اللہﷺ ابیض بن حمال مھض فرضٰ نام نہ استعمال کر سکتے تھے، کیونکہ یہاں نہ کوئی درخواست ہے، نہ ہی اس کا کوئی موقععہ محل ہے، مولوی عبد القادر صاحب نے ویسے ہی کھینچا تانی کی ہے، ابو داؤد مع عون المعبود کو ذرا غور سے دیکھیں، اور اس تفسیر سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ ابو داؤد اس کو کتاب الخراج میں کیوں لائے ہیں، چنانچہ بیان ہو چکا ہے، کہ اس کو شکل خراج کی دے دی کیوں کہ جو چیز معین طور پر ذمہ کر دی جائے، وہ خراج ہوتا ہے، اس میں عامل کے حصہ کا لحاظ نہیں ہوتا ہے، اور اسی بنا پر ابو داؤد نے باب باندھا ہے۔ ((باب حکم ارض الیمن)) کیوں کہ یہ خصوصیت اہل سبا کے ساتھ ہوئی تھی، جو علاقہ مآرب (یمن) میں رہتے تھے۔
(نوٹ) مولوی عبد القادر صاحب نے ابو داؤد کی حدیث کے ساتھ استدلال میں مجھے منفرد کہا ہے، میں نے عون المعبود کی عبارت اس حدیث کی شرح میں بقدر ضرورت صاف صاف نقل کر دی ہے، اور عون المعبود کی عبارت اس حدیث کی شرح میں بقدر ضرورت صاف صاف نقل کر دی ہے، اور عون المعبود کی شرح کا خلاصہ ہے تو گویا تمام شارحین ابو داؤد کی اس حدیث کا یہ مطلب بیان کرتے ہیں، جو میں نے لکھا ہے تو پھر میں اس میں منفرد کیسے ہوا؟
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب