اس سنار کے متعلق کہ جس کے ہاں سے ا پنے گاہکوں کا سونا باوجود حفاظت و نگہداشت کے چوری کیا گیا تھا۔اس کو گاہک یا وکیل گاہک جس کہ سونا سنار کے ہاں سے چوری کیا گیا تھا۔ یوں سمجھا دے اور چھوٹ کہے کہ تو نے میری چوری شدہ سونے کی قیمت اگر ادا کردی تو میں بہت سی اشیاء تجھ سے بنواوں گا۔یعنی آرڈر دلواوں گا۔ بایں طور سنار مذکور سے اپنے چوری شدہ سونے کے دام وصول کرنا جائز ہے۔یانہیں۔بینوا توجروا؟
شریعت میں اجیر کارکن دو قسم کے ہیں۔ایک اجیر خاص دوسرا اجیر مشترک۔مثلاً کسی شخص نے ایک دھوبی خاص اپنے سے نوکر رکھا ہے۔دوسرے قسم یہ ہے کہ دھوبی بہت سے لوگوں کے کپڑے دھوتا ہے۔قسم اول سے کوئی نقصان اس کی لاپرواہی یا بددیانتی کے بغیر ہوجائے تو اس پر تاوان نہیں ہوتا۔قسم دوم پر ہوتا ہے۔پس صورت مرقومہ میں سنار سے جو مشترک اجیر ہے۔گم شدہ سونے کا عوض لینا جائز ہے۔ہاں اس کو آرڈر کا لالچ دینا دو وجوہات رکھتا ہے۔ایک تو یہ کہ اس کو نیت سے کہتا ہے۔کہ معاملہ صاف رہے گا۔تو کام بھی ملے گا ورنہ نہیں یہ بھی جائز ہے۔اور اگر محض دھوکا دے کر اصل چیز وصول کرنا مقصود ہے۔تو ایسا کرنا ناجائز ہے۔بہرحال نیت پر موقوف ہے۔اس قسم کے معاملات کی بابت ایک ہی اصول ہے۔الله يعلم المفسد من المصلح
اور حدیث شریف میں ہے۔انما الاعمال بالنيات الله اعلم
(فتاوی ثنائیہ جلد 2 صفحہ 445۔446)