سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

کرایہ داری کا حکم

  • 319
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 834

سوال

کرایہ داری کا حکم

سوال: السلام علیکم کیا کرایہ داری حلال ہے؟کہتے ہیں کہ اس میں بھی تو بینک کے منافعے کی طرح کرایہ فکس ہوتا ہے؟

جواب: احادیث اور آثار صحابہ رضی اللہ عنہم سے زمین کا کرایہ لینا جائز معلوم ہوتا ہے جیسا کہ موطا امام مالک کی ایک روایت کے الفاظ ہیں:
[ ص: 538 ] بسم الله الرحمن الرحيم كتاب كراء الأرض باب ما جاء في كراء الأرض
1415 حدثنا يحيى عن مالك عن ربيعة بن أبي عبد الرحمن عن حنظلة بن قيس الزرقي عن رافع بن خديج أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن كراء المزارع قال حنظلة فسألت رافع بن خديج بالذهب والورق فقال أما بالذهب والورق فلا بأس به

حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مزارع کے کرایہ سے منع کیا ہے۔ حنظلہ نے کہا کہ میں نے ان سے سوال کیا کہ کیا سونے اور چاندی کے بدلہ جائز ہے تو انہوں نے کہا ہاں، سونے اور چاندی کے بدلہ زمین کرائے پر دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
کہتے ہیں کہ اس میں بھی تو بینک کے منافعے کی طرح کرایہ فکس ہوتا ہے؟
اس کا سیدھا سا جواب تو یہ ہے کہ جب مشرکین نے یہ اعتراض وارد کیا کہ بیع وتجارت بھی تو سود کی طرح ہے تو اللہ تعالی نے جواب دیا؛
الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا ۗ وَأَحَلَّ اللَّـهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا ۚ فَمَن جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّهِ فَانتَهَىٰ فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّـهِ ۖ وَمَنْ عَادَ فَأُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴿٢٧٥﴾
سود خور لوگ نہ کھڑے ہوں گے مگر اسی طرح جس طرح وہ کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان چھو کر خبطی بنا دے یہ اس لئے کہ یہ کہا کرتے تھے کہ تجارت بھی تو سود ہی کی طرح ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تجارت کو حلال کیا اور سود کو حرام، جو شخص اپنے پاس آئی ہوئی اللہ تعالیٰ کی نصیحت سن کر رک گیا اس کے لئے وہ ہے جو گزرا اور اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کی طرف ہے، اور جو پھر دوبارہ ﴿حرام کی طرف﴾ لوٹا، وہ جہنمی ہے، ایسے لوگ ہمیشہ ہی اس میں رہیں گے۔
ذرا غور کریں تو سود اور کرایہ میں یہ فرق ہے کہ کرایہ میں آپ کی شیء استعمال ہوتی ہے اور استعمال سے ایک شیء پرانی ہوتی ہے یا گھستی ہے مثلا آپ ایک ہزار کا نوٹ کسی کو ادھار دیتے ہیں یا گاڑی کرایہ پر دیتے ہیں یا مکان کرایہ پر دیتے ہیں تو پہلی صورت میں نوٹ کا گھسنا یا استعمال ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا ہے لیکن دوسری اور تیسری صورت میں آپ کی ایک شیء استعمال سے پرانی ہوئی ہے اورمستعمل ہونے سے اس کی مارکیٹ ویلیو ڈاون ہوتی ہے۔

تبصرے