ایک شخص زید ۔عمرو کا ملازم ہے۔عمرو نے اس کو سفر میں بھیجا اور کہا کہ ریل کا سفر کا ڈیوڑے درجے کا ٹکٹ لینا اور آگے گاڑی کرایہ پر کرلینا۔زید نے تیسرے درجے کا ٹکٹ لیا۔اور گاڑی کے سفر میں پیدل کیا۔عمرو یعنی مالک سے کرایہ ڈیوڑھا مجرا لیا۔اور کرایہ گاڑی کا جو پیدل گیا تھا۔لیا چونکہ حکم تو آقا کا یہی تھا۔ جو مجرا لیا مگر خرچ اتنا نہیں کیا کہتا کہ میں نے پیدل تکلیف خود اُٹھائی ہے،۔میرا حق ہے اب شرع شریف کا کیا حکم ہے۔؟
(راقم عبد اللہ ساکن راوالپنڈی)
مالک نے کرایہ کا مالک اس کو نہیں بنایا بلکہ اس کرایہ کو استعمال کیلئے دیا ہے۔تاکہ وقت بھی کم ملے۔اور بعض صورتوں میں مالک کی عزت بھی اسی میں ہوتی ہے۔کہ اس کا نوکر عزت سے جائے اس لئے نوکر اگر اس کرایہ کوبچا کر اپنا لے تو مالک کی مرضی کے خلاف ہے۔ہاں اگر مالک اجازت دے تو جائز ہے ورنہ نہیں۔
(فتاوی ثنائیہ جلد 2 صفحہ 444)