بیع مضاربت کی تعریف کیا ہے۔اور اس کے انعقاد کی مکمل شرائط کیا ہیں۔ہمارے یہاں غریب طبقہ کے لوگ مہاجن سے اس شرط پر اُدھار لاتے ہیں۔کہ تیار کردہ مال پر فی تھان آنہ یا دو آنہ کمیشن دیں گے۔پھر اپنا کاروبار کرتے ہیں۔مال کا مالک اپنی اصل رقم کے ساتھ باہم میعنہ منافع لینا ہے۔گھاٹے اور نقصان سے اس کا کوئی مطلب نہیں۔کیا یہ صورت جائز اور بیع بالمضاربہ سے ہے یا نہیں؟
بیع مضاربہ کی تعریف یہ ہے کہ ایک شخص کی رقم ہو اور دوسرے کی محنت ہو صورت مرقومہ بیع مضاربت نہیں ہے بلکہ دلالی ہے۔
مسئلہ۔کوئی شخص کسی مفلس شخص سے یہ بات کہے کہ میں تجھ کو سو روپے اپنے پاس سے دیتا ہوں۔اس شرط پر کے تو تجارت کر اور چار آنا فی مجھ کو نفع دینااور کسی سے اسی شرط پر دلوا دیئے تو صور ت اولیٰ میں دو حال سے خالی نہیں کہ قرض کے طریق سے دیا ہو سوروپیہ پھر اس میں چار آنے یا کمی بیشی اپنے واسطے نفع ٹھرا ہے تو یہ ربا سود ہے۔1۔كل قرض جر نفعا فهورباكذا
قوله كل قرض جر نفعا الخ حاصل ما قال الزيلعي انه اخرجه الحارث عن ابي اسامة في سنده ابوالجهم في جذ ءه المعروف عن علي مرفوعا وابن عدي في الكامل عن جابر وسند حما ضعيف وروي ابن ابي شيبه في مصنفه حدثنا ابو خالد الاحمر عن حجاج من عطاء قال كانو يكرهون كل قرض جر منفعة انتهي نصب الرايه جلد 2 ص198 وفي التخليص حديث ان النبي صلي الله عليه وسلم نهي ان قرض جر منفعة و في روايه كل قرض جر في الهدايه وغيرها
اور یہ جو بطور شرکت مضاربت کے سو روپے دیئے ہیں تو اس صورت میں نفع با خود ہا نصف نصف مقرر کرے۔یا دو ثلث رب المال اور ایک ثلث مضاربت یعنی روپیہ لینے ولا اور محنت تجارت میں کرنے والا لے لے۔تو اس طرح سے عقد مضاربت صحیح اوردرست ہے۔اور جو صاحب مال اپنے واسطے نفع معین کر لےکہ پانچ سو روپیہ یا دس روپے مثلاً میں لے لوں گا باقی نفع تم لے لینا۔تو یہ صورت مضاربت فاسد کی ہے۔اور قاطع شرکت ہے روا نہیں چنانچہ تمام کتب فقہ ہدایہ وغیرہ میں مذکور ہے۔او ر صور ثانیہ دلوادینے میں غیر سے اپنی معرفت سے تو اس صورت میں دلوانے والا محض اجنبی ہے۔اور جو شخص متوسط کسی طرح سے مستحق نفع کا نہیں ہوسکتا۔كما لا يستحق الا جنبي نفعا والعقد في العناية وغيرها
(سید محمد نزیر حسین) (فتاوی نزیریہ۔جلد 2 صفحہ 70)
بقیہ صفحہ گزشتہ کا منفعة فهوا ربا قال عمر بن بدر ني المغني لم يصح فيه شئ واما امام الحرمين فقا ل انه صح وتبعه الغزالي وقد رواه الحارث بن ابي اسامة في مسنده من حديث علي بللفظ الاول وفي اسناده سور بن مصعب وهومتروك ورواه البهيقي في المرفت فضاله بن عبيد موقوفا بللفظ كل قرض جر منفعة فهوا وجه من وجوه ربا ورواه سنن كبري عن ابن مسعود ابي ابن كعب و عبد الله بن سلام موقوفا عليهم انتهي المخيص جلد 3ص 245وقا ل الحافظ في بلوغ المرام بعد ذكره عن علي مرفوعا وله شاهد ضعيف عن فضالة بن عبيد عند البهقي واخر موقوفا عبد لله بن سلام عند البخاري انتهي اقول اخرجه البخاري في مناقب عبد الله بن سلام من طريق سلمان بن حدثنا ثعبة عن سعيد بن ابي برده عن ابي قال اتيت المدينه فلقيت عبد الله بن سلام فقال الا تجئ فاطعمك سويقا وثمرا وتد خل ثم قال بارض الربا بها فاش اذا كان لك علي رجل حق فا هدي اليك لقد قين اوحمل شعير اوحمل قت فلا تا خز فا نه ربا انتهي(فتح الباری مصری جلد 2 صفحہ 194 ابو سعید محمد شرف الدین مصح
(فتاویٰ ثنائیہ جلد 2 صفحہ 453۔454)
مندرجہ بالا عبارات سے ہوا کہ حدیث کل قرض جرمنفحۃ کا اصل ہے۔اگرچہ سنداً مرفوع ضعیف ہے۔لیکن تعدد طرق اور صحابہ کرام کے اقوال و افعال سے اس حدیث کی تایئد ہے۔لہذا حدیث کا اصل ہے۔فافہم وتتبد الراقم علی محمد سعیدی جامع سعیدیہ خانیوال۔