السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
آج کل ٹھیکیدار زمین ٹھیکہ پر لیتے ہیں، جو کہ فی مربعہ سال کے لیے دو صد یا چار صد مقرر کیے جاتے ہیں، نیز معاملہ سرکاری اس کے علاوہ ادا کرتے ہیں، ایسی صورت میں جو پیداوار گندم یا کپاس وغیرہ کی ہوتی ہے، اس میں عشر کی صورت ہے، آیا ٹھیکہ و معاملہ پہلے وضع کرے جائیں بعدہٗ عشر نکالا جائے یا پہلے عشر نکالا جائے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
تنصیصات کتاب و سنت اور قاعدہ ((اَلنَّصُوْصُ تُحْمَلُ عَلٰی ظَوَاھِرِھَا)) سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ عشر پہلے نکالا جائے بعدہٗ تمام اخراجات پورے کیے جائیں۔ قرآن مجید میں ارشاد خداوندی ہے: ﴿وَأاتُوا حَقَّه یَوْمَ حََصَادِہٖ﴾ یعنی جیسے دیگر اموال نقدی روپے پیسے وغیرہ کی زکوٰۃ ((حَتّٰی یَحُوْلُ عَلَیْھَا الَحَوْلُ)) ایک سال گزرنے پر فرض ہے، اثناسال میں جو خرچ ہو گیا کھا پی لیا، اس میں کچھ نہیں، اختتام سال پر جو موجود ہو اس کی زکوٰہ دی جائے، ایسا زمین کا حساب نہیں بلکہ زمین کی پیداوار پر کھیت کٹتے ہی فی الفور واجب ہو جاتی ہے، چنانچہ حکم ہے: ’’اور دو تم حق اس کا دن کاٹنے اس کے کے،‘‘ نیز دوسرے مقام پر ارشاد عالی ہے:
﴿یَآ اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَنْفَقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا کَسَبْتُمْ وَمِمَّا اَخْرَجْنَا لَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ﴾
’’یعنی اے ایمان والو! خرچ کرو پاکیزہ اس چیز سے کہ کمایا تم نے اور اس چیز سے کہ نکالا ہم نے واسطے تمہارے زمین سے۔‘‘
وجہ استدلال آیت ہذا سے یہ ہے کہ زمین سے جتنا غلہ پیدا ہوا ہے، ((مَا اَخْرَجْنَا)) کے اندر داخل ہے، جس شخص نے غلہ اٹھا لیا، اور اس میں سے نصف یا ثلث یا اور کچھ کم و بیش خرچ کرنے کے بعد عشر نکالا تو اس نے آیت ہذا کے خلاف کیا، تفسیر فتح البیان فی مقاصد القرآن جلد نمبر۱ ص ۳۵۶ میں تحت آیت ہذامرقوم ہے:
((وَقالَ عَلِیٌّ يعنی مِنَ الْحُبِّ وَالتَّمِرَ وَشئی وَعَلَیْه زَکٰوة وقال مجاِھدٌ من الثَّمَارِ وَظَاھِرُ الاٰیَة یَدُلُّ وَجُوْبِ الزَّکَاة فیِْ کُلِّ مَا خَرَجَ مِنَ الْاَرْضِ))
یعنی زمین سے جتنی چیزیں پیدا ہوں، حبوب ثمار سب پر زکوٰۃ فرض ہے، کیونکہ ما اخرجنا کے عموم میں داخل ہے، ہاں جن اشیاء مثلاً بتن (بھس) بقول، خضروات، فواکہات، کھیرے، ککڑی، ساگ پات وغیرہ کو شریعت نے مخصوص و مستثنیٰ کر دیا ہے، وہ آیت ہذا کے عموم سے خارج ہیں، ان کی جنس پر زکوٰۃ نہیں قیمت پر ہے، بعض لوگوں نے آہت ہذا سے نفلی صدقہ مراد لیا ہے، لیکن ایک جماعت سلف سے صدقہ مفروضہ منقول ہے۔
((وقد ذھب جماعة من السلف الی ان الایة فی الصدقة المفروضة))
حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے یہی ثابت ہے، کہ یہ آیت زکوٰۃ مفروضہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے:
((وعن علی قال نزلت ھٰذه الایة فی الزکوٰه المفروضة))(فتح البیان ص ۲۵۷)
نیز موطا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ مطبوعہ مجتبائی کے ص ۱۱۸ میں مسطور ہے:
((قال المالك والجوب التی فیھا الزکوٰة الحنطة والشعیر والسلك والذرة والدخن والارزو العدس والجلباب واللوبیا والجلجلان وما اشبه ذلك من الحبوب التی تصیر طعاماً فاکزکوٰة توخذ منھا کُلّھا بعد ان تحصد وتصیر حبطا قال والناس مصدقون فی ذلك ویقبل منھم فی ذالك ما ونحوا قال یحییٰ وسئل مالك متی یخرج من الزیتون العشر اقبل النفقة ام بعدھا فقال لا ینظر الیٰ النفقة و لکن یسئله عنه اھله کما یسئل اھل الطعام الخ))
’’یعنی امام مالک رحمۃ اللہ علیہ امام دارالہجرت فرماتے ہیں۔ جن غلہ جا ت میں زکوٰۃ عشر فرض ہے، وہ مندرجہ ذیل میں، گیہوں جو، پیغمبری جو (جوبر بنہ) جواز، ارزن یعنی چینا و کنگنی، برجن یعنی چاول، مسور، ماش، لوبیہ، تل اور مانند ان کے باجرہ ،مونگ، ہر ہر، چنا، مٹر وغیرہ جن پر طعام کا اطلاق آ سکتا ہو، ان سب کی زکوٰۃ بعد کاٹنے، گاہنے صاف کرنے اٹھنے کے لیے جائے گی، اور اس بارے میں زمینداروں کا اعتبار کیا جائے گا۔‘‘
جتنا وزن غلہ کا وہ اپنی دیانت و امانت و آخرت کو مدنظر رکھ کر بنائیں اس وزن کے حساب سے مصدق، عامل ، تحصیلدار، کو چاہیے کہ زکوٰۃ لے جا کر ید و بحث نہ کرے۔
یحییٰ فرماتے ہیں کہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے دریافت کیا گیا کہ زیتون وغیرہ کی زکوٰۃ خرچ اخراجات (معاملہ وغیرہ) ادا کرنے سے پہلے نکالی جائے، یا بعد۔ پس جواباً فرمایا کہ نہ مہلت دی جائے طرف نفقہ کے لیکن دریافت کیا جائے، اس کے اہل سے جیسا کہ دریافت کیا جاتا ہے، اہل طعام سے اور تصدیق کیے جائیں، وہ یعنی جتنی پیدوار وہ اپنی ایمانداری سے بتائیں اس کی زکوٰۃ لے لی جائے۔
نیز شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب مسوی شرح مؤطا کے ص ۶۱۳ میں بایں الفاظ باب منعقد کیا ہے:
((باب توخذ الزکوٰة من الزرع والنخیل عند الحصا والخ قال مالك فی قوله تعالیٰ وَأاتُوْا حَقّه یَوْمَ حَصَادِہٖ ان ذالک الزکوٰة))
یعنی آیت ہذا میں حق سے مراد زکوٰۃ ہے، شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی اپنی کتاب مصفی شرح فارشی موطا میں تحت باب مندرجہ بالا رقم طراز ہیں،
مترجم گوید رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ وارضا واجب می ود اداء زکوٰہ نزدیک حصاد یعنی درد دن جائز می شود ادا زکوٰۃ نزدیک بدو صلاح واشتداد جب زیرا کہ خرص دریں صورت مشروع شدہ است و بخرص برذمٔہ مالک مقررمی شود
یعنی کھیتوں کی کٹائی اٹھائی کے وقت زکوٰۃ واجب ہو جاتی ہے، اسی واسطے پھلوں کی پختگی و ظہور صلاحیت کے وقت ان کا اندازہ کرنا بغرض وصولی زکوٰہ مشروع و جائز ہے، اور اسی انداز کے مطابق مالک ذمہ زکوٰۃ واجب ہو جاتی ہے، مقصد یہ کہ اگر رقوم معاملہ و خرچہ وغیرہ کی ادائیگی کے بعد زکوٰۃ لینے کا حکم ہوتا ہے، شریعت ان چیزوں کے بعد خرص یعنی اندازہ کرنے کا حکم دیتی واذ لیس فلیس۔
ہاں شارع علیہ الصلاۃ والسلام کی طرف سے اتنی رعایت ثابت ہے، کہ جو زمین چاہی نہری ہو، یعنی اس کا آبیانہ ادا کرنا پڑتا ہو، اس میں نصف عشر (بیسواں حصہ) ہے، اور جو زمین بارانی ہو یعنی اس پر پانی وغیرہ کا خرچ نہیں آتا، اس میں عشر (دسواں حصہ) ہے، بنا بریں حدیث ہذا اگر کہا جائے تو غالباً بعید از صواب نہ ہو گ، کہ جس زمین کا معاملہ سرکاری بھرنا پڑتا ہو، اس میں سے بوجہ کثرت نفقہ کے نصف دیا جائے، اگرچہ وہ بارانی ہی ہو کیوں کہ زمین چاہی میں خرچ ہی کی وجہ سے نصف عشر مقرر کیا گیا ہے۔ (فتاویٰ ستاریہ جلد اول ص ۱۹۶)
توضیح:… عشر یا نصف عشر زیادہ خرچ کی وجہ سے نہیں، بلکہ مشقت اور محنت کی کمی بیشی کی وجہ سے ہے، چونکہ بارانی مفصل میں محنت اور مشقت کم ہے، لہٰذا عشر کا حکم دیا، اور چاہی نہری میں مشقت زیادہ ہے، اس لیے نصف عشر کا حکم ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب