کیا جو شخص سنٹرل بینک قانون گورنمنٹ کا ممبر ہو اور خود بھی بینک کے زریعے روپیہ سودی بوجہ استقراضاً لیتا ہو۔اورعوام الناس کو بھی کو بھی اس سنٹرل بینک کی طرف رغبت دیتا ہو۔اور ایسے سود لینے کو جائز کہتا ہو۔1۔اور رشوت وغیرہ اعلانیہ کھاتا ہو۔اور حد درجہ کا غیبت گو ہو۔حتیٰ کہ علماء کرام موجودہ کی سبھی سخت سے سخت غیبت کرنے میں دریغ نہیں کرتااور نہایت قبیح ۔فحش۔اور فصیح ہو۔ورآں حالیکہ شخص موصوف چند کتب حدیث بھی پڑھا ہو۔اس کے پیچھے نماز ہوسکتی ہے۔یا نہیں۔امامت اس کی اتفاقیہ ہو یا مقررہ؟
شخص مذکور میں اگر واقعی یہ صفات قبیح پائ جایئں۔تو امام نہ بنایا جائے۔
حدیث شریف میں ہے ۔اجعلواالمتكم خياركم
اپنے میں سے اچھے امام کو مقرر کیا کرو۔اور اگر اتفاقیہ پڑھا رہا ہے تو مل جانا چاہیے۔بحکم وَٱرْكَعُوا۟ مَعَ ٱلرَّٰكِعِينَ
بینک وغیرہ سے تعلق رکھنا کیسا ہے سود کے حکم میں ہے یا نہیں۔پس واضع ہو۔(1)سیونگ بنک قائم کرنے کا منشایہ ہے کہ وہ لوگ جو تجارت پیشہ نہیں ہیں۔اور ان کی رقم ان کے پاس فاضل پڑی ہے۔اس بنک میں جتنا روپیہ چاہیں جمع کریں۔اور سرکار اسے جس مصرف میں چاہے صرف کر کے فائدہ حاصل کرے۔اور اس نفع میں سے بحساب سالانہ فی صدی انہیں بھی کچھ دے۔
1۔بنا بریں یہ فتویٰ یہاں درج کیاگیا ہ۔راز(مرحوم)
اس حالت میں روپیہ جمع کرنے والوں کو بلا مشقت نفع ملتا ہے۔یعنی وہ روپیہ دے کر روپیہ بڑھاتا ہے۔جویقینی ربا کی صورت ہے۔جیس کہ صحیح حدیث سے صاف ظاہر ہے۔لا تبيعو االزهب بالزهب الا مثلاّ بمثل ولا تشقوا بعضها علي بعض ولا تبيعواالورق بالورق الا مثلاّ بمثل ولا تشقوا بعضها علي بعض ولا تبيعوامنها غائباّ بنا جز(متفق علیہ)
اور صحیح مسلم میں یوں ہے۔الدينار بالدينار لا فضل بينهما ولدرهم بالدرهم لا فضل بينهما
دوسری روایت میں اور بھی صاف کر دیا ہے۔الزهب بالزهب وزناّ بوزن مثلاّ بمثل والفضة بالفضة وزن بوزن مثلاّ بمثل فمن زاداواستزادا فهو رباّ
لیکن شراکت فی تجارت تو اس کی شکل ہی جدا ہے۔کیونکہ اس میں نفع و نقصان پر حصہ لگتا ہے۔اور بینک میں شرط نہیں پائی جاتی ہے۔لہذا اس مد میں روپیہ لگانا تجارت کے تحت سے خارج ہوگیا۔ربوا کا اصول ہے کہ اس سے شخص بلا محنت فائدہ حاصل کرتا ہے۔اوردوسرا مفت میں نقصان اُٹھاتا ہے۔اور جزو۔ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ
قابل غور ہے اور یہ دیکھنا ہے کہ بینکوں میں اس کی مثال کہاں تک ملتی ہے۔ظاہر ہے کہ حکومت روپیہ جمع کرانے والے کو انٹرسٹ دیکھ کر اپنا نقصان نہیں کرتی ہے۔بلکہ اس رقم سے فائدہ اُٹھا کر کچھ دیتی بھی ہے۔
اب یہ جاننے کی ضرورت ہے۔کہ گورنمنٹ کو ہمیشہ فائدہ ہی ہوتا ہے۔یا کبھی نقصان بھی اس پر صاحب علم یا وہ اشخاص جو اس معاملےسے واقف کار ہیں۔روشنی ڈالیں۔اگر گورنمنٹ کو نقصان بھی ہوتا ہے۔تو وہ اس کی تلافی کی کوئی نہ کوئی صورت اختیار کرتی ہوگی۔یا روپیہ جمع کرنے والوں پر اس کا بار آتا ہوگا۔یا رعایا پر اس کا بوجھ ڈال کر اپنا نقصان پورا کرتی ہوگی۔واللہ اعلم
اور یہ جبر و تشدد ہمارے روپوں کی بدولت ہو۔غرض یہ کہ ایسے بینکوں میں شرکت کسی بھی طرح درست نہیں۔
(2)ایک بندہ وہ بھی ہے جو مہاجنی اُصول پرچلتے ہیں۔امانت دار نہیں بلکہ سود خوار اس میں روپیہ جمع کرتے ہیں۔اور تجارت پیشے والے اس سے سودی قرض حاصل کرتے ہیں۔گویا اس کے قائم کرنے کاخواص منشاء یہی ہوتا ہے۔کہ سود لین اور دین اور اس کی ضرورت نہیں کہ اس کا استعمال کہاں ہوتا ہے۔اچھے کاموں میں یا بُرے کاموں میں کیونکہ اس کی بنا ہی سود پر ہے۔جس طرح شراب کی اس کی حرمت پر کسی قسم کا شک و شبہ نہیں۔اس کاسرکہ بنانا دوا میں استعمال کرنا سب ممنوع۔
دوسری بات یہ کہ امانت یعنی روپیہ جو بینک میں جمع رہتا ہے۔اس کا زمہ دار بینک خود ہے۔اور خسارہ صرف حصہ داروں کوہونا چاہیے۔لیکن چونکہ روپیہ جمع کرنے والے کوبنک بنک سے سود ملتا ہے۔لہذا دیوالہ نکل جانے پر اس کا خسارہ امانت داروں پر بھی پڑتا ہے۔یہ ایک طرفہ ڈنڈہے اور آخرت کا عذاب اللہ کی پناہ سخت ہے۔امانت کی اگرسچ پوچھیے تو یہ صورت ہی نہیں۔امانت اصل میں اسے کہتے ہیں۔کہ جو چیز جس حالت میں او ر جس قدر بطور امانت رکھی جاوے۔وہ اسی حالت میں اور اسی قدر واپس بھی کسی حالت سے اس میں شرکت بھی جائز نہیں۔
(3)بعض بینکوں میں یہ بھی دستور ہے۔امانت دار جو ان سے سود نہ لے۔تو وہ اس سودی رقم کو عیسائی مشن کے سپرد کر دیتےہیں۔اس میں شک نہیں کہ آجکل کے جتنے سودی بینک اور دیگر مختلف طریقے مروج ہیں سب میں شرکت کرنا قطعی ناجائز ہے۔ 1۔لیکن جو لوگ اس میں گرفتار ہیں۔ان کیلئے مناسب تو یہ ہے کہ باز آیئں۔
ارشاد بار ی تعالیٰ ہے۔
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ ٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ وَذَرُوا۟ مَا بَقِىَ مِنَ ٱلرِّبَوٰٓا۟ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿٢٧٨﴾ فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا۟ فَأْذَنُوا۟ بِحَرْبٍ مِّنَ ٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦ ۖ وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَٰلِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ ﴿٢٧٩﴾
اے ایمان والو !اللہ سے ڈر کر سودی کاروبار چھوڑدو۔اگر ایماندار ہو ورنہ پھر اللہ سے جنگ کیلئے تیار ہوجائو۔اس آیت کے آخری حصہ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ پر نظر کرنے سے ظاہر ہوتا ہے۔کہ یہ موجودہ صورت پر چسپاں نہں ہوتی۔کیونکہ بینک خود سود دینے پر مجبور کرتے ہیں۔اور نہ لینے پر عیسائی مشن کے سپرد کر دیتے ہیں۔جو مذہب اسلام کیلئے مہلک ہے۔اس کے متعلق اخبار اہل حدیث میں فتویٰ بھی نکل چکا ہے۔واللہ اعلم بالصواب خلیل احمد ناظم انجمن اہل حدیث مرزا پور
(فتاویٰ ثنایئہ۔جلد 2 صفحہ 218)