سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(59) کیا اپنا مال بلیک بیچنا ناجائز ہے؟

  • 3160
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-23
  • مشاہدات : 1397

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جب اپنے مال کا ہر شخص کو اخیتار ہے کہ جس قیمت سے چاہئے بیچے تو پھر بلیک بیچنا کیوں ناجائز ہے۔جب کہ تراضی طرفین بھی ہو۔اور کنٹرول کیا اعتبار ہے۔یہ تو حکومت غیر مسلمہ کا ہے۔اور تسعیر تو جائز نہیں اور ۔میں بلیک کیوں نہ داخل ہو۔بینوا توجروا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اقول بحول الله وتوفيقه وهوالهادي الي الصواب بيع بليك

یعنی چور بازاری جائز نہیں قطعاً حرام ہے۔اور ۔میں ہر گز داخل نہیں ہو سکتی۔اس لئے کہ بیع شرعی میں کسی شخص کا اور کے مال میں کسی قسم کا تصرف مطلقاً جائز نہیں۔تاوقت یہ کہ اس بیع یا دیگر تصرفات میں شرعی اجازت نہ ہو۔اس لئے کہ ازروئے شرع ہر قسم کے تصرف خصوصاً بیع میں اس کے ارکان و شروط و ترک و موانع کا ہونا بھی لازم ہے۔اور تراضی طرفین تو اشیاء ستہ منصوصہ فی الریا کی بیع میں بصورت عدم مساوات بھی عہد نبوی میں ہوتی تھی۔مگر پھر بھی حدیث نبوی میں اس کی حرمت کتب صحا ح ستہ میں موجود ہے۔ایسے ہی او ر بھی کئی ایک قسم کی بیوع میں با وجود تراضی طرفین کے حرمت ثابت ہے جو علماء ربانیین پر مخفی نہیں۔اور تراضی طرفین توقمار یعنی جوئے میں بھی ہوتی ہے۔مگر وہ قطعاً حرام ہے۔اور عہدنبوی ۖ کی عدم تسعیر پر حال کے کنٹرول کو یاس کرنا غلط ہے اس لئے عہد نبوی ۖ میں قدرةً جو قحط سالی ہوئی تھی۔وہ عرب عام ہوگیا تھا۔او ر ظاہر و علانیہ تھا۔چور بازاری نہ تھی۔اس پر صحابہ  نے آپ ۖ سے ارزانی کی درخواست کی یعنی تسعیر و کنٹرول کی تو آپ ۖ نے قدرتی عرف عام کو نہ توڑا نرخ مقرر نہ کیا۔آپ کا نہ توڑنا بالکل ٹھیک تھا۔اور زمانہ حال میں جو حکومت غیر مسلمہ نے کنٹرول کیا ہے۔و ہ عرف عام کے درہم برہم ہونے کے بعد کیاہے۔اور اب مجبوراً یہی عرف عام ہوگیا ہے۔اس لئے کہ عرف عام قدیم ارزانی کا تورہا نہیں پھر اگراس پر بھی عمل نہ کیاجاوے گا۔تو بلیک والوں کا ظلم حد سے زائد گرانی عوام الناس کی حق تلفی و محرومی اور تکلیف شدید ہوگی۔جس سے نظام صالح کے درہم برہم ہونے کا اندیشہ ہے۔لہذا یہی حکومت کا مقرر کردہ نرخ مجبوراً عرف عام قرار پائے گا۔اور نسبتاً بلیک سے اس میں رفاہ عامہ بھی ہے۔اور نسبتاً عرف عام کے قدرے قریب بھی ہے۔لہذا اس کا اعتبار ہوگا۔اور عرف عام وہ ہوتا ہے۔جو ہر شخص مسلم غیر مسلم صالح غیر صالح سب میں بلا کسی اعتراض کے مروج ہوتا ہے۔اور ظاہر و علانیہ ہوتا ہے۔چوروں اور ڈاکوئوں کے معاملے کی طرح چھپ کر نہیں ہوتا۔جیسے کہ بلیک والے کرتے ہیں۔لہذا بلیک عرف عام نہیں ہوسکتی۔پس ناجائز و حرام ہوگی۔اب بلیک یا چوربازاری کے موانع یا اس کے ابطال کے دلائل ملاحظہ ہوں۔

 

دلیل اول۔

یہ اس میں چوری ہوتی ہے۔اور اس کا نام ہی چور بازاری ہے۔جو گناہ کبیرہ و حرام ہے۔اور بلیک والے حکومت کے بھی چور اور قانون شکن ہیں۔اگرچہ وہ بعض اہل کاروں کو رشوت دیکر دن دیھاڑے بلیک کرتے ہیں۔وہ اہل کا ر حکومت کے چور ہیں۔اور رعایا اور عوام الناس کے بھی چور کہ ان کا حق کاٹ کر گرانی شدید سے دوسروں کو دیتے ہیں۔اور غرباء بے چارے۔محروم رہ جاتے ہیں ان کو کہا جاتا ہے کہ مال ہی نہیں آیا۔اور ردی مال ان کو دیکھاتے ہیں اور دیتے ہیں۔حالانکہ اچھا مال دکان میں کافی ہوتاہے۔اور چوری کرنا حرام و ممنوع ہے۔

 

رسول اللہ ۖ نے فرمایاہے۔

لا تسرقو

(صحیح بخاری۔مسلم ۔مشکواة ص٩۔)

نیز رسول اللہ ۖ نے فرمایا ہے۔

 لا يسرق السارق حين يسرق وهو مومن

(صحیح بخاری۔و مسلم ۔مشکواة۔ص٩۔)

یعنی چور چوری کرتے وقت ایمان دار نہیں رہتا۔یہ کہ اس میں جھوٹ بولا جاتا ہے۔کہ حکومت سے کنٹرول نرخ پر مال بیچنے کیلئے مال لاتے ہیں۔پھر اس کے مطابق نہیں بیچتے۔تو ایک جھوٹ تو حکومت کے سامنے بولا۔دوسرا یہ کہ جب غرباء و عوام الناس کنرتول نرخ پر مال لیتے  آتے ہیں۔تو ان کو کہہ دیتے ہیںَ۔کہ مال نہیں آیا یا بک گیا۔حالانکہ مال دکان میں کافی ہوتا ہے۔جس کو وہ بلیک کرتے ہیں۔تیسرا جھوٹ یہ کہ جب کوئی تفشیش کیلئے آتا ہے۔تو کہہ دیتے ہیں کہ ہم بلیک نہیں کرتے کنٹرول ریٹ پر بیچتے ہیں۔اور جھوٹ بولنا گناہ کبیرہ اور حرام ہے۔اور بحکم قول اللہ تعالیٰ۔اللہ سے ڈرو اور بات پکی سچی کہو۔سچ بولنا فرض اور جھوٹ بولنا حرام ہے۔اور رسول اللہ ۖ نے فرمایا۔

اصدقو اذا حدثتم

(۔رواہاحمد۔والبھیقی۔مشکواة۔ص٤٠٧۔)

جب بولو سچ بولو۔صیغہ امر وجوب کیلئے ہے۔لہذا سچ بولنا فرض اور ترک کرنا حرام قطعی ہے۔اور رسول اللہ ۖ نے یہ بھی فرمایا !کہ جھوٹ ۔بدکاری اور بدمعاشی کا راستہ دکھاتا ہے۔اور بدکاری و بدمعاشی و دوزخ کی راہ دکھاتی ہے۔

(صحیح بخاری۔مسلم۔مشکوٰة۔ص٤٠٤)

۔پس بلیک کرنے والے دوزخ کی طرف چلتے ہیں۔

 

دلیل سوم

بیع بلیک عہد شکنی بھی ہوتی ہے۔کہ حکومت سے کنٹرول نرخ کا عہد کر کے مال لاتے ہیں۔اور پھر عہد توڑ کر کنٹرول نرخ پر نہیں بیچتے۔اور بلیک بیچتے ہیں۔یعنی اسی شدیدگرانی سے بیچتے ہیں لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے۔مال کیا بیچتے ہیں لوگوں کو لوٹتے ہیں۔اوربحکم قول باری تعالیٰ۔عہد کو پورا کرنا فرض ہے۔اور ترک فرض اور عہد شکنی ممنوع اور حرام قطعی ہے۔بلکہ بحکم حدیث نبوی ۔گناہ کبیرہ ونفاق بے ایمانی ہے۔

(صحیح مسلم ۔مشکواة)

 

 دلیل چہارم۔

 اس میں خیانت اور عوام الناس کی حق تلفی ہے۔کہ حکومت نے عوام اور غرباء وغیرہ کیلئے کنٹرول نرخ بیچنے کیلئے ان کو مال دیا تھا۔ اور بلیک والے ان کا حق کنٹرول نرخ پر ان کو نہیں دیتے ۔دوسروں کو بلیک بیچتے ہیں۔یہ بھی کام حرام اور ناجائز اور نفاق و بے ایمانی کا ہے۔جیسا کہ حدیث نبوی میں ہے۔

(صحیح مسلم۔صحیح بخاری۔)

 

دلیل پنجم۔

اس میں رشوت کا لین دین بھی ہوتا ہے۔بلیک والے حکومت کے اہل کاروں کو رشوت دے کر مال زائد لاتے ہیں۔یا بہ سبب رشوت دینے کے بے دھڑک بیچتے ہیں۔یا پکڑے جانے پر رشوت دے کر چھوڑتے ہیں۔اور رشوت سے بھی بعض فرضی پرمٹ بنا کر بلیک کرتے ہیں۔اور رشوت دینے والا اور رشوت لینے والا بحکم حدیث نبوی دونوں ملعون ہیں۔

لعن رسول الله  صلي الله عليه وسلم الراشي والمرتشي

(رواہ والترمذی۔وابن ماجہ۔وغیرھم مشکوٰة۔ص٣١٨۔)

یعنی آپ ۖ نے رشوت دینے والے اور لینے والے دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔

 

   دلیل ششم۔

اس میں احتکار ہے۔جس کا معنیٰ مطلقا اشیائے کودنی و نوشیدنی و پوشیدنی و غیرہ ضروریات زندگی و مدار زندگی جن کے عدم یا قلت شدید گرانی شدید سے انسان کی زندگی تلخ وبرباد ہوجائے۔اور ان کی بوقت ضرورت گراں بیچتا ہے۔اور مویشی وغیرہ جانوروں کی زندگی کی ضروریات چارہ وغیرہ بھی اس میں شامل ہے۔بلکہ ایسے زمانے کاغذ بھی اس میں داخل جو قرآن مجید و حدیث شریف اور دیگر کتب دینیات تفاسیر و شرح احادیث وغیرہ کے کام آتا ہے۔وہ بھی اس میں داخل ہے۔کہ دین پر روحانی زندگی کا دارومدار ہے۔اور دین کا قرآن و حدیث و دیگر کتب دینیہ اور وہ کاغذ پر چھپتے ہیں۔قاموس میں ہے۔

الحكر القلم واسارة المعار شرة احتكر اي احتبس انتظار الغلاية انتهي

حاصل یہ کہ حکرہ یا احتکار کا معنیٰ ظلم ومعاشرت و برتائو میں بد معاملگی ہے۔اور آگے جو حدیث میں بدمعاملگی ہے اور آگے جو حدیث میں اس کا زکر ہے۔اس میں مطلب یہ ہے۔کہ اشیاء مذکور کو روک کر شدید گرانی سے بیچنا جس سے انسانی زندگی تلخ و برباد ہوجائے۔اور احتکار مذکور فی الحدیث طعام کے ساتھ مخصوص نہیں۔جیسا کہ بعض علماء کا خیال ہے

امام نووی  فرماتے ہیں۔

قال اصحابنا  احتكار المحرم  هؤ الاحتكار في الاقؤات خاصة  واما غير الاقوات فلا يحرم الاحتكار فيه بكل حال نوي .صفحه نمبر 31

اس لئے کہ حدیث نبوی عام ہے۔قال رسول الله صلي الله عليه وسلم من احتكر فهي خاطئي

(رواہ مسلم وفی  روایۃ سنن ابن ماجہ المحتکر ملعون انتھی مشکواۃ صفحہ 242۔243)

رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ احتکار کرنے والا یعنی کے اشیائے ضروریہ انسانی زندگی کو روک کر گردانی سے بیچنے والا گناہ گار ملعون ہے۔دوسری حدیث اس سے بھی عام ہے۔

قال رسول الله صلي الله عليه وسلم من دخل في شئي من اسعار المسلمين ليغليه عليم كان حقا علي الله ان يقدمه في معظم من النار انتهي

(اخرجہ ابودائود۔طیالسی۔امام احمد۔فی مسندھا۔ وطبرانی۔فی الکبیر والحاکم فی مستدرک۔بیہقی فی سنن الاقوال الافعال جلد 2 صفحہ 213)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا! کہ جوج شخص مسلمانوں کی اشیائے کی خریدو فروخت کے نرخوں میں دخل دے گا تاکہ ان  پر نگرانی کرے۔مقرر اللہ اس کو الٹا کر کے دوزخ میں ڈالے گا۔

(اسعار المسلمین میں اضافۃ الجمع الی الجمع المعرف)

بالام ہے جو مفید استغراق ہے۔نیز شئ بھی نکرہ ہے جس میں عموم کی تاکید ہوتی ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر قوم کی مسلمانوں کی اشیاء ضروریہ زندگی کی خریدوفروخت کے نرخوں میں دخل دے کر گرانی کرنے والا خواہ وہ اشیاء از  قسم طعام ہوں یا غیر طعام الٹا کر کے دوزخ میں ڈالا جائے گا۔یعنی بلیک بیچنے والا ۔ایسے میں ا یک اور حدیث ہے۔ (قال رسول الله صلي الله عليه وسلم من احتكر حكرة يريد ان يغالي بها علي المسلمين  فهو خاطي انتهي ورواه الحاكم في المستدرك  زكره احافظ وسكت عنه تحفة الاحوزي جلد نمبر 2صفحه نمبر254)

جو شخص اشیاء ضروریہ کو  مسلمانوں پر گرانی کرنے کے ارادے سے روکتا ہے۔وہ گنہاگار ہے۔یہ تما م حدیثیں ہر قسم کے اشیاء کے احتکار میں عام ہیں اور قاموس سے بھی احتکار کا معنی عام  ثابت ہوچکا ہے۔تو اب بعض علماء کا احتکار کو طعام کے ساتھ خاص کرنا ٹھیک نہیں ہے۔اس لئے کہ ان کا استدلال بعض روایات میں طعام کے زکر سے ہے۔تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ احتکار کے ایک فرد کی تنقیص ہے۔تخصیص نہیں جس کی تحقیق نیل الاوطار جلد 5 ص87۔میں ہے کہ اس قسم کی تنصیص و تصریح سے تخصیص و تنقید کا خیال مفہوم لقب ہے۔جو جمہور محدثین کے نزدیک معتبر نہیں جیسا کہ اُصول حدیث میں مصرح ہے۔انتہیٰ۔نیز اگر طعام کے ساتھ احتکار کو خاص کیا ج    جائے تو پھر       اوپر کی اسعار المسلمین والی حدیث کے ساتھ تعارض واقع ہوگا۔لہذا تطبیق یا توجیہہ یہی ہے          کہ   وہ احتکار کے ایک فرد کی تنصیص ہے۔ تخصیص نہیں کمافی نیل الاوطار۔

 

پس ثابت ہوا کہ طعام کے ساتھ احتکار کو مخصوص کرنا حدیث نبوی و جمہور محدثین و اصول حدیث کے خلاف ہے۔اور بلیک بالکل احتکار ہے۔جو  آجکل چاول چینی گہیوں۔اور اس کے آٹے سوت کپڑے اور کاغذ وغیرہ میں ہو رہا ہے۔بالکل حرام ہے شریعت کا اصل منشاء احتکار سے منع کرنے کا یہ ہے کہ عوام الناس کو زندگی کی ضروریات کے عدم یا قلت سے تکلیف نہ ہو کہ جس  سے ان کی زندگی برباد یا تلخ ہوجاوے اور نظام صالح کے درہم برہم ہونےکا اندیشہ ہو۔چنانچہ اس امر کا  زکر دلیل ہفتم میں آئیگا۔اور جیسے کہ طعام کی بندش یا قلت و گرانی میں لوگوں کو سخت تکلیف ہوتی ہے۔ایسے ہی  سوت کپڑے کاغذ ادویہ وغیرہ ضروریات زندگی کے عدم یا قلت میں ہوتی ہے۔لہذا ان کل اشیاءمیں بلیک حرام ہے۔

دلیل ہفتم

ہر قسم کی اشیاء ضروریات زندگی کی بلیک میں مسلمانوں کو اور تکلیف میں ڈالنا ہوتا ہے۔

جو بحکم حدیث نبوی ناجائز و حرام ہے۔

قال رسول الله ﷺ من يشاقق يشقق الله عليه يوم القيامه انتهي

(صحیح بخاری جلد2صفحہ 1059)

رسول اللہ ﷺ نےفرمایا!کہ جو شخص لوگوں پر مشقت ڈالے گا۔اللہ قیامت میں اس کو مشقت میں ڈالے گا۔وعید شدید بلیک کی حرمت میں بین دلیل ہے۔

دلیل ہشتم

بلیک میں فریب دغا بازی جعل سازی اوردھوکا بازی بھی ہوتی ہے۔کہ فرضی پرمٹ بنا کر دھوکا دے کر مال وصول کر کے بلیک کرتے ہیں۔جو بحکم حدیث نبوی حرام و ناجائز ہے۔

قال رسول الله ﷺ من غش فليس منا اخرجه الترمزي في جامعه وقال حسن صحيح

(ترمذی صفحہ نمبر 129)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا! جو شخص لوگوں کو دھوکا دیتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔یعنی مجھ سے اور میری اُمت سے الگ ہے۔پس یہ بھی بلیک کی حرمت کی دلیل ہے۔

نیز رسول اللہ ﷺ نے فرمایا! ملعون من ضار مومنا او مكر به رواه ترمزي

(مشکواۃ صفحہ نمبر 240)

یعنی جو شخص کسی مومن کو ضرر پہنچاتا ہے۔ یا اس کے ساتھ مکر و فریب کرتا ہے۔ اوردھوکا دیتا ہے وہ ملعون ہے۔اوررسول اللہ ﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ  المومن غر كريم والفاجر خب لئيم ۔

رواہ ترمذی۔و ابودائود۔والحاکم جامع صغیر صفحہ 83)

مومن بھولااور شریف الطبع ہوتا ہے۔سخی با مروت ہوتا ہے۔اور بدمعاش دھوکا باز بخیل۔یہ حدیثیں بھی بلیک کی حرمت کی دلیل ہیں۔کہ بلیک کرنے والا دھوکا بازی کرتا ہے۔

دلیل نہم۔

بلیک میں حدیث نبوی ہے کہ الدين النصيحة لله و لرسوله ولا ئمة المسلمين وماصتهم انتهي

(صحیح بخاری۔صفحہ 13 جلد 1)

کی بھی مخالفت ہے  کہ حدیث میں مسلمانوں کی خیر خواہی اور بھلائی کی تعلیم ہے۔اوربلیک میں مسلمانوں کی بدخواہی و تکلیف اور حق تلفی ہے لہذا حرام ہے۔

دلیل دہم

بلیک میں حدیث نبوی ۔لا يومن احدكم حتي يحب لا خيه ما يحب لنفسه

(صحیح بخاری۔ص6جلد1)

کی بھی مخالفت ہے۔کہ حدیث سے ثابت ہے۔آپ ﷺ نے فرمایا! تم میں سے کوئی شخص ایماندار نہیں ہوسکتا۔جب تک کہ وہ مسلم بھائی کیلئے بھی وہ امر پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے۔اور بلیک والا اپنے لئے بھائی و سرمایا داری چاہتا ہے۔اور دوسرے مسلم بھائی کےلئے بدخواہی اور اس کا مال لوٹنا لہذا ناجائز و حرام ہے۔

دلیل یاز دہم

حدیث نبوی میں ہے۔الا ثم ما حاك في صدرك وكرهت ان يطلع عليه الناس

(رواہ مسلم۔مشکواۃ۔صفحہ 423)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا!گناہ وہ ہے جس کا تیرے سینے میں کھٹکا و شبہ گزرے۔اور لوگوں کا اس پر مطلع ہونا تجھ پر  ناگوار گزرے۔اور  اسلام کے مدعی کو اس کے عدم جواز کا شبہ ضرور ہوتا ہے۔خصوصاً تفشیش کرنے والوں سے تو ضرور ہی اس کو ناگوار ہوتا ہے۔اس لئے تو انکار ہو ہی نہیں سکتا۔لہذا یہ گناہ ناجائز و حرام ہے۔

 

دلیل دو از دہم

یہ کہ شریعت اسلامیہ میں بیع وشرا میں کتاب و سنت کے عموم یا خصوص کا اعتبار ہے ۔یاعرف عام کا

قال الله تعالي وَأْمُرْ بِٱلْمَعْرُوفِ

(الایۃ (پ9ع14)

اور صحیح بخاری میں ہے۔باب من اجري امرا لامصار علي ما يتعارفون بينهم في البيوع والاجا رة والكيل والوزن وسنتهم علي نياتهم ومزاهبهم المشهورة وقال النبي ﷺ لهند خزي مايكفيك و ولدك با لمعروف وقال الله تعالي من كاف فقيراّ فليا كل بالمعروف انتهي ملخص

(ج1صفحہ نمبر 294)

خلاصہ یہ ہے کہ بیع و شرا وغیرہ معاملات کا مدار و اعتبار کتاب و سنت یا عرف عام پر ہے۔اور یہ جو بہ سبب ادا مذکورہ بالا بلیک نہ کتاب و سنت کے مطابق ہے۔نہ عرف عام کے بلکہ ان کے مخالف میں ہے۔اس لئے کہ عرف عام قدیم ارزانی کا تو قطعاً نہیں۔اور نہ ہی عرف عام حال کا ہے۔جو بہ سبب کنٹرول حکومت کے مجبوراً عرف عام ہوگیا ہے۔اس لئے صرف عام اعلانیہ و ظاہر ہوتا ہے۔اور بلیک چھپ کر اور چوری سے ہوتی ہے۔لہذا یہ عرف عام نہیں ہو سکتی ہے۔پس حکومت کا نرخ مجبوراً عرف عام ہوگا۔اس لئے اگر یہ بھی نہ ہوگا تو پھراور کیا یہ عرف عام ہوگا۔اور پھر بلیک حرام ہوگی۔

دلیل سیز دہم

يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ لَا تَأْكُلُوٓا۟ أَمْوَ‌ٰلَكُم بَيْنَكُم بِٱلْبَـٰطِلِ

لوگو! ایک دوسرے کے مال کو آپس میں باطل طریقے سے نہ کھائو۔باطل کا طریقہ بڑا وسیع ہے۔اور اوپر ثابت ہوچکا ہے۔کہ بلیک امر باطل ہے۔لہذا ناجائز و حرام ہے۔

دلیل چہار دہم

اولہ مذکورہ و بالا یعنی براہین شرعیہ سے ثابت ہو چکا ہے۔کہ بلیک ناجائز و حرام ہے۔تو بحکم حدیث نبوی دع ما يريبك الي ما لا يريبك

 (اخرجه الترمزي ج2 ص84 وصححه النسائي ج2ص291 وغيره)

رسول اللہﷺ نے فرمایا! کہ جس امر میں تم کو شک ہو اور قلق ہو اس امر کو چھوڑ کر یقینی امر پر عمل کرو۔اب بالکل کوئی سیاہ قلب ہوگا کہ جس کا دل مسخ ہوگیا ہوگا۔وہی بلیک میں شبہ نہ کرے گا۔کہ شیطان کا اس پر پورا قبضہ ہے۔ ورنہ مسلم کو ضرور کم از کم دل میں کھٹکتی ہے۔لہذا حرام ہے۔اور اس کا چھوڑنا فرض وواجب ہے۔واللہ اعلم

(25جولائی 1947ء)

 


فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 14 ص 67-74

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ