ایک طرف تو یہ کہا جاتا ہے کہ اسلام تمدن اور دنیوی ترقی کا مانع ومزحم نہیں ہے۔اور مال دنیا کی فراہمی کوئی گنا ہ نہیں ہے۔حضر ت عثمان بن عفان اور دیگر صحابہ کرام مالدار اور لاکھوں درہم ان کے پاس تھے۔اور بڑی بڑی تجارتیں بھی کیا کرتے تھے۔مسلمان کے حق میں مسکنت ایک بڑی ذلت ہے جس سے دین و ایمان قائم برقرار نہیں رہتے ۔اس کے خلاف بھی یہ کہا جاتا ہے کہ دنیا میں مسافرانہ طور سے زندگی بسر کرو مال و دنیا جمع نہ کرو۔مسکین بن کر رہو۔متمدل لوگوں کی صحبت سے پرہیز اور گریز کرو۔آپ ۖ نے اللہ سے دعا مانگی اور التجا کی تھی ۔کہ بار خدایا مجھ کو دنیا میں مساکین رکھ اور دنیا سے مسکین اُٹھا۔اور عقبیٰ میں بھی مجھ کو مسکین کے زمرہ میں پس آپ ۖ کے ان دو قولوں کی تطبیق کیونکر ہو سکتی ہے۔یہ تو الضدان لا يجتمعان کا معاملہ ہے۔؟
ان دونوں باتوں میں تطبیق ایک حدیث سے وہوتی ہے۔جس میں آپ ۖ کی دعا یوں مروی ہے۔
الهم اني اعوذبك من غني يطغيني ومن فقر يميتني
اے اللہ میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں۔ایسے غناء سے جو مجھ کو سرکش کردے۔اورایسے فقر سے جو مجھ کو مارے تکلیف کے سب کچھ بھلا دے۔ورنہ محض مال جمع کرنا منع نہیں۔بلکہ منع یہ ہے کہ اس میں ذکواة نہ دے۔اوراس کی مستی میں موت کو بھول جائے۔چنانچہ فرمایا!
مسکین کے دو معنٰی ہیں۔ایک مال سے مسکین۔دوم طبعیت سے مسکین جس کو متواضع کہتے ہیں۔
(فتویٰ ثنائیہ جلد ٢ ص٢٢٤)