مستورات کو ٹاکیز سینما وغیرہ دکھانا جائز ہے یا نہیں۔؟
مستورات کوایسی جگہ لے جانا ان کی زہنیت پر برا اثر ڈالنا ہے۔
(١٠ ربیع الاول سنہ١٤٥٠ئ)
سینما بائیکوپ۔فلم آجکل بڑے وسیع پیمانے پر بطور تجارت و روزگار کے اپنایا جا رہا ہے جس میں بے شمار منکرات ہیں۔ان کی تفصیل کیلئے مندرجہ زیل تشریح ملاحظہ کیجئے۔
از قلم حضرت العلامہ مولناٰ ابو الفضل عبدل المنان صاحب دہلوی۔
مغربی دنیا فخر کرتی ہے۔اور اسے ناز ہے کہ وہ اپنے علوم و فنون سے تمام بنی انسان کو فائدہ پہچا رہی ہے۔لیکن اہل مغرب نے پہلے کبھی ا س بات پر غور کیا ہے کہ ان کے علوم و فنون سے دنیا کو نقصان پہنچ رہاہے۔یورپ کے علوم و فنون اور اس کی ایجادات و اختراعات کی منفعت بخشی کے ہم معترف اور قائل ہیں۔اس نے بری و بحری دشوار گزار راستوں کو آسان کر دیا۔انسان آسمان پر اُڑ نے لگا۔زمین کی چند مسافتیں چند گھنٹوں میں طے ہونے لگیں۔چند گھنٹوں میں دنیا کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک دم بدم کی خبریں پہنچنے لگیں۔آدمی ایک جگہ بیٹھا ہوا دنیا بھر کی خبریں سن سکتا ہے۔یہ سب کچھ بجا لیکن ان فنون و علوم کی ایجاد و اختراع کی روز افزوں ترقی ہی نے یورپ کی جوع الارضی کو اس قدر تیز کر دیا ہے۔کہ اے کسی طرح قناعت نہیں ہوتی۔اصل یورپ نے تقریباً تمام مشرق قوموں کو اپنا محکوم اور غلام بنا لیا ہے۔اور اگر کوئی قوم خوش نصیبی سے اب تک بچی ہوئی ہے۔تو نہیں کہا جاسکتا کہ ان کی آذادی بھی کب تک برقرار رہے۔بہادر حبشیوں کی درد ناک تباہی کا جگر پاش منظر بھی ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔حبشیوں کو اطالیوں کی تہذیب و شائستگی اور ان کی شجاعت و مردانگی نے نہیں بلکہ تباہ کن ایجادات و اختراعات نے غارت کیا جنگیں پہلے بھی ہوا کرتی تھیں۔لیکن پہلے نہ اس درجہ ہوس ملک گیری تھی۔نہ ایسے تباہ کن حالات تھے۔کہ آناً فاناً میں ساری دنیا کا امن و امان درہم برہم ہوجائے۔یہ سب یورپ کے علوم و فنون اور نوع بنوع ایجادوں اور اختراعوں کی ہولناکیاں وتباہ کاریاں ہیں۔یورپ کے علوم و فنون اور اس کی ایجاد اختراع سے صرف امن و امان کو ہی نقصان نہیں پہنچ رہا ہے۔بلکہ مذہب و اخلاق او ر تہذیب و شرافت کی وہ تباہی ہو رہی ہے۔کہ
سینما یورپ کی ایک عالم فیب مخرب اخلاق ییجاد ہے پہے تو تصویریں جانداروں کی طرح صرف نقل و حرکت ہی کرتی تھیں لیکن سنا ہے کہ اب وہ باتیں کرنے اور گانے بھی لگی ہیں۔اس سے اس کی دل آویزی میں بیش از بیش اضافہ ہوگیا ہے۔یہ ایجاد بھی اپنے اندر بہت سی تباہیوں اور بربادیوں کا سامان رکھتی ہیں۔جہاں یورپ سے بے شمار وبائیں ہندوستان میں آئیں سینما بھی آیا ۔یورپ کی خوشحالی کی کوئی انتہا نہیں ہے۔وہاں مال و دولت کی بارش ہوتی ہے۔اس کے برعکس ہندوستان مفلس اور قلاش ہے۔نوے فیصدی آدمیوں کو بھی دونوں وقت پیٹ بھر روٹی نہیں ملتی۔لیکن سینما کی دلچسپی کا یہ حال ہے کہ دن بھر مذدوری کر کے چار آنے کمانے والا بھی شام کو سینما دیکھے بنا نہیں رہ سکتا۔خواہ اس کے اہل و عیال رات کو بھوکے سو جایا کرتے ہوں۔سینما نے جہاں ہندوستان کو مالی تباہی میں دھکیل دیا ہو۔وہاں ہندوستانی شرافت اور تہذیب کا بھی جنازہ نکال دیا ہے۔بد اخلاقی اور بے حیائی بھی عام کر دی ہے۔اب سینما کی تباہ کاریاں و برق پاشیاں مردوں سے گزر کر عورتوں تک پہنچ چکی ہیں۔ہزاروں شریف گھرانے کی بہو بیٹیاں سینما میں فلم دیکھنے جاتی ہیں۔اور نہایت دیدہ دلیری سے اور ڈھٹائی سے حیا سوز اور مخرب اخلاق مناظر دیکھتی ہیں۔اور لعنت ہے ان کے شوہروں پر وہ انھیں روکتے تو کیا بلکہ خود لے جاتے ہیں اور ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔سینما کی ترویج سے پہلے عصمت فروش و آبرو باختہ عورتوں کی مجلس میں کوئی وقعت اور حیثیت نہ تھی۔لیکن سینما کی برکتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس نے آبرو باختہ عورتوں کوایک خاص پوزیشن دے دی ہے۔اب لوگ علانیہ رنڈیوں کی شان میں قصیدے کہتے ہیں۔اور مدیران اخبارات ان کی تصویریں اخباروں میں شائع کر رہے ہیں۔ان تصویروں کے نیچے جہاںآراء بیگم ۔زبیدہ بانو۔اور مختار بیگم۔اور اسی طرح دوسرے معزز نام درج ہوتے ہیں۔ جن گھروں میں ان زلیل اور فاحشہ عورتوں کا نام بھی لینا گناہ سمجھا جاتا تھا۔ان گھروںمیں انکی تصویریں آویزاں ہیں۔اور جن مجلسوں میں ان کا تذکرہ مکروہ خیال کیاجاتا تھا۔انہی مجلسوں میں اب فخریہ ان کے تزکرے کیے جاتے ہیں۔ان سے اندازہ کیاجا سکتا ہے کہ سینما نے ہمارے ملک کی اخلاقی حالت کو کیسے تباہ کیا ۔سینما سے ملک کے نوجوان جس طرح تباہ ہو رہے ہیں۔و ہ ناقابل برداشت مصیبت ہے۔وہ سینما میں ایکٹروں کے دیکھتے ہیں۔اور اپن زندگی کو بھی ان کی زندگیوں کے سانچے میں ڈھالنے کے لئے بے اختیار ہو جاتے ہیں۔پھر ان کو اس کا خیال مطلق نہیں رہتا ۔کہ ان کا گھر برباد ہوگا۔تجارت ملیا میٹ ہوگی۔تعلیم ادھوری رہ جائے گی۔وہ سب سے بے پراوہ ہو کر نگار خانوں کا طوف شروع کردیتے ہیں۔ملک کے دور دراز کے نوجوان کلکتہ اور بمبئی کا سفر کرتے ہیں۔اور ایکٹر بننے کیلئے طرح طرح کے نقصانات اور مصائب میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ان تمام والہانہ ایثار و قربانی سے ان کی غرض یہ ہوتی ہے۔کہاانھیں کوبر اور خوش ادا عورتیں کے ساتھ کام کرنے کا اورساتھ رہنے کا موقع مل جائے۔یہ تو ہمارے ملک کے نوجوانوں کا حال ہے۔لیکن ملک کی عورتوں میں یہ جزبہ تیزی سے پیدا ہو رہا ہے۔چنانچہ وہ بھی سٹیج پر آنے اور اپنے حسن و شباب اور ناز و ادا کی نمائش کرنے کیلئے بے تاب اور بے قرار ہو رہی ہیں۔ان حالات میں ہندوستان کی شرافت کا اللہ ہی حافظ ہے۔اخلاق و کردار اور عزت اور شرافت کی بربادی کے ساتھ غریب ہندوستانیوں کی محنت کے پیسے جس طرح ضایع ہو رہے ہیں۔اس کے اندازے کیلئے فلم۔ایکٹروں۔اور ایکٹریس کی تنخواہوں پر نظر ڈالیے۔کسی کی چار ہزار روپے ماہوار کسی کی تین ہزار روپے ماہوار کسی کی دو ہزار روپے ماہوار فلموں کی تیاری کے دوسرے گرانقدر مصارف وہ اس کے علاوہ ہیں۔اس سے اندازہ کیجئے کہ فلموں پر کتنا ماہانہ خرچ آتا ہوگا۔پھر جو سرمایا دار فلمسازی پر اتنا سرمایا خرچ کرتے ہیں۔وہ اس سے کتنا فائدہ حاصل کرتے ہوں گے۔اس سے اندازہ لگایئے کہ مفلس ہندوستان کیلئے سینما کس قدر غارت گر اور تباہ کنہے جرورت کہ علماء کا طبقہ اس طرف توجہ کرے۔اور اخبارات مقررین واعظین اپنے اپنے حلقہ اثر میں سینما کے نقصانات سے پبلک کو مطلع کر کے اس سے روکنے کی کوشش کریں۔
(اہل حدیث گزٹ۔دہلی بابت اکتوبر سنہ١٩٣٦ئ)
جو مسلمان سینما بائسکوپ کا کاروبار کرتے ہیں۔وہ اسلام کی تعلیم کی روشنی میں ا پنے اس دھندے پر غورکریں۔اور انصاف کی عینک لگا کر دیکھیں۔کہ ان کا یہ دھندہ حلال ہے یا حرام۔