السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
شریعت میں جو عشر مقرر ہے، آیا وہ سرکاری مالیہ کاٹ کر ادا کیا جائے، یا مالیہ سرکاری اس میں شمار کیا جائے، جواب مدلل قرآن و حدیث سے ہو؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مالیہ سرکاری دو طرح کا ہے، ایک زمین کا دوسرا پانی کا، زمین کا مالیہ کاٹ کر عشر دے ، پانی کا مالیہ کاٹنے کی ضرورت نہیں، بلکہ اس کی وجہ سے بجائے دسویں حصے کے بیسواں حصہ دے کیوں ک نہر کا پانی قیمتاً آیا ہے، گویا ایسا ہو گا، جیسے کنویں کا پانی، کاٹنے کی صورت یہ ہے کہ زمین کا تمام غلہ اگر نصاب کو پہنچ جائے تو اس سے پہلے اتنے دانے الگ کر لیے جائیں، جتنوں سے مالیہ پورا ہو جائے، اس کے بعد عشر نکالا جائے، حدیث میں ہے:
((عن عائشة رضی اللّٰہ عنہا قالت سمعت رسول اللّٰہ ﷺ یقول ما خالطت الزکوٰة مالاً قط لا اهلکته رواہ الشافعی والبخاری فی تاریخه والحمیدی وزاد قال یکون قد وجب علیك صدقة فلا تخرجہا فیهلك الحرما الحلال)) (مشکوٰة صفحه ۱۵۷)
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپ نے فرمایا کہ زکوٰۃ کسی مال میں کبھی نہیں ملی، مگر اس کو ہلاک کر دیتی ہے۔‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ زکوٰہ کا تعلق مال سے ہے، اور قرآن مجید میں بھی ہے:{واتوحقه یوم حصادہٖ} (پ۸) ’’یعنی پکنے کے دن۔‘‘ عشر کو کھیتی کا حق کہا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عشر کا تعلق جتنی کھیتی اس کے قبضے میں ہے، اسی کی زکوٰۃ اس کے ذمے ہو گی، جتنی مالیہ میں گئی وہ اس کے ذمے نہیں، اس لیے اس کی زکوٰہ اس کے ذمے نہیں پڑتی، اس کی مثال یوں ہے، کہ ایک شخص کے پاس سو روپے تھے، ان سے پچاس چوری ہو گئے، تو وہ باقی پچاس کی زکوٰۃ دے گا، نہ کہ سو کی۔ (عبد اللہ امر تسری روپڑی) (تنظیم اہل حدیث جلد ۱۸ شمارہ ۷)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب