سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(08) منی آرڈر کے زریعہ سے روپے بھیجنے کا شرعی حکم

  • 3107
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 2647

سوال

(08) منی آرڈر کے زریعہ سے روپے بھیجنے کا شرعی حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زید اور عمرو منی آرڈر کے زریعہ سے روپے بھیجنے میں گفتگو ہے زید کہتا  ہے کہ منی آرڈر کے زریعے سے پیسا بھیجنا جائز ہے۔اور جواز کی دلیل یہ بیان کرتا ہے کہ ہر چیز میں اصل اباحت ہے۔عمرو کہتا ہے کہ منی آرڈر کے زریعے سے پیسا بھیجنا کسی معاملہ شرعی کے تحت میں داخل نہیں ہے۔اس لیے ناجائز ہے۔زید کہتا ہے کہ یہ معاملہ شرعی میں داخل ہے۔اور داخل ہونے کو اس طرح بیان کرتا ہے۔اگر کوئی حمال سے کام لے۔اور رقم پیشگی دے دے۔عمرو کہتا ہے کہ منی آرڈر کے زریعے سے رقم بھیجنے میںاور پیشگی رقم دینے میں فرق ہے۔پہلی صورت کو دوسری صورت پر قیاس کرنا ٹھیک نہیں۔کیونکہ منی آرڈر میں تو شرط ہے کہ روپیہ پہنچانے کی اُجرت پیشگی لی جاوے۔اور حمال کو پیشگی اُجرت دینا شرط نہیں۔بلکہ دینے والے کا احسان ہے۔اگر پیشگی اُجرت نہ دے۔تو حمال شرعی طور پر تقاضا نہیں کر سکتا۔اور منی آرڈر تو اس وقت تک روانہ ہی  نہیں ہو سکتا جب تک  پیشگی رقم نہ دے۔اس کے علاوہ ناجائز ہونے کی وجہ عمرو اور بھی بیان کرتاہے۔کہ حمال پر قیاس کرنا اس وجہ سے بھی ٹھیک نہیں کہ حمال کے پاس جب تک وہ بوجھ ہے۔وہ اس کا امین ہے۔اگر حمال سے وہ بوجھ کھو جاوے۔تو تاوان نہ لیا جائے گا جیسے امین سے نہیں لیاجاتا۔منی آڈر کا روپہیہ اگر ڈاک خانہ والوں سے کھو جاوے تو اس کا تاوان لیا جاتا ہے۔اور ڈاک خانہ سے گویا شرط ہے۔کہ روپیہ کھو جاوے تو وہ تاوان دے گا۔اس کے علاوہ ناجائز ہونے کی ایک اور وجہ بھی بیان کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ حمال پر قیاس کرنا اس وقت تک بھی نہیں کہ جب تک حمال کے پاس رقم بوجھ ہے وہ اس کا امین ہے۔اور امین پر واجب ہے کہ جو چیزامانت دی جاوے۔بعینہ وہی واپس کرے۔اور منی آڈر میں جب جانتے ہیں کہ وہی روپیہ بعینہ نہیں ملتا بلکہ اس کی مثال دوسرا روپیہ ملتا ہے۔زید کہتا ہے کہ عموم بلو ی و دفع حرج و تعامل علماء و صلحا کی وجہ سے بعض ناجائز چیزیں بھی جائز ہواجاتی ہیں۔اور مباح الاصل ہے یہ کیونکہ ناجائز ہوگا۔مثلا غلہ بالیوں کو  بیلوں سے پامال کرواتے ہیں۔اور بیل اس میں بول و براز کرتے ہیں۔اس کو سب جانتے ہیں۔پھر عموم بلو ی و دفع حرج اور تعامل علماء و صلحا یا تعامل خلائق کی وجہ سے اس کو سب جائز جانتے ہیں ۔اور غلہ کوسب استعمال کرتے ہیں۔اسی طرح منی آڈر بھی اگر ناجائز ہو تو جائز ہوجائے گا۔اب ازروئے شرع شریف میں اس گفتگو کا فیصلہ فرمائیں۔اور مول فیصل ارشاد فرمائیں تاکہ قلب کو تسکین ہو؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قاعدہ کلیہ ہے۔الاقراض تقضي بامثالها۔اور منصوص ہے کہ قرض کمی بیشی کی شرط ربوٰ ہے ۔اب سمجھنا چاہیے۔کہ منی آرڈر کا روپیہ جو ڈاک خانہ میں داخل کیا جاتا ہے۔آیا وہ امانت ہے۔اور اہل ڈاک اجیر یا قرض ہے۔اور اہل ڈاک مستقرض سو چونکہ یقینا معلوم ہے کہ وہ روپیہ بعینہ نہیں بھیجتا اور نیز قانون ہے کہ اگر ڈاک خانہ سے وہ روپیہ اتفاقا ً ضایع ہو جائے۔تو اہل ڈاک اس کا ضمان دیتے ۔ہیں۔اور ان دونوں امر سے معلوم ہوا کہ وہ امانت نہیں۔بلکہ قرض ہے۔جو دوسری جگہ ادا کیا جاتا ہے پس یہ بھی جزو قرض ہوا۔اور مقام وصول پر چونکہ بوضع فیس ادا کیا جاتا ہے۔اس لیے قرض میں کمی بیشی لازم آئی یہ وجہ اس کے ممنوع ہونے کی ہے۔بلکہ اگر یہ فیس بھی نہ وہ تب بھی حسب قاعدہ کلیہ کل قرض جر نفعاً فھوا ربوٰ بوجہ منفعت سقوط خطر طریق کے داخل سفتج ہو کر مکروہ ہے۔ فی الدر المختار کتاب الحوالة وکرھت السفتحة ۔کیونکہ یہ عقد اجارہ نہیں ہے۔جیسا اُوپر مذکور ہوا۔لہذا مسئلہ حمال سے اس کو کوئی مس نہیں کما ہو ظاہر اور عموم بلوٰی طہارت و تجارت میں موثر ہے۔نہ حلت و حرمت میں اور رتعامل اس کونہیں کہتے۔بلکہ وہ قسم اجماع کی او ر اس میں شرائط اجماع کا پایا جانا ضروری ہے۔منجملہ اس کے یہ بھی کہ علماء عصر واحد بلانیکر اس کو قبول کر لیں۔متنازع فیہ میں یہ امر مفقود ہے۔اس لیے یہ تعامل نہیں ہے۔ایک رواج عامیانہ ہے جو شر عا حجت نہیں اس سے سب نظائر مذکورہ زیرجواب نکل آیا۔واللہ اعلم 

البتہ بہت عرق ریزی سے اس قدر تاویل کی گنجائش ہو سکتی ہے۔کہ فیس کو اجرت کتابت و روانگی فارم کی کہا جاوے اس سے حرمت تفاضل تو دفع ہو جائے گی۔مگر کرہت سفتحہ کی باقی رہے گی۔واللہ اعلم  (ضیا ء الاسلام)

 اہل حدیث۔

گو مولناٰ اشرف علی تھانوی نے فقیہانہ طریق سے جواب دیاہے۔جو ایک ایسے شخص یا قوم پر جوبغیر قرآن کے کسی کی پیروی واجب نہ جانتی ہو۔حجت نہیں۔اس لیے جماعت اہل حدیث پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔لیکن ہمارے خیال میں فقہی اصول سے بھی یہ مسئلہ عدم جواز کا مورد نہیں ہوسکتا۔ لہذا اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں مولنا اشرف علی اور ان کے احباب کو حاصل ہے۔کہ وہ اس مسئلے کے متعلق اہل حدیث کے مذاکرہ علمیہ میں حصہ لیں۔اشرف علی تھانوی نے منی آرڈر کی دو صورتیں بتلائی ہیں۔یا تو ڈاک خانہ اس روپیہ کو قرض لیتا ہے۔یہ صورت اس صورت میں اس لیے ناجائز ہے۔کہ فیس ساتھ لے کر قرض کم ادا کرتا ہے۔یا ڈاک خانہ اجیر یعنی مذدور ہے۔یہ صورت اس لئے ناجائز ہے۔کہ اس صورت میں ڈاک خانہ امین ہے۔اور امین کا فرض ہے کہ امانت بعینہ وہی پہنچاوے۔حالانکہ ڈاک خانہ وہی روپیہ نہیں پہنچاتا۔قاعدہ یہ ہے کہ ڈاک خانہ سے مکتوب الیہ کو کاغذ بھیجے جاتے ہیں۔وہاں والے اپنے خزانے سے روپیہ ادا کرتے ہیں۔نیز امین سے نقصان ہوجائے۔تو اس کو بھرنا نہیں آتا۔حالانکہ ڈاک خانہ بھرتا ہے۔تو ثابت ہوا کہ ڈاک خانہ قرض دار ہے۔نہ اجیر جب تک منی آرڈر کی کے عقد کی کوئی فقہی صورت نہ ہو۔منی آرڈر کرنا جائز نہیں۔(یہ ہے مولناٰ اشرف علی تھانوی کا فتویٰ)

لطیفہ ۔

درسہ دیو بند میں ایک طالب علم اس مسئلے کا دل سے معتقد تھا۔اس کو روپیہ بھیجنے کی نوبت پیش آئی۔منی آرڈر تو ناجائزتھا۔اس نے مبلغات ڈبیہ میں بند کر کے بھیجے اللہ کی شان کے وہ ضائع ہو گئے۔چلو مسئلہ تو حل ہوگیا۔یہ خبر تو ایک لطیفہ ہے۔مسئلہ کا جواب یہ ہے کہ ہم یہ صورت اختیار کرتے ہیں۔کہ ڈاک خانہ اجیر ہے۔چنانچہ فیس منی آرڈر کا لفظ ہی اس کے اجیر ہونے پر دلالت کرتا ہے۔کیونکہ فیس کے معنی اجر ت کے ہیں۔فقہا کی اصطلاح میں اجیردو قسم کے ہیں۔ایک اجیر خاص دوم اجیر مشکوک۔اجیر خاص وہ ہوتا ہے۔جوایک ہی کا کام کرے۔جیسے دھوبی درزی وغیرہ۔جو بہتوں کے کپڑے دھوتا اور سیتا ہے اُن کے حکم بھی الگ ہیں۔یہ بات بالکل بدہیی ہے۔ کہ ڈاک خانہ اجیر ہے۔تو خاص اجیر نہیں بلکہ مشترک ہے۔اجیر مشترک کی بابت صالحین کا مذہب ہے کہ نقصان ہونے کی صورت میں اس سے بھرا جائے۔چنانچہ ہدایہ میں ہے۔یضمنہ عندھما۔تو ضمان بھرنے کا ثبوت تو صاحبین امام محمد اور امام یوسف کے قول سے ملتا ہے۔جس کی تائید تعامل سے بھی ہوتی ہے۔رہا یہ سوال کہ بعینہ وہی روپیہ ادا نہیں ہوتا۔اس کی بابت گزارش کہ روپیہ اصطلاح فقہاء مثلی چیز ہے۔یعنی ایک روپیہ بعینہ وہی دوسرا یہی وجہ ہے کہ ہم ایک عقد میں اس جیسی دوسری چیز لے لیں۔مثلا ً دس انڈے ہمارے سامنے ہیں۔ان میں سے ایک کو ہاتھ میں لے کر ہم نے سودا کیا۔مگر لیتے ہوئے دوسرا لیا تو منع نہیں۔کیونکہ وہ سب مثلی ہیں۔ایک چیز کسی شخص کی ہم سے کھوئی گئی کی قیمت ادا کرنا ہم پر واجب ہے۔لیکن اس چیز کی مثل ہمارے پاس ہے۔تو ہم اس کے دینے سے سبکدوش ہو سکتے ہیں۔مثلا ً کسی شخص کی چھتری ہم سے کھوئی گئی۔اس قسم کی بازار سے لا کر ہم دیویں۔در اصل مالک انکار نہیں کر سکتا کیونکہ وہ چیز مثلی ہے۔پس اگر ڈاک خانہ وہی روپیہ نہیں پہنچاتا۔تو نہ سہی۔اس کی مثل روپیہ تو پہنچاتا ہے۔جس کو ہم ٹھوک بجا کر لیتے ہیں۔حق تو یہ ہے کہ نہ روپیہ بھیجنے والے کو یہ منظور ہے۔وہی روپیہ جو میں دیتا ہوں پہنچایا جائے۔نہ وصول کرنے والے کو یہ شوق ہے۔کہ وہی روپیہ جو بھیجنے والے نے داخل ڈاک خانہ کیا ہے۔مجھے ملے بلکہ دونوں کو اس قسم کا خیال تو کیا پرواہ بھی نہیں۔

اُمید ہے دیگر حضرات علماء بالخصوص مولناٰ گنگوہی اور اشرف علی تھانوی کے معتقدین ضرور اس مذاکرہ میں حصہ لیں گے۔والسلام ٢٤ جمادی الاول سنہ ١٣٣١ھ مطابق ٢ مئی سنہ ١٩١٣ ء  کے اہل حدیث میں یہ مسئلہ بطور مذاکرہ علمیہ کے لکھا گیا تھا۔کہ ہر صاحب علم اس کے متعلق مخالف موافق رائے دے سکتے ہیں۔چاہیے تو یہ تھا کہ اہل علم اس اصل مسئلہ پر توجہ کر کے گفتگو کرتے بجائے اس کے ایک صاحب نے نواح جھانسی سے گالیوں کا ایک اچھا خاصہ دشنام نامہ بھیجا۔جس میں بہت کچھ اپنی قابلیت کا اظہار کیا۔وجہ خفگی یہ بتائی کہ تم کیا ہو جو بڑے بڑے علماء مثل مولانا رشید احمدگنگوہی۔اور اشرف علی تھانوی پر اعتراض کرتے ہو۔یہ سب کچھ لکھ کر دشنام نانہ کے درج اخبار کرنے کی درخواست کی تھی۔ہمیں اپنی ذات خاص کی توہین اس کے درج کرنے سے مانع نہ تھی۔کیونکہ ہم عرصہ سے چکنے گھڑے ہو چکے ہیں۔جس پر پانی اثر نہیں کرتا بلکہ یہ امرمانع تھا۔کہ ناظرین دیوبندی جماعت سے بد ظن ہو جایئں گے۔کہ ایسے صاف اور معقول مضمون کا جواب ایسا نا مہذب اور ناقابل سماعت خیر وہ تو گزرا ہم منتظر رہے۔کوئی اہل علم اس کی  طرف توجہ کرے کسی نے نہ کی اللہ بھلا کرے۔ایڈیٹر رسالہ ضیاء الاسلام مراد آباد کا کہ انہوں نے ہمارے مضمون کو پورا درج نہیں کیا جوان کو کرنا چاہیے تھا۔مگر اختصار کر کے بغیر اظہار اصل حال کے مولناٰ اشرف علی تھانوی سامنے پیش کراکر جواب طلب کیا گو اخبار اہل حدیث کا پرچہ بھی مولناٰ کے پاس جا چکا تھا۔

اصل مسئلہ تو ناظرین کو شعائر تو بھول ہوگیا ہوگا۔اس لئے اس کا خلاصہ بتلا کر جواب اور جواب الجواب ناظرین کو سناتے ہیں۔مولناٰ رشید احمد اور اشرف علی تھانوی کا فتویٰ ہے۔موجود طریق جو منی آرڈر بھیجنے کا ہے جائز نہیں۔کیونکہ یہ عقد نہ تو اجارہ ہے اور نہ ہی قرض اجارہ اس لیے نہیں کہ منی آرڈر کی رقم ضائع ہونے کی صورت میں ڈاک خانہ پھر دیتا ہے۔اجارہ میں اجیر پر بھرنا نہیں آتا۔نیز وہ روپیہ بعینہ نہیں بھیجا جاتا۔حالانکہ اجارہ میں بعینہ دیا جاتا ہے۔اور قرض اس لئے نہیں کہ فیس جو ساتھ دی جاتی ہے۔وہ ڈاک خانہ واپس نہیں دیتا۔حالانکہ قرض میں سب کچھ ادا کیا جاتا ہے۔یہ ہے دومولنٰائوں کی تقریر کا خلاصہ اس کے جواب میں ہم نے لکھا تھا۔کہ امر واقع یہ ہے کہ عقد اجارہ ہے ڈاک خانہ ہم سے قرض نہیں مانگتا ڈاک خانہ کو قرضدار قرار دینا خلاف منشاء ڈاکخانہ اور نیز قواعد ڈاک خانہ کے ہے۔کیونکہ اجارہ ہے اس لئے اس کی اجرت بھی مقرر ہے۔جس کا نام فیس ہے۔رہا یہ کہ روپیہ بعینہ نہیں بھیجا جاتا۔اس کا جواب دیا تھاکہ روپیہ مثلی چیز ہے۔یعنی جو روپیہ ہم نے ڈاک خانہ میں دیا ہے۔اس کے ساتھ کے اور روپے بھی ملتے ہیںَ۔جو کام کے لہاظ سے ہمارے روپوں کے برابر ہو بہو ہیں۔اور مثلی چیز کا حکم یہ ہے وہ یا اس کی مثل دوسری چیز کا دینا جائز ہے۔بھرنے کا جواب دیا تھا کہ اجیر دو قسم کے ہوتے ہیںَ۔ایک خاص جو صرف ہمارا ہی کام کرتا ہے۔اس سے نقصان کا بھرنا تو احناف میں کسی کا مذہب نہیں۔مگر ڈاک خانہ اجیر خاص بلکہ اجیر مشترک ہے۔کیونکہ وہ ہمارا ہی کام نہیں کرتا بلکہ ہر ایک کا کرتا ہے۔وہ اامام محمد اور امام یوسف  کا مذہب ہے۔ کہ جو نقصان اجیر مشترک سے ہو یقینا جائز ہے۔پس اس حکم کے مطابق اگر ڈاک خانہ نقصان بھر دے۔تو عقد اجارہ میں دخل نہیں آتا۔یہ ہے ہمارے مضمون کا مندرجہ اہل حدیث ٢ مئی کا خلاصہ اسی کو ایڈیٹر نے رسالہ ضیاء الاسلام نے بعنوان زیل مولنا ٰ اشرف علی تھانوی کے پاس پہنچایا جو درج زیل ہے۔

سوال۔آیا جو منی آرڈر کی یہ تاویل ہوسکتی ہے یا نہیں کہ اس معاملہ کو اجارہ اور فیس کو روپیہ پہنچانے کی اجرت کہا جائے اس پر دوجو شہبے ہوتے ہیں۔ایک یہ کہ روپیہ بعینہ نہیں پہنچایا تھا۔اور دوسرے ہلاک سے ڈاک خانہ پر ضمان شروط ہوتا ہے۔اُن کا آیاج ئہ جواب ہوسکتا ہے۔یا نہین کہ روپیہ بوجہ نقد ہونے کے تعین سے متعین نہین ہوتا بلکہ ہر مثلی کا یہی حکم ہے کہ اس میں تعین نہیں ہوتی جیسے انڈا کہ ختتا مثلی ہے اور چھتری کہ صنعتاً مثلی ہے۔اور ضمان مشترک پر ایسی صورت میں کہ ہلاک بفعل اجیر نہ ہو۔گو وہ ہلاک ممکن الاحتراز ہو صاحبین کے نزدیک مشروع ہے بینوا توجروا؟

جواب۔یہ تاویل ٹھیک نہیں دو شبہوں کی وجہ سے جو سوال میں مذکور ہین اور ان کے جو جواب دیئے گئے ہیں۔ان میں سے اول کا جواب تو بالاجماع ٹھیک نہیں کیونکہ یہ عدم تعین صرف عقود میں ہے۔باقی امانات و غصوب میں نقود بھی متعین ہیں۔پس یہ جواب موئل کا ٹھیک نہ ہوا اور دوسرے شبہ کا جواب اول تو اما م صاحب  کے قول پر ٹھیک ہو سکتا تھا۔اور جب یہ نہیں تو وہ اجارہ ہی نہیں جو ڈاک خانہ کو اجیر مشترک کہا جائے اس لئے صاحبین کے قول پر بھی یہ جواب نہ چلا۔

اہل حدیث ۔

ناظرین نے سوال و جواب جو مولناٰ اشرف علی تھانوی نے دیا ملاحظ فرمالیا۔پس اب ہماری طرف سے جواب الجواب بھی سنیے۔

اجارہ ہی سے مخصوص نہیں فقہ کے بہت سے مسائل کی بناء صرف اس بناء پر ہے کہ مالک کی اجیر کے ساتھ نزاع نہ ہو۔اس لئے کوئی شخص زمین کرایہ پر لے تو جو کچھ اس میں بوئے اس کا زکر اس کو کرنا ضروری  ہے یا یہ کہہ دے کہ میں جو چاہوں گا بوئوں گا۔ورنہ بوجہ نزاع کے خطرہ کے یہ اجارہ جائز نہ ہوگا۔ہدایہ کتاب الاجارہ باب

 ما يجوز فيه الاجارة وما لا يجوز

اس اُصول کے مطابق آج ہم منی آرڈر کے طریق کو دیکھتے ہیں تو کوئی نزاع اس مطلب کے ہم نہیں پاتے کے لینے والے کو روپیہ یا نوٹ یا پونڈ لینے میں کچھ تکرار ہو۔بلکہ وہ سب کو یکساں جانتا ہے۔وہ یہ بھی نہیں جانتا نہ جاننا چاہتا ہے۔کہ بھیجنے والے نے ڈاک خانہ والے کو کیا دیا۔

اس محصول پر یہ مسئلہ ہے۔ جو مولناٰ اشرف علی تھانوی نے بھی جس کی تصدیق کی ہے۔کہ روپے مثلی ہونے کی وجہ سے عقود کی صورت میں بھی متعین نہیں ہوتے۔کیونکہ روپیہ اصل مقصود نہیں بلکہ کار براری کا زریعہ ہے۔ فقہا نے اس کی صاف تصریح کر دی ہے۔پس جب کہ نقود کے عدم تعین کی مثال ملتی ہے۔اور اس کی وجہ بھی فقہا کے الفاظ میں ہم سمجھ چکے ہیں۔تو کوئی وجہ نہیں کہ منی آرڈر کی صورت میں اس تعین پر زور دیں۔بلکہ عدم تعین میں نہ نزاع پیدا ہو نہ تکرار۔دوسری وجہ جس کو مولناٰ کمال بلند پردازی سے شبہ کے ساتھ تعبیر فرماتے ہیں۔صاحبین کا مذہب ہے۔جن کے مذہب پر بوقت ضرورت عمل کرنا گویا امام صاحب کے مذہب پر عمل ہے۔اجیر مشترک تو اس کو کہتے ہیں۔جو کئی ایک کام کرے جیسے دھوبی ۔درزی جو خاص ایک ہی کے نوکر نہ ہوں۔ان سے اگر نقصان ہو  جا تو صاحبان کے مذہب میں اس کابدلہ مالک کو ملتا ہے۔روپیہ کا بیعنہ نہ جانا تو مالک اور مرسل الیہ کو  پہلے ہی سے معلوم ہے پھر اس کی شرط ہی کیا

ضروری اُصول قابل لہاظ۔

اجارہ میں کسی چیز کا بعینہ پہنچانا اصل مالک کے فائدے کیلئے ہے۔یعنی اصل چیزکو لینا مالک کا حق ہے۔شرع کا حق نہ ہونے سے اجارہ کی ماہیت یا ذات میں داخل نہیں یہ ظاہر ہے کہ صاحب حق اپنا چھوڑے تو کسی کو مجال دوم زون کیا۔منی آرڈر کرنے والا جس وقت منی آرڈر کرتا ہے تو اس کو معلوم ہوتا ہے۔یہ روپیہ بعینہ نہیں پہنچے گا باوجود علم کے اگر وہ روانہ کرتا ہے تو گویا وہ اپنا حق خود ساقط کرتا ہے۔اس صورت میں عدم جوازکی کیا وجہ ہے۔

اُمید ہے حضرات مانعین اس پر کافی غور فرمایئں گے ۔ایڈیٹر صاحب رسالہ ضیاء الاسلام سے امید ہے کہ مثل سابق ہمارے معروضات پہنچا کر ثواب حاصل کریں گے۔

٢٦ ستمبر سنہ ١٩١٣ء

(فتاویٰ ثنائیہ جلد ٢ صفحہ نمبر ١٥٣،١٥٤)

 

مذاکرہ علمیہ

بابت وی پی۔

مسائل شرعیہ مروجہ بہت کم مہیں ضروریات زمانہ زیادہ ہیں ایسی ضرورتوں کیلئے شرعی قواعد مقررہیں۔ان سے ایسے مسائل مستبط ہو سکتے ہیں۔آجکل انگریزی تعلیم کے اثر سے متاثر لوگوں کا سوال ہمیشہ سے علماء پر چلا آیاہے۔کہ یہ لوگ تو پرانے مسائل میں بال کی کھال اُتارا کرتے ہیں۔مگر نئے مسائل پر رائے زنی نہیں کر سکتے۔بلکہ ان کا حکم بھی نہیں بتا سکتے ۔مثلاً منی آرڈر کا حکم کیا ہے۔وی پی کا حکم کیا ہے۔؟بظاہر تو بوجہ عام عمل ہونے کے اس قابل بھی نہیں کہ انکی بابت کچھ سوال کیاجائے یا سوچا جائے لیکن ہجمیں جو ضرورت محسوس ہوئی ہے اس کے ہاظ یہ سوچنے سے تعلق رکھتا ہے۔وی پی کا طریق یہ ہے کہ خریدار فلاں چیز یافلاں کتاب مجھ کو بزریعہ وی پی بھیج دے۔او ر وہ چیز بائع کی طرف سے چلی جانے کے بعد گم ہوجائے۔یا مشتری تک پہنچے ۔اس کی قیمت اصل مالک تک نہ پہنچے۔تو یہ نقصان کس کا ہوگا۔یعنی دونوں صورتوں میں بائع اصل قیمت مشتری سے لے سکتا ہے یا نہیں؟

تشریح

یوں ہے کہ ڈاک خانہ ایک چیز کو چیز کی صورت میں لیتا ہے۔اس کی اجرت کا سارا بوجھ مشتری پر پڑتا ہے۔مشتری کے لکھنے پر ڈاک خانہ میں دی جاتی ہے۔اس لئے مبنی جواب مذاکرہ یہ ہے کہ ڈاک خانہ وکیل کسی کا ہے اور وکیل کیسا ہے۔وکیل بالبیع ہے یا وکیل بالقبض اس پر یہ جواب مرتب ہوگا۔کہ ڈاک خانہ کی غفلت کا خمیازہ کس پر پڑنا چاہیے۔اہل علم ناظرین سے اُمیدہے۔جواب با صواب مدلل سے اطلاع فرمائیں گے۔

(١١ فروری سنہ ١٩٢١ئ)

عرصہ ہوا کہ یہ مذاکرہ جاری کیا گیا تھا۔اس کا مطلب یہ تھا کہ آجکل جو اشیاء ویلوکرنے کا طریق ہے۔اس میں حسب قانون ڈاک خانہ کی اُجرت مشتری کے زمہ پر پڑتی ہے۔اور مشتری کہتا بھی ہے۔کہ بزریعہ ویلو بھیج دو۔اب شرعی صورت میں سوال یہ ہے کہ ڈاک خانہ وکیل کس کی جانب سے ہے۔بائع کی طرف سے یامشتری کی جانب سے اس کا اثر اس صورت میں ظاہر ہوگا۔جب اس ویلو کی قیمت  بائع کو وصول نہ ہو۔کیونکہ اگر ڈاک خانہ بائع کا وکیل بالقبض تو مشتری کا زمہ پاک اور اگر مشتری کا وکیل اور اس نے بائع کی قیمت نہیں پہنچائی تو بائع اس قیمت کازمہدار نہیں۔

مذاکرہ علماء کرام نے توجہ نہیں فرمائی صرف مولوی عبد الکریم ساکن جنڈیا لہ امرتسر نے ایک مختصر سا مضمون بھیجا ہے جو درج زیل ہے۔

مذاکرہ علمیہ بابت وی پی کے جواب میں بندہ اپنی ناقص عقل کی بساط کے مطابق عرض کرتا ہے۔کہ اس بات کے تو آپ بھی قائل کہ ضروریات زمانہ بنسبت مسائل شرعیہ مروجہ گویا زیادہ ہیں۔مگر انکے مشروع ہونے یا غیر مشروع ہونے کیلئے قواعد شرعیہ مقرر ہیں۔جن سے ایسے مسائل مستبط ہو سکتے ہیں۔مگر استنباط کرے توکون کرے قصور ہے تو کس کا۔قرآن کریم تو ایسی کتاب ہے جس کی بابت ارشاد خداوندی ہے۔ناطق۔ 

فَبِأَىِّ حَدِيثٍۭ بَعْدَهُۥ يُؤْمِنُونَ ﴿١٨٥﴾

پس کون سی حدیث کے ساتھ بعد اس کے ایمان لاویں گے۔اور حدیث نبوی بھی کہہ رہی ہے۔

لا يشبه منه العلما اي لا يصلون الي الا حاطة بكتبها حتي يقفوا وقوف من يشبع ولا تنقضي عجا ئبه

نہیں پیٹ  بھرتے اس سے عالم نہیں پہنچتی  احاطہ کرنے تک کہ ٹہرتے ہیں ٹھرنا اس شخص کا سا جو پیٹ بھر لے خدا سے نہیں ختم ہوتے عجائبات اس کے۔

نیز ابن عباس  سے مروی ہے۔

قال جمع الله في هذا الكتاب علوم الاولين والاخرين وعلم ما كان وعلم ما يكون والعم باخالق جل جلاله وامره وخلقه

اکٹھا کیا اللہ نے اس کتاب میں علوم پہلے اور پچھلے لوگوں کے اور علم اس کاجو تھا اور علم اس کا جو ہوگا۔اور علم خلائق کابلند جلالیت اس کی اور اس کااورصف خلقیہ اس کی اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ کلام الہٰی قرآن  کریم ہی ایک ایسی جامع کتاب ہیھ کہ ہر زمانہ کے ضروریات کے ساتھ استباط مسائل کرے۔تو کون یہی علماء جن کو ورثة الانبیاء کہا گیا خواہ کسی کے زمانے  کے ہوں۔

مشکلے نیست کہ آسان نہ شود

مرد باید کہ ہراسان  نہ  شود

مگر آجکل کے علماء جو محنت شاقہ کے متحمل ہوسکتے ہیں۔وہ توخاموشی کو اخیتار کر رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آج کل کے انگریزی تعلم سے متاثر لوگ علماء پر معترض ہوتے ہیں۔ہائے افسوس ہماری غفلت اورسستی مولناٰ جب آپ نے اب وی پی کے مسئلہ کی نسبت ہر طرحسے کھول کرتشریح کردی ہے۔تو اب نتیجہ نکالنا بھی کوئی امر ہے۔کون زی عقل ہے جونہیں سمجھ سکتا کہ جب بائع نے اپنی کوئی چیز کتاب وی پی ہو یا منی آرڈر ہو ڈاک خانہ میں دے کران سے رسید بھی فیس دے کر وصول کرلی ہے۔جس سے وہ چیز وی پی ڈاک خانہ کے زمہ آجاتی ہے۔اگر اس حالت میں وہ پی یا منی آرڈر کا نقصان ہوگا۔تو ڈاک خانہ ہی زمہ دار ہے۔اسی طرح اگر مشتری نے وی پی یا منی آرڈر ڈاک خانہ سے وصول کر کے رسید لکھ دی پھر اگر یہ روپیہ جو مشتری سے ڈاک خانہ کے قبضے  میں آگیا۔جو وکیل بالبیع یا بالقبض تھا۔ضائع نہ ہوگا تو وہی ڈاک خانہ ہی ضامن ہے۔اور نہیں نہ بائع ہوگا۔نہ مشتری ۔ھذا ما ظھرلی والله اعلم با لصواب

(اہل حدیث امرتسری تاریخ بوجہ سکتگی نا معلوم سنہ ١٩٢١ئ)

عرصہ ہوا یہ مذاکرہ علمیہ جاری ہوا اہل علم سے جیسی توقع تھی اس پر انھوں نے توجہ نہیں دی۔مندرجہ زیل مضمون قابل غور ہے۔

ایڈیٹر۔

وی پی ہو یا منی آرڈر دونوں صورتوں میں ڈاک خانہ اجیر کی صورت میں وکیل بالقبض ہوتا ہے وی پی کی صورت میں صرف بائع کااو ر منی آرڈر کی صورت میں مرسل زر کا ڈاک خانہ کی رسید اس کا ثبوت ہے۔جس کے پاس وہ ہوگی۔ڈاک خانہ بس اسی کا بصورت اجیر وکیل بالقبض ہوگا وی پی ہو یا اس کی قیمت راستہ میں گم ہونے کی صورت میں مشتری اس کے نقصان کا زمہ دار نہ ہوگا۔اسرایئلی مقروض کا ارسال کردہ زر گویا وی پی ۔ فا خذ خشبة فنقر فادخل فيها الف دينار وصحيفة لي صاحبه

اگر یہ حسن عقیدت اور خدائیتایئد سے پہنچ گیا تھا لیکن خدا نکخواستہ اگر راستہ میں تلف ہوجاتا توسمقروض ادائیگی قرض سے ہر گز سبکدوش نہ ہو سکتا مرسلہ کے تلفہونے کے خیالسے مقروض کا خود اس کی خدمت میں سرلے کر حاضڑ ہوگا۔اور قرض دہندہ کا مطالبہ کرتا اور کنندہ کادینے سے انکارنہ کرنا بلکہ دینے کیلئے آمادہ ہونا اس بات کی دلیل ہے۔کہ مشتری وصولی سے پیشتر وی پی اور وصولی کے بعد اس کی قیمت کا زمہ دار نہیں

ثم قدم الذي كان اسلفه فاتي بالف دينار

 (بخاری)

یافلان مالی فدطالت النفقة فقال اما مالک فقد دفعت الیٰ وکیلی واما انت فھذا مالک(فتح)ملکہ سبانے سلمان علیہ السلام کو ہدیہ بھیجا وصولی سے پیشتر راستہ میں آکر تلف ہوجاتا تو سلمان علیہ السلام ہر گز زمہ دار نہ ہوتے جس طرح ہدیہ نہ قبول کرنے پر  اعلان جنگ کیا گیا۔ہدیہ تلف ہونے پر بھی ایسا ہی ہوتا اور بلقیس کی مراد ہرگز پوری نہ ہوتی اگر یہ بات درست ہے کہ مرسل الیہ یعنی خریدار کی وصولی شرط نہیں اور یہ کہ موکل وی پی کر دینے سے سبکدوش ہوجاتا ہے۔تو سلمان علیہ السلام کا ہدیہ نہ قبول کرنا بے معنی ہوگا۔اور یہ جو کہا گیا ہے کہ مشتری کے لکھنے پر بائع وی پی کرنے کی جرات کرتا ہے۔ٹھیک ہے مگر وی پی کا نقصان اس پر نہیں پڑ سکتا۔کیونکہ آجکل کے ڈاک خانہ کے جدید قانون کی وجہ سے تاجران کتب و ایڈیٹر ان اخبارات کا اعلان ہے۔کہ پیشگی منی آرڈر کر دیا جائے۔تو کیا منی آرڈر تلف ہونے پر وہ زمہ دار ہوں گے۔ہر گز نہیں اسی طرح مشتری بھی نقصان کا زمہ دار نہ ہوگا۔رہا یہ سوال کہ جب مشتری کسی صورت میں زمہ دار نہیں تو پھر کون بائع یا وکیل تو جواباً عرض ہے۔کہ ڈاک خانہ کی بے احتیاطی اور غفلت وغیرہ کی وجہ سے اگر نقصان ہو تو نقصان ڈاک خانہ پر پڑے گا۔ لقوله صلي الله عليه وسلم علي اليد ما اخذت حتي يودي  (دارمی)

 

لقوله صلي الله عليه وسلم الزعيم غارم (ترمذی ۔دارقطنی)

 

اگر ڈاک خانہ کی غفلت نہیں تو وی پی یا اس کی قیمت تلف ہونے کا نقصان بائع پر پڑے گا۔اور ڈاک خانہ بری رہے گا۔

 

لقوله صلي الله عليه وسلم ليس علي المستعير غير المغل ضمان ولا علي المستودع غير المغل ضمان اخرجه الدارالقطني والبهيقي وضعفاه وصوبا وقفه علي شريح

۔نیز نقصان غیر اختیاری صورت میں محکمہ ریلوے و ڈاک زمہ دار نہ ہوگا۔کیونکہ یوشع بن نون پمچھلی گم ہونے کا نقصان نہیں پڑا۔ قال حماد اذا تكفل بنفس ذات فلا شئ عليه

 (بخاری)  یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ڈاک خانہ جیسا کہ اوپر زکر کیا گیا ہے۔وکیل بالقبض ہے وکیل بالبیع نہیں ہوسکتا کیونکہ وکیل بالبیع گو مبیع کے تصرف میں اختیار ہوتا ہے۔اور وہ مبیع کے منافع میں حقدار نہ ہونے کے باعث نقصان کا زمہ دار بھی نہیں ہوتا۔رسول اللہ ۖ نے عروہ بن سعد کو اُضیحہ کی خریداری میں وکیل بنا کر بھیجا اس کے تصرف سے جو نفع ہواتو عروہ اس کا مالک نہ ہوسکا تو نقصان کی صورت میں اس کا خمیازہ اس پر کیونکر پر سکتا ہے۔اور حکیم ابن حزام کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا(بخاری۔ابودائود۔ترمذی ابن ماجہ دارقطنی)پس وکیل بالبیع اور وکیل بالقبض میں بہت فرق  ہے۔ڈاک خانہ کو وکیل بالقبض سمجھنا چاہیے۔

الحاصل وی پی یا اس کی قیمت گم ہونے سے نقصان مشتری پر نہیں پڑے گا۔ڈاک خانہ کی ڈاک خانہ کی غفلت سے ہو تو ڈاک خانہ پر ورنہ بائع پر۔اورمنی آرڈر کی صورت میں ڈاک خانہ پر یا مرسل زرپر کہ جس کے پاس رسید ہوتی ہے۔اور یہ بھی یاد رہے کہ حدیث( لا ضمان علي موتمن دارقطني)اٍصل بحث اور مذاکرہ سے غیر متعلق ہونے کی وجہ سے اس مقام پر قابل زکر نہیں۔

(ابو عمران عنایت اللہ۔وزیر آبادی از سہسوانی مدرسہ اہل حدیث ١٢ زیقعد سنہ ١٩٣٩ئ)

(فتاویٰ ثنائیہ جلد ٢ صفحہ نمبر ١٥٩۔١٦٠)

 

 

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد14،

تبصرے