کیا نہری زمین پر عشر ہے یا نصف عشر ؟
آج ایک چھوٹا سا رسالہ، مسئلہ عشر کی تحقیق، نظر سے گذرا، تحریر میں شوخی اور گستاخی کا رنگ غالب ہے، اور زبان بھی ایسی استعمال کی گئی ہے جو ایک عالم دین کے شایان شان نہیں، انداز تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا مرتب نہ صرف شوخ اور گستاخ ہے بلکہ علوم دینیہ سے کل واقف نہیں، اس رسالہ میں سب سے زیادہ زور اس بات پر دیا گیا ہے کہ حدیث میں ہے:
((فیما سقت السماء والانھار والعیون او کان بعلا العشر وفیما سقی بالسوانی او النضح نصف العشر)) (ابو داؤد و جلد ۱)
’’یعنی رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو زمین بارش، اور نہروں اور چشموں کے پانی سے سیراب ہو، یا نمناک زمین ہو اس کی پیداوار میں دسواں حصہ ہے اور جو مویشیوں کے ذریعے کنوؤں سے پانی نکال کر سیراب کیا جائے اس کی پیدوار میں بیسواں حصہ ہے۔‘‘
مولوی صاحب موصوف نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ اس میںنہری زمین میں عشر ہے، لہٰذا موجودہ نہری زمین کی پیداوار میں بھی عشر ہے، لیکن مولوی صاحب موصوف کا استدلال مسئلہ حدیث کی منشاء کے خلاف ہے۔
حدیث میں اس زمین پر عشر مقرر کیا گیا ہے جس کو سیراب کرنے میں انسان کسی مونث و مشقت کا محتاج نہیں ہوتا اور جس زمین میں نصف عشر بیان کیا گیا ہے، اس سے وہ زمین مراد ہے جس کو سیراب کرنے میں انسان کو مؤنت و مشقت برداشت کرنی پڑتی ہو، مرعات شرح مشکوٰۃ میں ہے:
((والعیون ای الانھار الجاریة التی یستقی منھا باساحة الماء من دون اختراف بآلة والمراد ما لا یحتاج فی سقیه الی مؤنة))
’’یعنی چشموں سے وہ جاری نہریں مراد ہیں کہ ان نہروں سے پانی بہنے سے زمین سیراب ہوتی ہے، (سوائے کسی آلہ کے اس سے زمین سیراب کی جائے اور اس سے مراد وہ زمین ہے کہ اس کو سیراب کرنے میں مؤنت و مشقت برداشت نہ کرنا پڑے۔‘‘
موجودہ نہریں ان نہروں کی طرح نہیں ہیں جن کا ذکر حدیث میں ہے، جہاں تک نہریں کھودنے اور زمین تک پانی لانے کا تعلق ہے، موجودہ نہریں ان نہروں کی طرح ہو سکتی ہیں۔ جن کا ذکر حدیث میںہے، مگر اس لحاظ سے ضرور فرق ہے، کہ حدیث میں جن چشموں اور نہروں کا بیان ہے ان کے پانی کی قیمت ادا نہیں کرنی پڑتی تھی مگر موجودہ نہروں کے پانی لینے کے لیے اس کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے، جو یقینا ایک مشقت اور مؤنٹ ہے، اس لیے موجودہ نہروں سے سیراب شدہ زمین کی پیداوار میں عشر نہیں، بلکہ نصف عشر ہے۔
مؤنت اور عدم مؤنت کے اصول کو حدیث میں بیان کر دیا ہے مگر مولوی صاحب اس اصول سے بے خبر اور ناآشنا ہیں، اور انہوں نے اسی بے خبری کی وجہ سے چند بے ربط سوالات لکھ کر ان کے جوابات کا مطالبہ کیا ہے، چنانچہ ایک سوال یہ بھی ہے کہ:
اگر مالیہ اور آبیانہ کی وجہ سے نہری میں بیسواں حصہ یعنی نصف عشر ہے تو پھر چاہی میں بیسویں سے کم ہونا چاہیے کیونکہ اگرچہ اس میں آبیانہ نہیں، لیکن سرکاری مالیہ تو ضرور ادا کرنا پڑتا ہے۔ لہٰذا مالیہ کا خرچ نکال کر باقی سے بیسواں حصہ دینا چاہیے۔
آنحضرتﷺ کے وقت مالییہ کا خرچ بھی نہیں پڑتا تھا۔ حالانکہ ان قیاس کرنے والوں میں سے کوئی بھی اس کا قائل نہیں۔
اس عبارت کا مطلب یہ ہے کہ خرچ وغیرہ نکال کر باقی سے عشر لینا کوئی مسئلہ نہیں۔ حالانکہ جس کتاب مرعات کا حوالہد یا گیا ہے اسی میں ہے کہ عمر بن عبد العزیز نے عبد اللہ بن ابی عوف رضی اللہ عنہ عامل فلسطین کی طرف لکھا ہے جو زمین قبضہ میں ہے ان میں جذیہ لیں باقی پیداوار میں سے عشر لیا جائے ، دیکھئے خرچ وغیرہ نکال کر باقی میں عشر لینے کا مسئلہ واضح طور پر موجود ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مصنف رسالہ نے مرعات کا مطالعہ نہیں کیا، ایسے لوگوں کی خدمت میں عرض ہے، کہ وہ اشاعت سے پہلے اپنی تحریر اپنے اساتذہ کو دکھا لیا کریں تاکہ غلطی کا شاہکار نہ ہوں۔
اس مسئلہ پر مفتی زماں حضرت العلام مولانا حافظ عبد اللہ محد ث روپڑی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک فتویٰ شائع کیا جاتا ہے، تاکہ عوام الناس کے سامنے مسئلہ کی اصل صورت واضح ہو جائے، اور کوئی شخص اس رسالہ کو پڑھ کر کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو۔ (حافظ عبد القادر روپڑی)
بخدمت شریف جناب مولانا حافظ صاحب رحمۃ اللہ علیہ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ!
خیریت فیما بین نیک مطلوب! کے بعد واضح ہو کہ آپ نے تنظیم اہل حدیث جلد اول نمبر ۱۵، مؤرخہ ۲ جمادی الاول ۵۱ء مطابق یکم اکتوبر ۳۲ء میں نہری زمین میں زکوٰۃ نصف عشر لکھی ہے، حالانکہ حدیث شریف میں ہے: ((وما سقی بالانھار نفیه العشر)) ’’یعنی جو کھیتی نہروں کے پانی سے کی جائے اس میں عشر ہے۔‘‘
اور حافظ عبد اللہ صاحب غازی پوری کا ایک فتویٰ بھی بندہ کے پاس ہے، اس میں انہوں نے بھی عشر ہی لکھا ہے، بعینہٖ نقل ہے۔