السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زمین خراجی میں عشر لازم ہے یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ مسئلہ معارک عظیمہ سے ہے،امام مالک رحمۃ اللہ علیہ و امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ و امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا یہ مذہب ہے کہ دونوں لازم ہیں، اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں سوائے خراج کے اور کچھ لازم نہیں، چنانچہ ہدایہ میں ہے : ((ولا عشر فی الخارج من ارض الخراج الخ)) فتح القدیر میں ہے: ((وقال الشافعی رحمة اللّٰہ علیه ومالك رحمة اللّٰہ علیه واحمد رحمة اللّٰہ علیه یجمع بینہما لانہما حقان ذاتاً ومحلاً وسبباً و مصرفاً الخ)) صاحب ہدایہ نے اپنے مدعا کے اثبات میں تین اولہ قائم کئے ہیں، امام ابن ہمام نے تینوں کو مخدوش و منظور فیہ کر دیا ہے، چنانچہ صاحب ہدایہ نے استدلال بحدیث : ((لا یجتمع عشر و اخراج فی ارض مسلم)) کیا اور امام ابن ہمام نے فرمایا : ((وهو حدیث ضعیف)) پھر آگے اس کی وجہ ضعف بیان کی، پھر دو حدیثیں موقوف نقل کیں، اس پر فرمایا: ((وحاصل هذا کما تریی لیس الا نقل مذہب بعض التابعین ولم یرفعوٗ لیکون حدیثاً مرسلا)) ونیز صاحب ہدایہ نے استدلال کیا کہ ((ان احداً من الائمة الجور والعدل لم یجمع بینہما)) اس پر امام ابن ہمام نے فرمایا: ((قد منع بنقل ابن المنذور الجمع فی الاخذ عن عمر بن عبد العزیز فلم یتم وعدم الاخذ من غیرہ جاز کونه لتفویض الدفع الی الملاک فلم یتعین قول الصحابی بعدم الجمع لیتج من یکتج بقولہم علی ان فعل عمر بن عبد العزیز یقتضی ان لیس عمر بن الخاط علی منع الجمع لانه کان متبعاً له مقتضائً لا شمارہ الخ)) لیکن امام ابن ہمام نے ایک دلیل عدم وجوب کی نقل کی ہے ، فرماتے ہیں: ((الذی یغلب علی الظن ان الخلفاء الراشدین من عمر رضی اللّٰہ عنه و عثمان وعلی لم یاخذوا عشراً من ارض الخراج والّا لنقل کما نقل تفاصیل اخذہم الخراج الخ)) اور بحکم حدیث ((علیکم بسنتی و سنة الخلفاء الراشدین)) یہی ثابت ہوتا ہے کہ جب خلفاء الراشدین میں سے کسی نے عشر زمین خراجیہ سے نہ لیا تو اب بھی وہی حکم ہے، گویا یہ حکم منجملہ اجماعیات صحابہ ہوا۔ اور نیز اراضی بلاد عجم بتصریح علمائے کرام خراجیہ ہیں، چنانچہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی مالا بدمنہٗ میں و جناب شاہ عبد العزیز صاحب نے بعض تحریرات میں اس پر صراحت فرمائی ہے، اور خراجیہ اسے کہتے ہیں جس میں عشر نہ ہو، تو ثابت ہوا کہ زمین خراجی میں عشر لازم نہیں۔ هذاواللہ اعلم۔
هو الموفق:… واضح ہو کہ ہر زمین کی پیداوار میں عشر یا نصف عشر (جیسی صورت ہو) لازم ہے بشرطیکہ مالک پیداوار مسلمان ہو، اور پیداوار نصاب کو پہنچی ہو، خواہ زمین خراجی ہو یا عشری اور خواہ زمین مالک پیداوار کی مملوک ہو یا نہ ہو، ہر حالت میں عشر یا نصف عشر لازم ہے، اس واسطے کے کہ اولہ وجوب عشر و نصف عشر عام ہے۔ قال اللہ تعالیٰ: ﴿وَاَنْفِقُوْا مِنْ طَیّبَتِ مَا کَسَبْتُمْ وَمِمَّا اَخْرَجْنَا لَکُمْ مِنَ الْاَرْضِ﴾ (البقرۃ) ((وقال رسول اللّٰہ ﷺ فیما سقت السماء والعیون او کان عشر یا العشر وفیما سقی بالنضح نصف العشر)) (متفق علیه) اور کوئی دلیل ایسی صحیح نہیں ہے، جس سے یہ ثابت ہو کہ عشر یا نصف صرف زمین عشری میں لازم ہے، اور زمین خراجی میں لازم نہیں، اور جس قدر دلیلیں اس مطلب کے ثبوت میں حنفیہ کی طرف سے پیش کی جاتی ہیں، ان میں سے ایک بھی قابل احتجاج نہیں، ایک دلیل ان کی یہ حدیث ہے: ((لا یجتمع عشر وخراج فی ارض مسلم)) ’’یعنی مسلمان کی زمین میں عشر اور خراج جمع نہیں ہوتا۔‘‘ یہ حدیث باطل ضعیف و باطل ہے، حافظ ابن حجر درایۃ ص ۲۶۸ میں لکھتے ہیں، حدیث ((لا یجتمع عشر وخراج فی ارض مسلم ابن عدی عن ابن مسعود رفعه بلفظ لا یجتمع علیٰ مسلم خراج و عشر وفیه یحییٰ بن عنبسة وهو واہٍ وقال الدارقطنی هو کذاب وصح هذا الکلام عن شعبی وعن عکرمة اخرجہا ابن ابی شیبة وصح عن عمر بن عبد العزیز انه قال لمن قال انما علی الخراج الخراج علی الارض والعشر علی الحب۔ اخرجه، البیہقی من طریق یحییٰ بن آدم فی الخراج لی وفیھا عن الزہری لم یزل المسلمون علیٰ عہد رسول اللّٰہ ﷺ وبعدہ یعاملون علی الارض ویشکر ونہا ویؤدون الزکوٰة عما یخرج منہاد فی الباب حدیث ابن عمر فیھا سقت السماء عشر متفق علیه ویستدل بعمومه انتہیٰ))
اور علامہ ثناء اللہ پانی پتی تفسیر مظہری میں لکھتے ہیں: ((ولم یثبت منع الجمع بین العشر والخراجل بدلیل شرعی وما رواہ ابن الجوزی وذکرہٗ ابن عدی فی الکامل عن یحییٰ بن عنبسة حدثنا ابو حنیفه عن حماد عن ابراہیم عن علقمة عن ابن مسعود قال قال رسول اللّٰہ ﷺ لا یجتمع علی مسلم عشر وخراج باطل اتنہیٰ))
اور ایک دلیل یہ ہے کہ کسی امام نے عادل ہو یا جائز عشر اور خراج کو جمع نہیں کیا، یعنی ایسا نہیں کیا کہ عشر بھی لیا ہو، اور خراج بھی، پس تمام ائمہ (جائز ہوں یا عادل) کا اتفاق و اجماع اس امر کے ثبوت کے لیے کافی ہے کہ زمین خراجی میں عشر نہیں، یہ دلیہ بھی ناقالب استدلال ہے، جیسا کہ مجیب نے علامہ ابن الہمام سے نقل کیا، اور حافظ ابن حجر درایۃ ص ۲۶۸ میں لکھتے ہیں۔
((لا اجماع مع خلاف عمر بن عبد العزیز والزهری بل لم یثبت عن غیر هما التصریح بخلافہما انتہیٰ))
اور ایک دلیل یہ ہے کہ ظن غالب یہ ہے کہ خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم نے زمین خراجی سے عشر نہیں لیا، کیونکہ اگر یہ حضرات زمین خراجی سے عشر لیتے تو ضرور منقول ہوتا جیسا کہ ان کے خراج لینے کی تفصیلی باتیں منقول ہیں، پس خلفاء راشدین رضی اللہ عنہ کا زمین خراجی سے عشر نہ لینا دلیل ہے کہ زمین خراجی میں عشر لازم نہیں، یہ دلیل بھی ناقابل استدلال ہے، اس واسطے کہ جب آیت قرآنیہ و احادیث نبویہ کے عموم سے خراجی زمین میں عشر کا لازم ہونا ثابت ہے، تو ظن غالب یہ ہے کہ ان حضرات رضی اللہ عنہم نے زمین خراجی سے ضرورعشر لیا ہو گا، اور عدم ذکر شی عدم شی لازم نہیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ (فتاویٰ نذیریہ ج 1ص ۴۹۳)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب