سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(19) اگر کسی شخص کے پاس سونا اور چاندی دونوں ہوں الخ۔

  • 3076
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1441

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 اگر کسی شخص کے پاس سونا اور چاندی دونوں ہوں، مگر دونوں ہی اپنی اپنی جگہ نصاب سے کم ہوں اور دونوں کو ملا کر نصاب پورا ہوتا ہو، تو کیا ان کو ملا کر ذکوۃ ادا کی جائے یا نہ؟
(۲) زیور کی زکوٰۃ ہر سال ادا کی جائے یا عمر میں ایک ہی دفع ادا کی جائے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 سونا چاندی دونوں ملا کر نصاب پورا کر کے زکوٰہ ادا کرنے کے مسئلہ میں رسول اللہﷺ سے کچھ مروی نہیں ہے، اسی بنا پر اس مسئلہ میں اختلاف ہے، حنفیہ اور مالکیہ کا اس باب میں یہ مسلک ہے، سونا اور چاندی ددنوں کی مقدار اپنی اپنی جگہ اگر کم ہو، اور ان کو ملا کر نصاب ہوتا ہو تو اس صورت میں دونوں کو ضم کر کے نصاب کے برابر کر لینا چاہیے، اور زکوٰۃ ادا کر دینا چاہیے۔ لیکن راجح مسلک یہ (؎۱) ہے، کہ ایسا نہیں کرناچاہیے، بلکہ سونا اور چاندی سے اسی صورت میں زکوٰۃ ادا کرنا چاہیے، وہ دونوں الگ الگ نصاب کو پہنچتے ہوں، حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری میں اس پر بحث کی ہے، انہوں نے لکھا ہے کہ دونوں کو باہم نہیں ملانا چاہیے، انہوں نے اس سلسلہ میں اس حدیث سے استدلال کیا ہے، جس میں کہ رسول اللہﷺ نے بھیڑوں اور بکریوں کے بارہ میں فرمایا ہے: ((لَا یُجْمَعُ بَیْنَ مُتَفَّرق)) ’یہ الگ الگ اگر نصاب کو نہ پہنچتی ہوں تو ان کو ملایانہ جائے۔‘‘ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے:
(؎۱) سونے اور چاندی کے نصاب کو ملا کر زکوٰۃ ادا کرنے میں اختلاف ہے، اور صریح نص کسی بھی طرف نہیں ہے، حافظ عبد اللہ روپڑی مرحوم کا فتویٰ مفصل گذر چکا ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے راجح مسلک یہ ہے کہ سونے اور چاندی کے نصاب کو ملا کر زکوٰۃ ادا کی جائے۔ (سعیدی)
 ((من کان عندہ دون النصاب من الفضة ودون النصاب من الذھب مثلا انه لا یجب ضم بعض الی بعض حتیّٰ یصیر نصاباً کاملا فتجب فیه الزکوٰة))
’’یعنی جس شخص کے پاس سونا اور چاندی دونوں نصاب سے کم ہوں، وہ سونا اور چاندی دونوں کو ملا کر نصاب کے مطابق نہ کرے۔‘‘
(۲) زیور کی زکوٰۃ کی ادائیگی کے مسئلہ میں چار مذہب ہیں، ایک یہ کہ زیور سے زکوٰۃ ادا کرنا ضروری ہے، سلف کی ایک جماعت اسی طرح گئی ہے، امام شادری رحمۃ اللہ علیہ کا بھی سلسلہ میں ایک قول ملتا ہے، دوسرا یہ کہ زیور سے زکوٰہ ادا کرنا ضروری نہیں ہے، یہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ، امام احمد رحمۃ اللہ علیہ، اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک ہے، تیسرا یہ کہ زیور کی زکوٰۃ یہ ہے کہ اگر کسی کو کبھی ضرورت پڑے تو اسے عارتیہ دے دیا جائے، اس مسلک کی بنیاد پر وہ اقوال ہیں، جو دارقطنی میں حضرت انس رضی اللہ عنہ اور حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، چوتھا یہ کہ زیور سے زکوٰۃ ادا کرنا ضروری ہے، لیکن عمر میں صرف ایک دفعہ! اس کی بنیاد حضرت انس رضی اللہ عنہ کا ایک قول ہے جو بیہقی میں وارد ہے۔
زیور سے زکوٰۃ کے متعلق اصل بات یہ ہے کہ زکوٰۃ ادا ہی کی جائے، اور ہر سال اد اکی جائے، عون المعبودشرح ابو داؤد اور تحفة الاحوذی شرح ترمذی میں اس پر مفصل بحث کی گئی ہے، اور رسول اللہﷺ سے متعدد صحیح مرفوع روایات، اقوال و آثار صحابہ، وتابعین و تبع تابعین کے ارشادات کے حوالے دئیے گئے ہیں، ان میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ، فاطمہ بنت قیس اور اسماء بنت یزید سے مروی روایات ہیں، کہ ان کو آنحضرتﷺ نے مختلف اوقات میں مختلف زیور پہنتے ہوئے دیکھے، اور آپ نے ان کو ان سے زکوٰہ ادا کرنے پر زور دیا، اور عدم ادائیگی پر وعید سنائی، اسی طرح زیور کی زکویہ ہر سال ادا کرنی چاہیے، تحفۃ الاحوذی شرح ترمذی میں دارقطنی کے حوالہ سے حضرت عبد اللہ بن عمروف کے بارہ میں لکھا ہے کہ : ((انه کان یکتب الی خاذنه سالم انیخرج زکوٰہ حلی نسائه کل سنة)) ’’یعنی انہوںنے اپنے خزانچی کو لکھا کہ وہ ان کی عورتوں کے زیور سے ہر سال زکوٰۃ ادا کیا کریں۔‘‘خلاصہ کلام یہ ہے کہ زیور سے عدم ادائیگی زکوٰۃ کے متعلق رسول اللہﷺ سے کچھ مروی نہیں ہے، بلکہ یہی ثابت ہے کہ زیور سے زکوٰہ ادا ہی کی جائے۔ (الاعتصام جلد نمبر ۶ شمارہ نمبر ۲۵)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 7 ص 91-92

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ