السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
یہ درپیش ہے کہ وہ شخص ان مکانوں کی اصلی قیمت کی یا اس کی آمدنی کی کیونکر زکوٰۃ دے،زکوٰۃ سے بیر ہے، یا مثل اور آ مدنیوں کے جو خرچ سے نہ بچے سال میں اگر اس پر نصاب صادق ہو تو چالیسواں حصہ نکال دے، اور نصاب روپے کے حساب سے چاندی قرار پائے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
علامہ ابوابوالوفاء صاحب نے اہل حدیث مبطوعہ ۳ مئی ۱۲ء میں زیر عنوان ’’فتاویٰ نمبری ۲۳۷( اخبار میں غلطی سے نمبر۳۷ چھپ گیا) تحریر فرمایا ہے کہ کرایہ کے مکانات کو مثل اراضی مزروعہ کے سمجھ کر بلحاظ شکست وریخت بیسواں حصہ سالانہ آمدنی کا زکوٰۃ دے۔
اگرچہ علامہ موصوف نے اپنی رائے کے مطابق کرایہ کے مکانوں کو زمین مزروعہ پر قیاس کیا ہے، اور جس زمین میں آسمانی پانی سے زراعت تیار نہیں ہوتی، بلکہ نہر سے یا کنویں سے پٹا کر کام لیا جاتا ہے، اس زمین کے حساب پر بیسواں حصہ دینے کا فتویٰ دیا ہے، تاہم سائلین کی پوری تشفی نہیں ہوئی۔
علامہ موصوف کے اس قیاس پر یہ سوال وارد ہوتا ہے کہ آیا یہ قیاس صحیح ہے؟ جہاں تک غور کیا جاتا ہے۔ یہ قیاس مع الفارق نظر آتا ہے، علت مشترکہ جامع کا پتہ نہیں کہاں زراعت کہاں مکان کا کرایہ (۱) زراعت میں ہر سال آمدنی قبل از فصل معدوم اور موادم ہوتی ہے، خواہ کھیت ہوں یا نخیل و انگور وغیرہ بخلاف مکانات کے کرایہ کے دو چار سل کا پیشتر وصول ہو جاتا ہے، اور یہ شرعاً جائز ہے، (۲) ونیز مکانات کے کرایہ کی آمدنی یکساں بیس پچیس سال تک بلکہ مدتوں چلی جاتی ہے، کوئی تغیر نہیں ہوتا، اور بخلاف زراعت و زمین مزوعہ و فصل کے ہر سال نیا احتمال ہوتا ہے، کبھی قلیل ، کبھی متوسط کبھی خوب زائد کبھی بالکل خالی۔ غرض کیف ما اتفق ان وجوہات کے کرایہ مکانات کو عشری زمین پر یا زراعت پر قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے، ہاں نقدی کے ساتھ مشاہبت اس طرح ہو سکتی ہے، کہ گویا کرایہ کے روپے نقد رکھے ہوئے ہیں، سال کے خرچ سے جو بچیں گے، اور نصاب تک پہنچیں گے، تو اس میں اسی حساب سے زکوٰہ فرض ہو گی، اور نقد ہونے کی وجہ سے چاندی کا نصاب قرار دیا جائے گا، اس لیے چالیسواں حصہ زکوٰۃ نکالنا ہو گا، میں امید رکھتا ہوں کہ شیخ الاساتذہ جناب مولانا حافظ عبد اللہ صاحب دام ظلہ العالی اس مسئلہ میں اپنی رائے سے مطلع فرمائیں گے، و نیز دیگر اہل علم اپنی رائے سے مطلع فرمائیں گے۔ رائے کے ساتھ دلیل بھی ہو تو عین مقصود ہے۔ (عبد السلام مبارکپوری از صادق پور پٹنہ)
ایڈیٹر:… بے شک اہل علم کی توجہ اس طرح ضروری ہے، اخبار اہل حدیث کا وجود ان معنی سے ایک علمی مجلس کا کام دیتا ہے، اہل علم اس مجلس میں خود ہی شریک نہ ہوں تو کسی غلط مسئلہ سے (جو در صورت عدم شرکت ان کے ) صادر ہو جائے گا۔ ان کو بھی حصہ ر سدی گنا ہ ہو گا۔ (فتاویٰ ثنائیہ جلد اولد ص ۱۷۵)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب