سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(110) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لباس سے حصول تبرک

  • 3053
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 3001

سوال

(110) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لباس سے حصول تبرک
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حضرت اسماء (رض) نے ایک جبہ نکالا اور کہا: "یہ رسول اللہ کا جبہ ہے، یہ جبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی وفات تک ان کے پاس تھا اس کے بعد میں نے اس پر قبضہ کرلیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس جبہ کو پہنتے تھے، ہم اس جبہ کو دھو کر اس کا پانی بیماروں کو پلاتے ہیں اور اس جبہ سے ان کے لیے شفا طلب کرتے ہیں۔"(صحیح مسلم، جلد نمبر:٣، حدیث:٥٣٧٦) اس حدیث کی اصل حقیقت کیا ہے اور اگر یہ حدیث صحیح مسلم میں موجود ہے تو اس کی شرعی حیثیت واضح کردیں۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیلکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ حدیث صحیح ہے اور مسلم شریف میں موجود ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس امت کے لئے باعث برکت تھی۔ آپ جس چیز کو چھو لیتے تھے ،اللہ تعالی اس میں برکت فرما دیتے تھے۔جب آپ اپنا ہاتھ مبارک پانی میں ڈبو دیتے تو آپ کی انگلیوں سے چشمے کی طرح پانی نکلنا شروع ہو جاتا،اگر آپ اپنا لعاب مبارک سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کے کھانے میں ڈال دیتے تو وہ تمام اہل خندق کو کافی ہو جاتا،صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ کے وضو کے پانی اور تھوک مبارک کو نیچے نہ گرنے دیتے اور اپنے جسموں پر مل لیتے تھے۔حجۃ الوداع کے موقع پر آپ نے اپنے بال سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کو دئے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں تقسیم کروا دئے۔

مذکورہ بالا واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ جس چیز کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوا ہو اس سے تبرک حاصل کرنا جائز ہے۔

لیکن یاد رہے کہ تبرک حاصل کرنے کا یہ جواز صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے،آپ کے علاوہ کسی دوسرے شخص کے لباس،بالوں یا پسینے وغیرہ سے تبرک حاصل کرنا حرام اور شرک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی دوسرے فرد سے ایسا تبرک حاصل کرنے کی کوئی دلیل نہیں ملتی۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے سیدنا ابو بکر، سیدنا عمر ،سیدہ فاطمہ ،سیدہ عائشہ اور سیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنہم سمیت کسی سے تبرک حاصل نہیں کیا۔اور نہ ہی امت سے ایسا کوئی عمل ثابت ہے۔

ایک بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ عصر حاضر میں مختلف مقامات پر (جیسے بادشاہی مسجد میں )نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب اشیاء کی نسبت مشکوک ہے اور کوئی ایک بھی ثقہ روایت موجود نہیں ہے کہ یہ چیزیں واقعی آپﷺ کی ہیں۔ لہذا ان سے تبرک حاصل کرنا بھی شرک کے زمرے میں آئے گا۔ جس سے بچنا ضروری ہے ،ورنہ ضیاع اعمال کا اندیشہ ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 3کتاب الصلوۃ

تبصرے