کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرح متین اس مسئلہ میں کہ مال تجارت میں زکوٰۃ فرض ہے، یا نہیں؟
مال تجارت میں زکوٰۃ فرض ہے، بدلیل اس آیت کے:
{اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا کَسَبْتُمْ وَمِمَّا اَخْرَجْنَا لَکُمْ مِنَ الْاَرْضِ… الایة}
واضح ہو کہ کسب میں دستکاری اور بیع و شریٰ داخل ہے، بدلیل روایت احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے رافع بن خدیج سے:
((قَالَ قِیْلَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَیُّ الکسب اَطیبُ قال حملُ الرجل بیدہٖ وکل بیع مبرور)) (رواہ احمد کذا فی المشکوٰۃ)
بنا بریں اس کے امام بخاری نے ایک باب منعقد کیا ہے، زکوٰۃ کسب اور تجارت میں یعنی ان دونوں صورتوں میں زکوٰۃ واجب ہوتی ہے، یعنی جو مال کسب و دستکاری اور بیع و شریٰ سے بقدر نصاب کے حاصل ہو، اس میں زکوٰۃ واجب ہو گی، اس لیے کہ رسول خدا ﷺ نے کسب مطلق میں کسب تجارت کو شامل کیا، اور یہ آیت {اَنْفِقُوْ مِنْ طَیِّبَاتٍ مَا کَسَبْتُمْ} سے فرضیت زکوٰۃ اظہر من الشمس ہے، اجماعاً تو مکسوبہ تجارت میں بھی زکوٰۃ بلاشبہ واجب ہو گی، اسی واسطے اس پر بھی اجماع منعقد ہوا، منکر اور مخالف اس کا مذاق قرآن مجید اور محاورہٗ لسان عرب سے محفوظ ماہر نہ ہوا، ((اَللّٰھُمَّ اَغَفِرْلَه وارحمه))
لقول اللہ تعالیٰ:
{یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا کَسَبْتُمْ وَ مِمَّآ اَخْرَجْنَا لَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَلَا تَیَمَّمُوا الْخَبِیْثَ مِنْه تُنْفِقُوْنَ وَ لَسْتُمْ بِاٰخِذِیْه اِلَّآ اَنْ تُغْمِضُوْا فِیْه وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ انتہی} (البقرة:۲۶۷)
((ظاہر الآیة یدل علیٰ وجوب الزکوٰة فی کل یکتسبه الانسان وفیدخل فیه زکوٰةۃ التجارة وزکوٰةۃ الذہب والفضة وزکوٰة النعمم لان ذالک مما یوصف بانه مکتب کذا فی التفسیر لکبیر وہٰذہٖ الآیة سند الاجماع وحجة للجمہور علی داؤد حیث قال لا یجب الزکوٰة ُ الا فی الانعام وعند الجمہور یجب فی العروض والعقار ایضاً اذا کان للتجارة وانما شرطوا نیة التجارة لان النمو شرط لوجوب الزکوٰة بالاجماع ولا نمو فی العرض الابنیة التجارة وعن ابن عمر لیس فی العروض زکوٰة الا ما کان للتجارة رواہ الدارقطنی… ومما یدل علیٰ وجوب الزکوٰة فی العروض ماروی عن حماسٍ قال مررت علی عمر بن خطاب ولعی عنقی اومتة احملہا فقال الاتوذی زکوٰہت ک یا حماس فقال مالی غیر ہذا واُہبْته فی القرظ قال تلک مال ضعہا فقضعتہا بین یدیه فحسبہا قدوجبت الزکوٰة فیہا فاخذ منہا الزکوٰة رواہ الشافعی واحمد وابن ابی شیبة وعبد الرزاق وسعید بن منصور والدارقطنی ص ج ، اتنہی ما فی التفسیر المظہری للقاضی ثناء اللّٰہ الپانی پتی))
اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی والد ماجد شاہ عبدا لعزیز محدث دہلوی ازالۃ الخلفاء میں فرماتے ہیں:
((الشافعی عن ابن عمر و ابن حماس ان اباہ قال مررت بعمر بن الخطاب وعلی عقنی اومتة احملہا فقال عمر الاتوذی زکوٰۃتک یا حماس فقلت یا امیر المؤمنین ما لی غیر ہذا الذی علی ظہری واہبة فی القرظ قال ذلک مال فضع فوضعتہا بین یدیه فحسبہا فوجد ہا قدوجبت فیہا الزکوٰة فاخذ مہنا الزکوٰة انتہی ما فی ازالة الخلفاء))
یہ روایت حضرت عمر کی اگرچہ لفظاً موقوف ہے، مگر باعتبار حکم کے مرفوع ہے کیونکہ جس امر میں رائے کو دخل نہیں اس وک صحابی اپنی طرف سے نہیں کہہ سکتا، جب تک حضرت رسول مقبولﷺ سے نہ سنا ہو، جیسا کہ اہل حدیث اور فقہ پر مخفی نہیں، اور اس آیت کریمہ {وَالَّذِیْنَ فِیْ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّٔ مَعْلُوْمٌ ہ لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُوْمِ }سے بھی مال تجارت میں فرضیت زکوٰۃ ثابت ہوتی ہے، کیونکہ فی اموالہم میں تجارت بلاریب شامل ہے، بدلیل اس آیت کے {لَا تَأکُلُوْا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِِ اِلَّا اَنْ تَکُوْنَ تِجَارَة ای اِلَّا اَنْ تَکُوْنُ الاموال اموال تجارة صاورة عن تراضٍ منکم} چنانچہ تفسیروں میں مذکور ہے، لہٰذ تفسیر عزیزی میں پہلی آیت کا اس طرح ترجمہ کیا گیا ہے، {وَالَّذِیْنَ فِیْ اَمْوَالِھِمْ} یعنی وکسانیکہ در جمیع انواع مالہائے ایشان از نقد و محصول زراعت و مال تجارت وبردہ حق معلوم یعنی حقے است مقرر کردہ شدہ ومعین نمودہ کہ آن زکوٰۃ است وصدقۃ فطر انتہیٰ مختصراً
اور ماہرین شریعت پر واضح ہے کہ صلوٰۃ حق بدن ہے اور زکوٰہ حق مال ہے، او رمال تجارت جنس اموال میں بلاریب شامل ہے، اسی واسطے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مانعین زکوٰۃ سے جہاد کیا جیسا کہ صحاح ستہ سے معلوم ہوتا ہے، اور اکتساب تین وجہ سے حاصل ہوتا ہے، یا مواشی سائمہ (؎۱) یا زراعت یا تجارت سے لہٰذا شاہ ولی اللہ محدث دہلوی حجۃ اللہ بالغہ میں فرماتے ہیں:
(؎۱) وہ جانور جو باہر جنگل میں چرتے ہیں۔۱۲
((الاموال النامة ثلثة اصناف الماشیة المتناسلة السائمة والزوع والتجارة ولما کان دوران تجارة من البلدہ ان النائیة وحصاد الزوع و جنی الثمرات فی کل سنة وہی مدة صالحة لمثل ہذہٖ التقدیرات انتہیٰ کلامه))
اور سابق معلوم ہو چکا کہ بیع کسب میں داخل ہے بدلیل روایت امام احمد کے رافع بن خدیج سے اور بیع عبارت ہے دوران مال تجارت سے تو نصف قرآن سے زکوٰۃ مال تجارت میں بھی فرض ہوئی، کیونکہ صیغہ { انفقوا} کا آیت {انفقو من طیبات ما کسبتم} میں واسطے وجوب فرضی کے ہے علی الاطلاق تو فرضیت زکوٰۃ مال تجارت میں قرآن مجید میں ثابت ہوئی حدیث ابو داؤد کی جو بدربارۂ زکوٰۃ مال تجارت کے واد ہے، اور وہ حدیث یہ ہے:
((عن سمرة بن جندب قال کان رسول اللّٰہ ﷺ یا مرنا ان نخرج الصدقة من الذی نعدہ للبیع )) (رواہ ابوداود، وانسادہ لین کذا فی بلوغ المرام)
سو یہ حدیث دلیل مستقل فرضیت زکوٰۃ مال تجارت پر نہیں ہے ،بلکہ وہ دلالت کرتی ہے، نص آیت {انفقو من طیبات ما کسبتم} اور سند اجماع پر اور یہ حدیث سند اجماع کے لیے کافی ہے، اگرچہ سند اس کی لین و ضعیف ہے، اور فی نفسہٖ قوی نہیں کہ موجب اسکات ہو، البتہ اجاع سے اس میں قوت آ گئی ہے، چنانچہ تفصیل اور تشریح اس کی بحث اجماع میں مذکور ہے، ((کما لا یخفیٰ علی الماہر باقوال العلماء من المتقدم ین والمتاخرین واللّٰه اعلم بالصواب فاعتبروا یا اولی الالباب))