صدقہ فطر کے احکام و مسائل تفصیلاً بیان کریں ؟
جمہور محدثین اور فقہا کا طریقہ ہے کہ وہ زکوٰۃ کے مسائل تحریر کرنے کے بعد صدقۃ الفطر کے مسائل بھی کتاب الزکوٰۃ کے آخر میں بیان کرتے ہیں، حالانکہ اس صدقہ کا تعلق رمضان المبارک کے روزوں کے ساتھ ہے، اس لیے ہم بھی جمہور کی اقتداء میں اب بالاختصار صدقۃ الفطر کے مسائل بیان کرتے ہیں۔
فطر کا معنی روزہ کھولنا یا روزہ ترک کرنا ہے، چونکہ یہ صدقہ رمضان المبارک کے روزے پورے کرنے کے بعد ان کے ترک پر دیا جاتا ہے، لہٰذا صدقۃ الفطر کہلاتا ہے۔
جمہور علماء کے نزدیک صدقۃ الفطر کا دا کرنا فرض ہے، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اپنی صحیح میں فرماتے ہیں:
((بَابُ فَرْضٍ صَدَقَة الْفِطْرِ وَرَأیَ اَبُو الْعَالِیَة وَعَطَائٔ وَابْنُ سِیْرِیْنَ صَدَقَة الْفِطْرِ فَرِیْضَة))
’’صدقۃ الفطر کی فرضیت کا بیان، امام ابو العالیہ، عطاء اور ابن سیرین صدقۃ الفطر کو فرض سمجھتے تھے۔‘‘
حافظ ابن حجر فتح الباری میں لکھتے ہیں، امام صاحب نے ان تین ائمہ کا نام اس لیے لیا ہے کہ انہوں نے صدقۃ الفطر کی فرضیت کا بیان، امام بو العالیہ، عطاء اور ابن سیرین صدقۃ الفطر کی فرضیت کی تصریح کی ہے، ورنہ ابن المنذر نے تو اس کی فرضیت پر اجماع نقل کیا ہے، ہاں حنفیہ اسے اپنے مزعومہ قاعدے کے مطابق واجب کہتے ہیں، مالکیہ میں سے اشہب اور بعض اہل ظاہر نے اس کو مسنت مؤکدہ کہا ہے، مگر پہلا قول صحیح ہے، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی فرضیت ثابت کرنے کے لیے مذکورہ بالا باب میںحضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث درج کی ہے۔
((عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ فَرَضَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ زَکٰوة الْفِطْرِ مِنْ تََمَرٍ اَوْ صَاعًا مِنْ شَعِیْرٍ عَلَی الْعَبْدِ وَالْحُرِّ وَالذَّکَرِ وَالْاُنْثٰی وَالصَّغِیْرِ وَالْکَبِیْرِ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ وَاَمَرَ بِھَا اَنْ تُؤَدّٰی قَبْلَ خُرُوْجِ النَّاسِ اِلَی الصَّلٰوة))
’’یعنی آنحضرتﷺ نے آزاد، غلام، مرد ، عورت اور ہر چھوٹے بڑے مسلمان پر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو بطور صدقۃ الفطر ادا کرنا فرض کیا ہے، اور اسے لوگوں کے نماز کی طرف جانے سے پہلے نکالنے کا حکم دیا ہے۔‘‘
اس حدیث میں آنحضرتﷺ نے صدقۃ الفطر کی فرضیت کی تصریح فرمائی ہے، اسے زکوٰۃ الفطر سے تعبیر کرنے میں بھی اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے۔
جن غلہ جات کو انسان بطور خوراک استعمال کرتا ہے، ان سے صدقۃ الفطر ادا کر سکتا ہے، آنحضرتﷺ کے زمانہ میں عموماً جو، کھجور، منقہ اور پنیر کھاتے تھے، اس لیے آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ان اجناس سے صدقۃ الفطر ادا کرنے کا حکم دیا، چنانچہ حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں، کہ ہم رسول اللہﷺ کے زمانہ میں عید الفطر کے دن (فی کس) کھانے کا ایک صاع دیا کرتے تھے، اور اس وقت ہمارا کھانا جو ، کھجور، منقہ اورپنیر پر مشتمل ہوا کرتا تھا۔ (بخاری)
ہمارے ملک میں گیہوں، چنا، جو ، مکی، باجرہ، جوار وغیرہ اجناس خوردنی ہیں، اور لوگ انہیں خوراک کے طور پر استعمال کرتے ہیں، لہٰذا ان میں جو جنس عموماً زیادہ استعمال کرتے ہیں، اس سے صدقۃ الفطر ادا کر سکتے ہیں۔
جس جنس سے بھی صدقۃ الفطر دیا جائے، شرعاً اس کی مقدار ایک صاع مقرر ہے، اس سے کم دینے سے صحیح طور پر صدقۃ الفطر ادا نہیں ہو گا، بعض صحابہ نے گیہوں کو گراں سمجھ کر نصف صاع دینے کا فتویٰ دیا، چونکہ انہوں نے ایسا فتویٰ اپنے اجتہاد سے دیا تھا، آنحضرتﷺ کی طرف سے ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا، اس لیے بعض دوسرے صحابہ نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا، اور صاف صاف کہہ دیا کہ ہم جس جنس سے بھی صدقہ دیں گے، پورا صاع ہی دیں گے کیونکہ آنحضرتﷺ کے زمانہ میں یہی دستور تھا، صحیح مسلم ص۳۱۸ ج۱ میں ہے۔
((عَنْ اَبِیْ سَعِیْدِ الْخُدْرِیْ قَالَ کُنَّا نُخْرِجُ اِذَا کَانَ فِیْنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ زَکٰوة اَلْفِطْرِ عَنْ کُلِّ صَغِیْرِ وَکَبِیْرِ حُرِّ اَوْ مَمْلُوْکِ صَاعًاس من طَعَامٍ اَوْ صَاعًا مِنْ اَقِطٍ او صَاعاً مِنْ بِشَعِیْرٍ اَوْ صَاعًا مِنْ تَمَرٍ اَوْ صَاعًا مِنْ زَبِیْبٍ فَلَمْ نَزَلْ نُخْرِجُه حَتّٰی قَدِمَ عَلَیْنَا مُعَاوِیَة بْنُ سُفْیَانَ حَاجًا اَوْ مُعْتَببِرًا فَکَلَّمَ النَّاَ عَلَی الْمِنْبَرِ فَکَانَ فِیْمَا کَلَّمَ بِه النَّاسَ اَنْ قَالَ اِنَّیْ اَرٰی اَنَّ مُدَّیْنِ مِنْ سَمَرَائِ الشَّامِ تَعْدِلُ صَاعًا مِنْ تَمَرٍ فَاَخَذ النَّاسُ بِذٰلِکَ قَالَ أَبُوْ سَعِیقدٍ فَاَمَّا اَنَا فَلَا اَزَالُ اُخْرِجُه کَمَا کُنْتُ اُخْرِجُه اَبَدًا مَّا عِشْتُ))
’’حضرت ابو سعید خدری کا بیان ہے، ہم آنحضرتﷺ کی موجودگی میں اپنے ملک کی خوراک سے جو، کجھور، منقی، جو اور پنیر وغیرہ پر مشتمل تھی، ایک صاع ہی صدقۃ الفطر ادا کیا کرتے تھے، آنحضرتﷺ کے بعد بھی ہمارا یہ معمول تھا، تاآنکہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ حج یا عمرہ کے لیے آئے، تو انہوں نے منبر پر خطبہ کے دوران کہا، میری رائے میں شامی گیہوں کے دو (نصف صاع قیمت میں) کھجور کے ایک صاع کے برابر ہیں، چنانچہ لوگوں نے اس پر عمل شروع کر دیا، مگر میں توجب تک زندہ ہوں، آنحضرتﷺ کے زمانہ کے دستور کے مطابق (جس جنس سے بھی دوں گا) ایک صاع ہی دوں گا۔‘‘
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:ؒ
((قَالَ اَمَرَ النَّبِیُّ ﷺ بِزَکٰوة الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمَرٍ اَوْ صَاعًا مِنْ شَعِیْرٍ قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ فَجَعَلَ النَّاسُ عِدْلَه مُدَّیْنِ مِنْ حِنْطَة)) (بخاری شریف)
’’یعنی آنحضرتﷺ نے کھجور سے ایک ایک صاع صدقۃ الفطر ادا کرنے کا حکم دیا، حضرت عبدا للہ فرماتے ہیں، لیکن بعد میں لوگوں نے ایک صاع کے بدلے گیہوں کے دو مد (نصف صاع) دینے شروع کر دئیے۔‘‘
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک صدقۃ الفطر کی صحیھ اور شرعی مقدار خواہ وہ کسی جنس سے ادا کیا جائے، ایک صاع مقرر ہے، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے گیہوں سے نصف صاع ادا کرنے کو لوگوں کی اپنی مرضی اورا پنی رائے سے تعبیر کیا ہے، ہاں سنن کی بعض احادیث میں ((نِصْفُ صَاعٍ مِنْ بُرٍّ یا نِصْفُ صَاعٍ مِنْ قَمْحٍ))کے الفاظ بھی آئے ہیں، لیکن یہ احادیث محدثین کے نزدیک پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتیں، لہٰذا قالب اعتبار نہیں، امام بیہقی فرماتے ہیں، آنحضرتﷺ سے ایک صاع گیہوں دینے کی احادیث بھی آئی ہیں، اور نصف صاع دینے کی بھی، مگر ان میں سے کوئی بھی صحیح نہیں ہے۔ (سبل السلام ص ۱۹۲ ج۲ طبع مصر)
اگر کسی شخص کے پاس صدقۃ الفطر ادا کرنے کے لیے غلہ موجود نہیں ہے، جیسا کہ عموماً شہری آبادی کی حالت ہوتی ہے، تو یہ ضروری نہیں کہ وہ بازاور سے غلہ خرید کر صدقۃ الفطر ادا کرے، بلکہ سال یا سال کا اکثر حصہ جس غلہ کو وہ خوراک کے طور پر استعمال کرتا ہے، فی کس ایک صاع کے حساب سے اس کی قیمت ادا کر دے، مثلاً ایک شخص کے گھر کے چھوٹے بڑے دس افراد ہیں، اور وہ سال یا سال کا بیشتر حصہ گیہوں یا چاول استعمال کرتا ہے، تو وہ صدقۃ الفطر میں ۱۰ صاع گیہوں یا ۱۰ صاع چاول کی بازار کے نرخ کے مطابق قیمت ادا کر دے، مگر یہ بالکل غیر مناسب ہے، کہ اس کی عام خوراک تو گیہوں یا چاول ہوں، لیکن وہ صدقۃ الفطر میں معمولی قسم کا غلہ یا اس کی قیمت ادا کرے۔
مختلف ملکوں میں جنس یا غلہ ماپنے کے لیے مختلف پیمانے استعمال ہوتے کیے جاتے ہیں، مگر صدقۃ الفطر زکوٰۃ، کفارہ وغیرہ شرعی امور میں وہی پیمانہ استعمال کیا جائے گا، جسے شارع علیہ السلام نے مقرر کیا ہے، اور جو اسلامی لٹریچر میں صاع النبیﷺ کے نام سے مشہور ہے، کتب احادیث میں بصراحت موجود ہے کہ آنحضرتﷺ کا صاع ((خَمْسَة اَوْ طَالٍ وَثُلُثُ رِطْلٍ)) یعنی پانچ آدھ سیر، اور ایک آدھ سیر کا تہائی حصہ، ہمارے وزن کے مطابق ایک صاع تقریباً دو سیر گیارہ چھٹانک کا ہوتا ہے، آنحضرتﷺ اور خلفائے راشدین کے زمانہ میں صدقۃ الفطر اور کفارہ وغیرہ میں یہی صاع استعمال ہوتا تھا، اب بھی ان شرعی امور میں اسی پیمانہ کا استعمال سنت ہے، دوسرے چھوٹے بڑے ملکی یا غیر ملکی پیمانوں کا کچھ اعتبار نہیں ہوتا۔ (نیل الاوطار طبع مصر ص ۲۵۶ ج۲)
صدقۃ الفطر کنبہ کے چھوٹے بڑے، مرد، عورت اور آزاد، غلام ہر فرد کی طرف سے ادا کیا جاتا ہے، ان میں شیر خوار بچوں سے لے کر شیخ فانی تک سب ہی لوگ شامل ہیں، کوئی شخص مستثنیٰ نہیں ہے، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے غلام، آزاد، مرد و عورت اور چھوٹے بڑے ہر فرد پر جو یا کھجور سے ایک صاع صدقہ الفطر ادا کیا کرتے تھے، ایک سال مدینہ میں کھجوریں پیدا نہ ہوئیں، تو انہوں نے اس سال جو سے صدقۃ الفطر ادا کیا۔ (بخاری شریف)
آنحضرتﷺ کے اس فرمان کے پیش نظر کنبہ کے رکن اعلیٰ کو اپنے بیوی، بچوں، غلاموں اور ان بے کس محتاجوں کی طرف سے صدقۃ الفطر ادا کرنا پڑے گا، جن کے پاس کوئی مال نہیں ہے، اور ان کی خوراک کا اس نے ذمہ لے رکھا ہے۔
کھیتی باڑی، دوکان داری یا گھر کے کام کاج کے لیے رکھے ہوئے ملازم، غلاموں کے حکم میں نہیں ہیں، یہ اپنا اورا پنے بال بچوں کا صدقہ خود ادا کرین گے، آقا پر ان کا صدقہ لازم نہیں ہے۔
اگر یتیم اور مجنون صاحب مال ہیں، تو ان کے مال کی زکوٰۃ اور صدقۃ الفطر ان کے مال سے ادا کیا جائے، امام بخاری فرماتے ہیں:
((وَرأیَ عَمَرُ وَعَلِیٌّ وَابْنُ عَمَرَ وَجَابَرٌ عَائِشَة وَطَاوٗسٌ وَعَطَائٌ وَابْنُ سِیْرِیْنَ اَنْ یُزَکّٰی مَالُ الْیَتِیْمَ وَقَالَ الزُّھْرِیُّ یُزَکّٰی مَالُ الْمَجْنُوْنِ))
’’یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ، جابر رضی اللہ عنہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا، طاوس، عطاء اور ابن سیرین کا مذہب یہ ہے کہ یتیم کے مال سے زکوٰۃ دی جائے، اور امام زہری کہتے ہیں کہ دیوانے کے مال کی زکوٰۃ دی جائے۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ جب ان کے مال سے زکوٰۃ دینا ضروری ہے، تو صدقۃ الفطر کا بھی یہی حکم ہے، چنانچہ ان کے مال سے صدقۃ الفطر نکالا جائے گا، ہاں اگر یہ لوگ محتاج ہیں، ان کے پاس کوئی مال نہیں، تو ان کی طرف سے صدقۃ الفطر وہ شخص ادا کرے، جس نے ان کے طعام و خوراک کا انتظام اپنے ذمہ لے رکھا ہے کیونکہ ایک حدیث میں آیا ہے، اگرچہ کمزور ہے۔
((اَدُّوْا صَدَقَة الْفِطْرِ عَمَّنْ تَمَوَّنُوْنَ)) (دارقطنی، بیہقی) (فتح الباری، سبل السلام)
’’یعنی ان لوگوں کی طرف سے صدقۃ الفطر ادا کرو جن کے اخراجات نان و نفقہ تم نے برداشت کر رکھے ہیں۔‘‘
صدقۃ الفطر نماز عید سے پہلے ادا کرنا ضروری ہے، آنحضرتﷺ نے صحابہ کرام کو اسی کی ہدایت فرمائی ہے، اور صحابہ کرام تازندگی اسی پر کاربند رہے ہیں، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے لوگوں کے نماز کے لیے نکلنے سے پہلے صدقۃ الفطر ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ (بخاری شریف)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی ا للہ عنہ سے روایت ہے:
((فَرَضَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ زَکٰوة الْفِطْرِ طُھْرَة لِلصَّائِمِ مِنَ اللَّغْوِ وَالرَّفْثِ وَطُعْمَة لِلْمَسَاکِیْنِ فَمَنْ اَدَّاھَا قَبْلَ الصَّلٰوة فَہِیَ زَکٰوة مَْبُوْلَة وَمَنْ اَدَّاھَا بَعْدَ الصَّلٰوة فَہِیَ صَدَقَة مِنَ الصَّدَقَاتِ)) (ابو داود، ابن ماجہ)
’’آنحضرتﷺ نے روزہ دار کے روزہ کو بے ہودہ گوئی اور فحش کلامی سے پاک کرنے اور غرباء و مساکین کی خوراک مہیا کرنے کے لیے صدقۃ الفطر فرض کیا ہے، جو شخص نماز سے پہلے یہ صدقہ ادا کرے، اس کا صدقہ قبول ہے (اس کے لیے یہ دونوں مقصد حاصل ہو جاتے ہیں) اور جو شخص نماز کے بعد ادا کرے، تو (صدقۃ الفطر ادا نہ ہو گا بلکہ) یہ دوسرے نفلی صدقات کی طرح ایک صدقہ ہے۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ نماز کے بعد صدقۃ الفطر ادا کرنا نہ دینے کے برابر ہے، البتہ اگر کسی نے گھر کے تمام افراد کی طرف سے فی کس ایک صاع کے حساب سے غلہ یا اس کی قیمت الگ کر دی ہے، کچھ مساکین میں تقسیم کر دی ہے، اور کچھ بعض غرباء کو دینے کے لیے رکھ لی ہے، جو اس وقت وہاں موجود نہیں ہیں، تو میں کوئی مضائقہ نہیں، نماز کے بعد ادا کرے۔
بعض ائمہ کے نزدیک صدقۃ الفطر صرف اغنیاء پر واجب ہے، غرباء پر نہیں، اور یہ مذہب احناف کا ہے، ہدایہ میں ہے:
((صَدَقَة الْفِطْرِ وَاجِبَة عَلَی الْحُرِّ الْمُسْلِمِ اِذَا کَانَ مَالِکًا لِمَقْدَارِ نِصَابٍ فَاضِلًا عَنْ مَسْکِیْنِه وَثِیَابِه وَاَثَاثِه وَفَرَسِه وَسَلَاحِه وَعَبِیْدِہٖ))
’’یعنی صدقۃ الفطر ہر اس آزاد مسلمان پر و اجب ہے، جو مکان، پارجات، گھر کے اثاثے، گھوڑے، ہتھیاروں اور خدمت کے غلاموں کے علاوہ کسی قسم کے نصاب کا مالک ہے۔‘‘
اس کے برعکس دوسرے ائمہ اور محدثین کے نزدیک صدقۃ الفطر کے وجوب کے لیے صاحب نصاب ہونا ضروری نہیں، بلکہ صدقۃ الفطر ہر اس شخص پر واجب ہے، جس کے پاس صدقۃ الفطر کے علاوہ ایک دن اور رات کی خوراک موجود ہے، کیونکہ صدقۃ الفطر کا مقصد جس طرح شارع علیہ الصلاۃ و السلام نے یہ بیان فرمایا ہے، کہ اس سے غرباء و مساکین کے لیے خوراک مہیا ہو، اس طرح یہ بھی فرمایا ہے ، کہ اس سے روزہ لغو و رفث سے پاک و صاف وہ جائے، اور روزہ کی تطہیر امیر و غریب دونوں کے لیے ضروری ہے، نیز جن احادیث سے صدقۃ الفطر کا وجوب اور فرضیت ثابت ہوتی ہے، ان میں امیر و غریب کا کوئی امتیاز نہیں کیا گیا، بلکہ احادیث میں تو صراحۃً امیر و غریب دونوں کو صدقۃ الفطر ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے ، چنانچہ ابو داود میں ہے:
((اَمَّا غَنِیْمُّکُمْ فَیُزَکِیَّه اللّٰہُ وَاَمَّا فَقِیْرُکُمْ فَیَرَدَّ اللّٰہُ عَلَیْه اَکْثَرٌ مِمَّا اَعْطَاہُ))
’’یعنی ہر امیر و غریب مسلمان صدقۃ الفطر ادا کرے، اللہ تعالیٰ غنی کے روزوں کو لغو و رفث سے پاک کر دے گا۔ اور فقیر جتنا دے گا، اس سے زیادہ اللہ تعالیٰ اس کے گھر لوٹا دے گا، (اور اس کے روزوں کی تطہیر بھی ہو جائے گی)۔‘‘
اس حدیث کے تحت امام خطابی ابو داود کی شرح معالم میں لکھتے ہیں، یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے ہے کہ اگر فقیر کے پاس صدقۃ الفطر ادا کرنے کی گنجائش ہے، تو اس پر صدقہ دینا لازم ہے، کیونکہ آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ فقیر جتنا دے گا، اللہ تعالیٰ اس کے گھر اس سے زیادہ لوٹا دے گا، اس میں جہاں آپ نے اسے دوسروں سے صدقہ لینے کی اجازت دی ہے، وہاں اس پر اپنی طرف سے صدقہ ادا کرنا واجب ٹھہرایا ہے، امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، کہ یہ دوسرا مسلک ہی حق اور صحیح ہے، اور نصوص شرعیہ کا یہی تقاضا ہے۔ (نیل الاوطار، طبع مصر ص ۲۵۷ جلد۴)