زکوٰۃ کے احکام و مسائل تفصیلاً کریں ؟
علم الاقصا د یا تمدن یا پولیٹیکل اکانوی کا سب سے مشکل مسئلہ یہ ہے کہ افراد قوم میں بلحاظ فقر و دولت کیوں کر ایک تناسب قائم کیا جائے، حکیم سولون کے عہد سے لے کر آج تک کوئی انسانی دماغ اس عقیدہ کی گرہ کشائی نہیں کر سکا۔ یورپ میں نہلسٹ جن کا مقصد یہ ہے کہ اراضی سکنی و زرعی کی ملکیت و پیداوارکو شخصی قبضہ سے نکال لیاجائے ۔ سوشلسٹ جن کا مقصد یہ ہے کہ اسباب معیشت پر سے شخصی ملکیت کو اٹھا دیا جائے، اور جمہور کی ملک میں کر دیا جائے۔ فرقے اس لیے پیدا ہو گئے کہ اس مسئلہ کا حل کر سکیں۔
املاک پر سے حق ملکیت مالکان کا اٹھا دیا جانا اس قدر عملاً محال ہے۔ کہ دنیا میں کبھی بھی اس کا رواج نہ ہو گا۔ اسی لیے قرآن مجید نے اس بارہ میں پہلے سے فیصلہ کر دیا ہے:
{وَ اللّٰہُ فَضَّلَ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ فِی الرِّزْقِ فَمَا الَّذِیْنَ فُضِّلُوْا بِرَآدِّیْ رِزْقِہِمْ عَلٰی مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُہُمْ فَہُمْ فِیْه سَوَآئٌ} (النحل:۷۱)
رزق میں اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے کو برتری دی ہے، اور جن کو یہ برتری ملی ہے، وہ اپنا حصہ ان لوگوں کو جن کے وہ مالک ہو چکے ہیں، (اس لیے) واپس نہی کریں گے۔ کہ سب آپس میں برابر ہو جائیں۔ اسلام نے جو مسلمانوںکو دنیا کی برترین متمدن قوم بنانا چاہتا ہے، اس مسئلہ پر توجہ کی اور اسے ہمیشہ کے لیے طے کر دیا ، اور اسی کا نام فرضیت زکوٰۃ ہے۔
۲: زکوٰۃ ۲ھ میں مسلمانوں پر فرض ہوئی، نبیﷺ کا نیک اور رحیم دل پہلے ہی سے مساکین اور غرباء کی دست گیری ہر مسلمان کو خصوصیت سے توجہ دلائی جاتی تھی، اور ان کی ہمدردی کو غرباء کا رفیق بنایا جاتا تھا، اور مسلمان اس پاک تعلیم کی بدولت غرباء و مساکین کے لیے بہت کچھ کیا بھی کرتے تھے، تاہم ایسا کوئی قاعدہ مقرر نہ تھا۔ جس پر بطور آئین و ضبط کے عمل کیا جاتا ہو۔ اس لیے دولت مند جو کچھ بھی کرتے تھے، اپنی فیاضی و نیک دلی سے کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کو فرض اور اسلام کا ایک رکن کلمہ شہادت اور نماز کے بعد قرار دیا۔
زکوٰۃ:… درحقیقت اس صفت ہمدردی اور رحم کے استعمال کا نام ہے جو انسان کے دل میں اپنے بنائے جنس کے ساتھ قدرتاً و فطرتاً موجود ہے۔ زکوۃ ادا کرنے سے ادا کرنے والے کو یہ فائدہ بھی ہوتا ہے کہ مال کی محبت اخلاقِ انسانی کو مغلوب نہیں کر سکتی اور بخل امساک کے عیوب سے انسان پاک رہتا ہے اور یہ فائدہ بھی کہ غریب اور مساکین کو وہ اپنی قوم کا جزو سمجھتا رہتا ہے، اور اس لیے بے حد دولت کا جمع ہونا بھی اس میں تکبر اور غرور پیدا نہیں ہونے دیتا۔ اور یہ بھی فائدہ ہے کہ غرباء کے گروہ کثیر کو اس کے ساتھ ایک انس و محبت اور اس کی دولت و ثروت کے ساتھ ہمدردی و خیر خواہی پیدا ہو جاتی ہے، کیوں کہ وہ اس کے مال میں اپنا ایک حصہ موجود و قائم سمجھتے ہیں، گویا دولت مند مسلمان کی ایک ایسی کمپنی کی مثال پیدا کر دیتی ہے جس میں ادنیٰ اور اعلیٰ کے حصے دار شامل ہوتے ہیں۔
قوم کو یہ فائدہ ہے کہ بھیک مانگنے کے رسم قوم سے بالکل مفقود ہو جاتی ہے، اسلام نے مساکین کا حق اُمرا ء کی دولت میں بنام زکوٰۃ اموال نامیہ یعنی ترقی کرنے والے مالوں میں مقرر کیا ہے، جن میں سے ادا کرنا کبھی ناگوار نہیں گزرتا۔ اموال نامبیہ میں تجارت، زراعت اور مويشی و بھیڑ، بکری، اونٹ، گائے، نقدی‘ معاون اور دفائن شمار ہوتے ہیں۔ اب یہ دکھلانا ضروری ہے کہ جو نقد و جنس زکوٰۃ سے حاصل ہو اس کے مستحق کون کون لوگ ہیں، قرآن مجید میں ہے:
{اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآئِ وَ الْمَسٰکِیْنِ وَالْعٰمِلِیْنَ عَلَیْہَا وَ الْمُؤَلَّفَة قُلُوْبُہُمْ وَ فِی الرِّقَابِ وَ الْغٰرِمِیْنَ وَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَابْنِ السَّبِیْل} (التوبه:۶۰)
زکوٰۃ اور صدقات کا مال (نمبر۱) فقیروں (نمبر۲) مسکینوں کے لیے ہے۔ فقیروں اور مسکینوں کا فرق کتب فقہ میں دیکھو۔ (نمبر۳) تحصیلداران زکوٰۃ کے لیے جن کی تنخواہیں ادا ہوں گی (نمبر۴) اور ان لوگوں کے لیے جن کی دل افزائی اسلام میں منظور ہوں، یعنی نومسلم لوگ۔ (نمبر۵) غلاموں کو آزادی دلانے کے لیے (نمبر۶) اور ایسے قرض داروں کا قرضہ چکانے کے لیے جو قرض نہ اتار سکتے ہوں، (نمبر۷) اور اللہ کے رستہ میں یعنی دیگر نیک کاموں کے لیے اس کی تفصیل بھی کتب فقہ میں دیکھئے اور (نمبر۸) اور مسافروں کے لیے ہے، جن آٹھ مدات پر زکوٰۃ تقسیم کی گئی ہے، اس سے ظاہر ہے ، کہ زکوٰۃ کی فرضیت سے ملک اور قوم اور افراد کی نوعی وشخصی ضروریات تو کسی خوبی سے پورا کر دیا گیا ہے۔ (رحمۃ للعالمین: ص ۲۳۰)
شرفیہ:… فہلسٹ کا مقصد یہ ، کہ جملہ املاک امتیازات پر افراد و قوم کے مساوی حق تصرف و مسوی حق ملکیت ہو۔ سوشیالست کا مقصد یہ ہے کہ اسباب معیشت پر سے شخصی ملکیت کو اٹھا دیا جائے اور جمہور کی ملکیت میں کر دیا جائے، نیشلسٹ کا مقصد یہ ہے، کہ اسباب معیشت پر سے شخصی ملکیت کو اٹھا دیا جائے اور جمہور کی ملکیت میں کر دیا جائے، نیشلسٹ کا مقصد یہ ہے کہ اراضی سکنی و زرعی کی ملکیت و پیداوار کو شخصی قبضہ سے نکال لیا جائے، میں کہتا ہوں کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی خالقیت، رزاقیت ، الوہیت، وحدانیت وارسال رسل وغیرہ صفات کے قائل نہیں جو ان کو قرآن مجید یا حدیث نبویہ سے قائل کیا جائے، لہٰذا ان پر برہان عقل پیش کیا جا سکتا ہے، وہ یہ کہ ان سب اقوال کا خلاصہ یہ ہے کہ کسی شخص کا کسی امر ملکیت اراضی و اسباب معیشت وغیرہ کل شے میں شخصی حق تصرف نہیں صرف جمہور یا حکومت کا حق ہے، جس کو جتنا چاہے دے با قی سب پر در تصرف بند ہے، سو یہ قول بالکل خلاف عقل ہے، کہ اولاً : تو یہ مساوات اس امر پر موقوف ہے کہ تمام افراد قوم عقل و ہمت خلق قوت کسب انتظام نفسانی خواہش وغیرہ امور نظام صالح میں یکساں ہو، اور تجربہ شاہد عدل ہے کہ مساوات قطعاً ثابت نہیں۔ ان میں بے حد اختلاف ہے، اگر اختلاف نہ ہو تو پھر حکومت کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ حکومت بے کار ہے اور یہ امر بھی بدنیتی ہے، لہٰذا مساوات ناممکن ہے، دوم: جب مزاجوں میں اختلاف شدید ہے، تو فساد فی الارض لازم ہے، پھر اگر جمہور یا حکومت نے جبراً ان کو دبا کر ان کی خواہشات سے روکا تو ان کا قانون مساوات ٹوٹ گیا کہ جبراً ان کے حق مساوات کو سلب کیا، ثابت ہوا کہ ان کا یہ قانون باطل ہے، اس لیے کہ اگرتمام افراد قوم امور مذکورہ بالا میں یکساں ہوتے تو واقعی ملکیت املاک و حق تصرف تمام اشیاء میں مساوات کے مستحق ہوتے: ((وَاِذْ لَیْسَ فَلَیْسَ)) سوم : اگر تمام افراد قوم کی رضا مندی سے ہر شخص کو صحیح طور رپ جمہور کی انتخاب یعنی ارباب حکومت کا ہو تو واقعی حکومت کا ان پر حکم بجا ہے، مگر جب ثابت ہو چکا کہ سب کے مزاجوں میں امور مذکورہ بالا میں اختلاف شدید ہے تو رضا مندی سے سب کا اتفاق ناممکن ہے، اور جبر سے ان کا قانون مذکورہ ٹوٹ جاتا ہے۔ ؎
بات وہ منہ سے کہی ہے کہ بنائیے نہ بنے
بوجھ وہ سر پہ لیا ہے کہ اٹھائے نہ اٹھے
چہارم: املاک و اسباب معیشت میں ہر شخص کا سامان ضروری لباس مرکب مکان رہائش۔ حتی کہ مل منافعہ بضعہ یعنی تصرف زوجہ پر بھی ایک قسم کی ملکیت ہے، پھر کیا ہر شخص کو افراد قوم سے اختیار ہے کہ جب چاہے اشیاء مذکورہ میں سے جس شخص کا ان پر قبضہ ہے، وہ بھی اس پر قابض ہو اجئے، اور اپنے تصرف میں لائے۔ حتی کہ اس کی زوجہ کو بھی اس لیے کہ ہر شخص کا ہر شے میں حق تصرف مساوی ہے، ترجیح کی کوئی وجہ نہیں۔ پھر اگر حکومت روکے تو ان کے حق تصرف کو سلب کرنا ظلم ہے، اور قانون بھی ٹوٹتا ہے، اور اگر نہ روکے تو فساد فی الارض لازم ہوتا ہے، اسی فساد فی الارض کی اصلاح اور نظام صالح کے لیے اللہ تعالیٰ دنیا میں انبیاء علیہم السلام کو مبعوث کرتا رہتا ہے، اگر انسا نی عقل ہی نظام صالح کے لیے کافی ہوتی تو پھر ارسال انبیاء کی ضرورت نہ ہوتی۔((وَاِذْ لَیْسَ فَلَیْسَ)) پنجم: اگر کوئی شخص اشیائے مذکورہ بالا میں سے جو ارباب حکومت کے تصر میں ہیں، ان کی بلا اجازت ان پر اپنا قبضہ کر لے تو کیا ارباب حکومت اس کو روا رکھیں گے، اور گوارا کریں گے، ہر گز نہیں، تو کیوںاس لیے ہر شخص کا افراد قوم میں سے ہر شئے پر خواہ کسی کی ہو ، ارباب حکومت ہوں، یا کوئی اور یکساں ہر شے میںحق تصرف مسوی ہے، کسی کی تخصیص نہیں، ورنہ توجیح بلامرحج ہے، جو باطل ہے، ششم جب ثابت ہو چکا کہ تمام افراد قوم کے مزاجوںاور خواہشوں میں شدید اختلاف ہے، اور رضا مندی سے قوانین مذکورہ بالا پر صحیح انتخاب ناممکن ہیں تو پھر جمہور کی حکومت ہی خلاف عقل صریح ظلم ہے کہ بلاوجہ سب پر حکومت کریں، جب کہ ان کو کسی پر فوقیت کی کوئی وجہ نہیں تو یہ مساوات نہ ہوئی۔ صریح ظلم اور بے انصافی اور مساوات کا ابطال ہوا۔ ہفتم۔ اگر بالفرض ان قوانین مذکورہ بالا پر عمل کیا جائے، تو پھر ہر شخص کی محرمات ابدیہ کے علاوہ اس کی وجہ پر بھی ہر شخص کا حق تصرف ثابت ہو گا، تو پھر حلال و حرام زادہ میں کیا فرق ہو گا۔ کچھ بھی نہ ہو گا۔ کسی کی نسل صحیح نہ ہو گی۔ حرام زادگی کے علاوہ دیوثی کا بازار بھی گرم ہو گا۔ اخلاق حسنہ کا نام و نشان نہ ہو گا۔ بدمعاشی سے فساد فی الارض کا دور دورہ ہو گا۔ پھر ایسے بدمعاشوں پر قیامت قائم ہو گی۔ جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے، کوئی ان سے پوچھے کہ جب اللہ تعالیٰ کی ہستی اور خالقیت وغیرہ شرائع کے قائل نہیں تو بتائیے آپ ماں، بہن، بیٹی اور بیوی وغیرہ میں کیا فرق ہے کہ بعض سے رفع حاجت یا خواہش نفسانی جائز اور بعض سے ناجائز تو پھر اس پر کون سا برہان عقل ہے، ((بَیْنُوَا اِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَ)) ہشتم: جب یہ لوگ دہریہ ہیں اللہ تعالیٰ کی ربوبیت خالقیت رزاقیت قیامت وغیرہ کے قائل ہی نہیں، تو پھر ان میں خدا ترسی یا رغبت ثواب یا خوف عذاب نہ ہو گا۔ اور خواہشات نفسایہ اور شہوات کا زور ہو گا۔ تو وہ بلا خوف بدمعاشی کریں گے۔ چنانچہ ارباب حکومت ہی سب سے زیادہ حصہ اس میں لیں گیں۔ تو پھر مساوات کہاں رہے گی۔ اور ابھی تجربہ کر کے دیکھ لیجئے۔ جہاں اس کا چرچا ہے وہاں رعایا کو حکومت نے قید کر رکھا ہے، املاک جبراً سلب کر لیے ہیں، ذرا کسی نے انکار کیا مار مار کر بھس بھر دیا۔ سخت سے سخت سزا قیدوغیرہ دی۔ ان کی سری آزادی سلب کر رکھی ہے، جو چاہتے ہیں، کرتے ہیں، اور وہ بے چارے بے بس ہیں۔ نہم: اول تو یہ لوگ حلال و حرام جائز و ناجائز کو جانتے ہی نہیں۔ نہ یہ جانتے ہیں کہ انصاف و عدل کیا ہے، اور بے انصانی و ظلم کیا ہے، اس لیے کہ ان امور کو سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جان سکتا کہ آپس میں ایک دوسرے سے کیا کیا حقوق ہیں، کیا کیا مراتب ہیں، عدل کیا ہے ظلم کیا ہے، عدل اور ظلم کا علم مراتب حقوق پر موقوف ہے، اور یہ اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے، جا خالق الکل ہے، ایسے ہی مساوات کا علم بھی اسی کو ہے، اس لیے کہ یہ حقوق مراتب، اس کے علم پر موقوف ہیں، اور یہ اسی وحدۂ لا شریک لہ کو حاصل ہیں، اسی لیے اس نے انبیاء کو بھیج کر ان پر کتب نازل کر کے سب امور کی تفصیل بتا دی، جو قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ہے بس مساوات عقلی بھی اور شرعی بھی کہ ہر ذی حق کو جس جس کو اللہ تعالیٰ نے جو جو حقوق عطا کیے ہیں وہ ان کو دئیے جائیں، یہ ہے انصاف اور مساوات وہم۔ یہ لوگ جن قوانین پر چلانا چاہتے ہیں کیا یہ تاریخ سے ثابت کر سکتے ہیں، جہاں کہیں بھی شبہ ہو گا وہاں صریح جبر و استبداد و ظلم ثابت ہو گا، اور بس یہ قوانین کیا ہیں، وسواس شیطاطین ہیں، اللہ تعالیٰ نے ہم کو اس کا علاج بتایا ہے۔ پڑھو:۔{رَبِّ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ ھَمَزَاتِ الشَّیَاطِیْنَ وَاَعُوْذُبِکَ رَبِّ اَنْ یَحْضُرُوْنَ} وایضاً،{قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ مَلِکِ النَّاسِ اِِلٰـه النَّاسِ مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ الَّذِیْ یُوَسْوِسُ فِیْ صُدُوْرِ النَّاسِ مِنَ الْجِنَّة وَالنَّاسِ} (ابو سعید شرف الدین دہلوی)
روٹی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے اسلام نے بڑے اہم پروگرام بنائے ہیں، جب سوسائٹی غیر منظم ہو تو خیرات پر زور دیا ہے، اور ساتھ ہی زکوٰۃ کے ذریعے دولت کی بہتر تقسیم کی صورت پید اکی ہے، یہاں تک زور دیا ہے کہ قرب و جواب کے ننگوں اور بھوکوں کو کھانا کپڑا دینے کو اللہ تعالیٰ نے خود اللہ کو کھانا کپڑا دینے کے مترادف قرار دیا ہے، ایک حدیث میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ پوچھے گا، میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا نہیں دیا تھا۔ اس پر لوگ کہیں گے کہ اے اللہ تو تو بھوک سے بے نیاز ہے، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ تو بھوکا ہو۔ اللہ تعالیٰ کہے گا کہ میرے بندے بھوکے تھے، تو گویا میں ہی بھوکا تھا، ان کو تم نے کھانا نہیں دیا گویا مجھے نہیں دیا۔ اسی روٹی کے مسئلے پر زور دینے کے لیے ((اَلْخَلْقُ عَیَالُ اللّٰہِ))’’خلق اللہ کا خاندان ہے۔‘‘کا مسئلہ پیش کیا گیا۔ یہاں ایک اور اصولی بات کی طرف اشارہ ضروری ہے، قرآن کی ایک آیت ہے:
{وَمَا مِنْ دَابَّة فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلٰی اللّٰہِ رِزْقُھَا}
’’زمین پر کوئی ذی حیات چلنے والا ایسا نہیں جس کے رزق کی ذمہ داری اللہ نے لی ہے۔‘‘
اس آیت کا رائج الوقت مطلب تو ظاہراً غلط ہے، کیونکہ ۱۹۴۳ء کے بنگال کے قحط میں ۴۵ لاکھ آدمی بھوک سے مر گئے، ان میں مسلم و مشرک،نیک و بد، عورت اور بچے سب ہی تھے، اور یوں بھی دنیا کے ہر گوشہ میں آج کل کھانا نہ ملنے سے مرا ہی کرتے ہیں، معلوم ہوا کہ جو مطلب آیت کا لیاگیا وہ غلط تھا، اصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پر رزق کی ذمہ داری ضرور ہے، مگر یہ ذمہ داری خلافت الٰہیہ کے ذریعہ پوری ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین پر خلیفۃ اللہ بنایا ہے۔
{اِنّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفِة}
’’ہم نے زمین پر انسان کو اپنا نائب بنایا۔‘‘
پا زمین پر خلاف الٰہیہ قائم کرنی چاہیے، اس خلافت الٰہیہ پر رزق کی ذمہ داری آ جاتی ہے، یاد رہے کہ یہ ذمہ داری انسان پر بحیثیت مجموعی عائد ہوتی ہے، انسان کا فرض ہے کہ وہ قوانین الٰہی کے مطابق اپنا نظام درست کرے، اگر وہ ایسا کرے گا، تو نبی نوح انسان میںجو روٹی کا سوال حل ہو جائے گا، اور ہر انسان کے رزق کی ذمہ داری قانون الٰہی کے مطابق پوری ہوتی ہرے گی، لیکن اگر انسان نے بغاوت کی، اور اللہ کے خلاف نظام طاغوتی بنانا شروع کر دیا تو یہ ذمہ داری پوری کرنے والوں کی مشنری ٹوٹ جاتی ہے، اور بھوک کی مصیبت عذاب بن کر نازل ہونے لگتی ہے، سوسائٹی کو سزا ملتی ہے، جن قوانین الٰہیہ پر چلنا رزق کے عام حصول کے لیے خلافت الٰہیہ کے اصول پر ضروری تھا کہ ان کے توڑنے سے قحط واقع ہو جاتا ہے، اور لوگ مرتے ہیں، قحط عموماً بلکہ ہمیشہ انسانوں کا بنایا ہوا ہوتا ہے، جو قحط برسات کی کمی کے باعث پڑتا ہے، اس کی ذمہ داری بھی حضرت انسان پر آتی ہے، کیوں کہ ہو آبپاشی کے دوسرے ذرائع نقل و حمل کے وسائل نہیں استعمال کرتا۔ تصور یہ ہے کہ انسان اپنی قسمت کا خود مالک ہے، اللہ تعالیٰ نے خلافت الٰہیہ کے قوانین بنا دئیے ہیں، ان پر عمل کرنے کے بعد دنیا میں کوئی بھوکا نہیں رہ سکتا، جب سوسائٹی غیر منظم ہو یعنی روتی کا مسئلہ الجھا ہوا ہو تو ضروری امداد (ریلیف) کے لیے قرآن نے بھی اور حدیث میں بھی بھوکوں کو کھانا کھلانے کی اہمیت نماز سے زیادہ رکھی ہے، قرآن کی مشہور آیت ہے:
{لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْہَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَ لٰکِنَّ الْبِرَّمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰٓئِکَة وَ الْکِتٰبِ وَالنَّبِیّٖ وَ اٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّه ذَوِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ وَ السَّآئِلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِ وَ اَقَامَ الصَّلٰوة وَ اٰتَی الزَّکٰوة}
’’ایمان یہ نہیں ہے کہ تم اپنا منہ مشرق یا مغرب کی طرف کر لو، بلکہ ایمان تو یہ ہے کہ آدمی اللہ پر ایمان لائے، اور یوم آخر ملائکہ اور کتاب اور نبیین اور اپنا مال اللہ کی محبت میں ذوی القربیٰ والیتیمی والمساکین مسافروں، اور سائلوں اور غلاموں کو آزاد کرانے کے لیے دے،ا ور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے۔‘‘
اس آیت میں نماز سے بھی پہلے عزیز و اقارب اور مساکین وغیرہ کو دینے کا حکم دیا گیا ہے، اور نماز و زکوٰۃ سے بھی پہلے ان چیزوں کو ایمان بتایا گیا ہے، حدیث میں لفظ ’’بر‘‘ کی تشریح ایمان ہی سے کی گئی ہے، اس آیت میں ایمان کی تشریح میں نماز کو غرباء اور مساکین کی امداد کے بعد کا درجہ دیا گیا ہے، اس آیت کی بنیاد پر ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بہت ہنگامہ برپا کیا تھا۔ بعض صحابہ نے رائے دی تھی ، کہ جس شخص نے زکوٰۃ اپنے مال کی دے دی، اور کچھ دے یا نہ دے، اس پر کوئی گناہ نہیں ہو گا۔ لیکن ابو ذر اسی آیت کا حوالہ دے کر کہتے تھے کہ نہیں زکوٰۃ سے پہلے اسے ذوی القربیٰ مساکین وغیرہ کے مرحلوں سے گزرنا ہو گا، اگر اس نے اس دینے میں کمی کی تو اس کا ایمان مکمل نہیں ہوتا۔ حضرت ابو ذر کا استدلال صحیح تھا یہ کھلی حقیقت ہے، دوسرے صحابہ کا استدلال ان احادیث پر مبنی تھا، جن میں یہ بتایا گیا ہے کہ زکوٰۃ دینے کے بعد سارا مال پاک ہو جاتا ہے، اور اسے جمع کیا جائے تو وہ کنز نہیں کہلائے گا، اور اس کے لیے کوئی گناہ نہیں ہو گا۔ یہ استدلال صرف اسی حالت میں صحیح ہو سکتا ہے، جب کہ ذوی القربیٰ مساکین اور دوسرے گروہ احتیاج کی مصیبت میں مبتلا نہ ہوں، اگر یہ لوگ محتاج ہیں تو صرف زکوٰۃ کافی نہیں بلکہ انسان کو اس سے زیادہ بھی دینا پڑے گا ۔اور ایسا بھی ایک وقت آ سکتا ہے، کہ اسٹیٹ یا جماعت انسان کا سب کچھ چھین لے۔ اور صرف فوری خرچ کے لیے چھوڑ دے، قرآن مجید کی آیت بالکل واضح ہے: {یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ قُلِ الْعَفْوَ} ’’اے رسول وہ تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا دے دیں، ان سے کہہ دو کہ جتنا فوری ذاتی ضروریات سے زیادہ ہو وہ سب دے ڈالو۔‘‘اس آیت میں روٹی کا مسئلہ حل کرنے کے لیے اور اس اصول کو قائم کرنے کے لیے کہ تمام ملکیت کی مالک دراصل قوم ہے، ایک انتہائی علاج تجویز کیا ہے، صحابہ نے رسول اللہؐ سے یکے بعد دیگرے سوالات کیے تھے۔ کہ یا رسول اللہ جس کے پاس فلاں فلاں چیز ہو وہ بھی دے دے۔ آخر صحابہ نے کہا اے اللہ کے رسول! ہم سمجھ گئے کہ ہمارا مالکانہ حق صرف ہماری فوری ضروریات پوری کرنے والی چیزوں پر ہے، باقی سب اللہ کے لیے ہے۔
اسلام روٹی کے مسئلہ کو حل کرنے پر انتہائی اقدام کا حکم دیتا ہے، اگر کوئی اسٹیٹ روٹی کے مسئلہ کو حل نہیں کر سکتی وہ اسلامی سٹیٹ کہلانے کی مستحق نہیں ہے کیونکہ خلافت الٰہیہ کا پہلا فرض دنیا میں رزق کی ذمہ داری پوری کرنا ہے، رسول اللہؐ کے زمانے میں اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے صرف اصول طے پائے تھے، اتنا موقعہ نہ ملا کہ تفصیلات طے پا جائیں۔ لیکن حضرت عمر کے دور میں بعض تفصیلات کی تعیین ہوئی۔ لیکن تفصیلات ہر دور میں اصول کے تحت بدلا کرتی ہیں۔ آج کے حلات میں یہ تفصیلات اور ہوں گی۔ یہ کام ارباب حل وعقد کا ہے کہ خلاف الٰہیہ کے مقصد کی تکمیل کا مسئلہ اسلامی زندگی میں بنیادی مسئلہ ہے، اور جو لوگ اسے اللہ پر چھوڑ کر پہلو تہی کرنا چاہتے ہیں، وہ خلافت الٰہیہ کی مشینری کا کوئی تصور نہیں رکھتے۔ (از قلم مولوی حافظ علی بہادر صاحب بمبئی (پیام اسلام) (فتاویٰ ثنائیہ جلد اول : ص ۴۳۹)
بِسْمِ اللّٰہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ط
از مولینٰا حافظ محمد اسحاق شیخ الحدیث مدرسہ غزنویہ شیش محل روڈ لاہور
زکوٰۃ اسلام کی ایک عبادت اور اس کے ارکان خمسہ سے تیسرا اہم رکن ہے، جس کی فرضیت کتاب و سنت اور اجماع امت سے ثابت ہے، اس کا منکر کافر ہے، اسے انکار زکوٰۃ سے فورا ً توبہ کرنی چاہیے ورنہ قتل کا مستوجب ہے۔ ((یُسْتَتَابُ ثَلَاثًا فَاِنْ تَابَ وَاِنْ لَّاقُتِلَ)) (مغنی لابن قدامہ)
کتاب وسنت میں زکوٰۃ کی فرضیت پر دلالت کرنے والی اس قدر آیات اور احادیث وارد ہوئی ہیں، کہ ان سب کے بیان کرنے کے لیے ایک مستقل کتاب کی ضرورت ہے، ان میں سے چند درج ذیل ہیں۔
{وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوة وَ اٰتُوا الزَّکٰوة وَ ارْکَعُوْا مَعَ الرّٰکِعِیْن}َ (البقرہ:۴۳)
’’نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو، اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔‘‘(جماعت کے ساتھ مل کرنماز پڑھو)
۲: کفار کے متعلق فرمایا:
{فَاِنْ تَابُوْا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوة وَ اٰتَوُا الزَّکٰوة فَخَلُّوْا سَبِیْلَہُم} (توبة: ۵)
’’اگر یہ کفر سے توبہ کریں نماز کے پابند ہو جائیں،اور زکوٰۃ دیں، تو ان کا راستہ چھوڑ دو۔‘‘
یعنی اب وہ تمہارے ہم مذہب اور مسلمان ہیں، ان کے قتل سے ہاتھ روک لو، جیسا کہ آگے چل کر فرمایا:
{فَاِنْ تَابُوْا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوة وَاٰتَوُا الزَّکٰوة فَاِخْوَانُکُمْ فِی الدِّیْن} (التوبة:۱۱)
’’اگر یہ لوگ کفر چھوڑ دیں، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں، تو پھر یہ دین میں تمہارے بھائی ہیں۔‘‘ (ان کا حکم وہی ہے جو تمہارا ہے۔)
۳: خدا خوف لوگوں کے اوصاف بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{الَّذِیْنَ یَؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوة وَ مِمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنْفِقُوْنَ} (البقرۃ:۳)
’’اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے وہ لوگ ہیں جو دیکھے بغیر اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں ، اور ہمارے دیے ہوئے مال سے خرچ کرتے ہیں۔‘‘
(۱) ((عنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلّٰی اللّٰہُ عَلَیْه وَسَلَّمَ بُنِیَ الْاِسْلَامِ عَلٰی خَمْسٍ شَہَادَة اَنْ لَّا اِلٰه اِلَّا اللّٰہَ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَاِقَامِ الصَّلوة اَاِیْتَائِ الزَّکوٰة وَالْحَجِّ وَصَومِ رَمَضَانَ)) (بخاری شریف)
’’عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ، آنحضرتﷺ نے فرمایا: اسلام کی بنا پانچ ستونوں پر ہے (۱) اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے بغیر کوئی لائق عبادت نہیں، اور محمدﷺ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں، (۲) نماز قائم کرنا، (۳) زکوٰۃ دینا، (۴) حج کرنا، (۵) رمضان شریف کے روزے رکھنا۔‘‘
(۲) حضرت عبدا للہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، جب آنحضرتﷺ نے معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف بھیجا، تو فرمایا تم ایک ایسی قوم کی طرف جا رہے ہو، جو اہل کتاب ہے، پہلے انہیں اللہ تعالیٰ کی الوہیت اور میری رسالت قبول کرنے کی دعوت دینا، اگر مان لیں تو انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں، اگر یہ بھی تسلیم کر لیں، تو انہیں اطلاع دینا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے مال پر زکوٰہ فرض کی ہے، جو ان کے مالداروں سے لے کر غرباء و مساکین میں تقسیم کر دی جائے گی، اگر وہ اس پر آمادہ ہو جائیں تو ان کے بہترین مال لینے سے پرہیز کرنا، اور مظلوم کی بدعا سے بچنا، کیونکہ اس کے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی قبولیت میں کوئی پردہ نہیں۔ (متفق علیہ)
(۳) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، کہ ایک اعرابی آنحضرتﷺ کی خدمت میں آیا، اور کہنے لگا، یا حضرت! مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے کہ اس کے کرنے سے میں جنت میں داخل ہو جائوں، آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو، اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ بناؤ، فرض نماز قائم کرو، فرض زکوٰۃ دو، اور رمضان شریف کے روزے رکھو، یہ سن کر اعرابی بولا، جس خدا کے ہاتھ میں میری جان ہے، اس کی قسم! میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کروں گا، جب وہ پیٹھ پھیر کر جانے لگا، تو آنحضرتﷺ نے فرمایا: جسے جنتی آدمی دیکھا پسند ہو، وہ اسے دیکھ لے۔ (بخاری شریف)
(۴) جب آنحضرتﷺ کے انتقال کے بعد زکوٰۃ دینے سے انکار کرنے پر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے بعض عرب قبائل کے خلاف اعلان جنگ کا فیصلہ کیا، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مزاحمت کی، اور کہا آپ ان سے کیسے جنگ کر سکتے ہیں، جب کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے، کہ مجھے لوگوں سے اس وقت تک جنگ کرنے کا حکم دیا گیا ہے، جب تک کہ وہ لا الہ الا اللہ کہہ کر اسلام میں داخل نہیں ہو جاتے جس نے یہ کلمہ کہہ لیا، اس نے بجز اسلام کے حقوق کے اپنا خون اور مال محفوظ کر لیا، اور اس کا حساب اللہ تعالیٰ کے سپرد ہو گیا، اس پر حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بخدا، جو لوگ نماز اور زکوٰۃ میں فرق کریں گے ان سے لڑوں گا، زکوٰۃ مال کا حق ہے، جو کبھی چھوڑا نہیں جا سکتا، بخدا! اگر وہ مجھے ایک رسی دینے سے انکار کریں گے، جو آنحضرتﷺ کے زمانہ میں ادا کیا کرتے تھے، تو میں اس کے روکنے پر بھی ان سے لڑوں گا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا خدا کی قسم! یہ سن کر میں مطمئن ہو گیا، اور مجھے یقین آ گیا، کہ یہی بات حق ہے، اور اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا سینہ کھول دیا ہے۔ (بخاری شریف)
لغت میں زکوٰۃ کا لفظ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے، بڑھنا، اور پاک و صاف ہونا، سال گزرنے کے بعد جو حصہ بطور وجوب اور فرض ادا کیا اجتا ہے، ان ہی دو معنوں کے پیش نظر اسے زکوٰۃ کہا جاتا ہے، کیونکہ اس سے دینے والے کی نیکیاں بڑھتی ہیں، اور اس کے مال میں برکت ہوتی ہے، نیز ہو خود گناہ و رزیلہ بخل سے اور اس کا مال غرباء و مساکین کا حق نکل جانے کی بنا پر خبث و حرام سے پاک و صاف ہو جاتا ہے، چنانہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{خُذْ مِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَة تُطَہِّرُہُمْ وَ تُزَکِّیْہِمْ بِہَا} (التوبۃ:۱۰۳)
’’اے نبی! زکوٰۃ لے کر ان کے جان و مال کا تزکیہ کرو، اور ان کو پاک وصاف بنا دو۔‘‘
آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے:
((اِنَّ اللّٰہِ لَنْ یَفْرِضِ الزَّکٰوة اِلَّا لِیُطَیِّبَ مَا بَقِیَ مِنْ اَمْوَالَکُمْ))
’’اللہ تعالیٰ نے تمہارے باقی ماندہ مال کو پاک و صاف کرنے کے لیے تم پر زکوٰۃ فرض کی ہے۔‘‘
اور ایک حدیث میں آیا ہے:
((عَنْ عَائِشَة رضی اللّٰہ عنه قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْه وَسَلَّمَ یَقُوْلُ مَا خَالَطَتِ الزَّکٰوة مَالًا قَطُّ اِلَّا اَھْلَکَتْہُ۔ رَوَاہُ الشَّافِعِیُّ فِیْ تَارِیْحِه وَقَلَ یَکُوْنُ قَدْ وَجَبَ عَلَیْکَ صَدَقَة فَلَا تُخْرِجُہَا فَیُھْلِکُ الْحَرَامُ الْحَلَالَ)) (مشکوٰۃ)
’’زکوٰۃ کسی مال میں بھی مخلوط نہیں ہوتی، مگر اسے ہلاک کر ڈالتی ہے، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا مطلب یہ بتایا ہے کہ وجاب ہو جانے کے بعد جس مال سے تم زکوٰۃ نہیں نکالتے، اس میں حرام کی آمیزش ہو جاتی ہے، جو کسی وقت بھی حلال مال کو لے ڈوبے گی۔‘‘
اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پاک کے کلام سے معلوم ہوا کہ وجوب کے بعد زکوٰۃ نہ دینے سے مال ناپاک ہو جاتا ہے اور حرام سے مخلوط مال کا نتیجہ زود یا بدری ہلاکت ہے، اور زکوٰۃ دینے سے نہ صرف مال پاک و صاف ہو جاتا ہے، بلکہ معنوی طور پر اس میں اللہ تعالیٰ کی طر ف سے برکت کا نزول شروع ہو جاتا ہے۔
جو شخص خدا اور رسولﷺ کے حکم کے مطابق اپنے مال سے غرباء و مساکین کا حق نکال دیتا ہے، عام اس سے کہ وہ حق فرض زکوٰۃ کی شکل میں ہو، یا نفلی صدقہ و خیرات کی صورت میں اس کے مال میں برکت اور ترقی ہوتی ہے، صبح و شام ملائکہ اس کے مال میں زیادتی کے لیے دعا کرتے رہتے ہیں، جو کبھی رائیگاں نہیں جاتی، اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اس ترقی کا وعدہ فرمایا ہے، اور آنحضرتﷺ نے بھی متعدد احادیث میں اس کو دہرایا ہے، قرآن حکیم میں ہے:
(۱) {یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبٰو وَیُرْبِی الصَّدَقَاتِ} (بقرۃ)
’’اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے اور صڈقات و خیرات کو بڑھاتا ہے۔‘‘
(۲) سورت روم میں اس کی مزید وضاحت یوں فرمائی ہے:
{وَ مَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًالِّیَرْبُوَاْ فِیْٓ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا یَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰہِ وَمَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ زَکٰوة تُرِیْدُوْنَ وَجْه اللّٰہِ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُضْعِفُوْنَ} (روم:۳۹)
’’اور لوگوں کے مال میں زیادتی کرنے کے لیے جو سود تم دیتے ہو، اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس سے زیادتی نہیں ہوتی، ہاں اللہ تعالیٰ کی رضا مندی حاصل کرنے کے لیے تم جو زکوٰۃ دیتے ہو، تو ایسے لوگ کئی گنا مال اور کئی گنا اجر و ثواب کے مستحق ہیں۔‘‘
(۳) {مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّة اَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنْبُلَة مِّائَة حَبَّة وَ اللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآئُ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ} (البقرۃ:۲۶۱)
’’جو لوگ اپنے مال اللہ تعالیٰ کی را ہ میں خرچ کرتے ہیں، ان کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک دانہ بویا جائے، جس سے سات بالیں نکلیں اور ہر بال میں سو دانے ہوں،(ایک دانہ سے سات سو دانے پیدا ہوئے اور اللہ تعالیٰ جس کے مال کو چاہتا ہے، اس سے بھی کئی گناہ زیادہ کر دیتا ہے، اور اللہ تعالیٰ وسعت اور علم والا ہے۔‘‘
حدیث پاک میں آیا ہے:
(۱) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے، کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا: ایک دفعہ ایک آدمی بیابان جنگل سے گزر رہا تھا، اس نے بادل سے آواز سنی: فلاں شخص کے باغ کو پانی دو، ادھر دیکھتا ہے کہ بادل ایک طرف ہٹ گیا، اور کھلے میدان میں برسنے لگا، وہ وہاں پہنچا تو دیکھا کہ اس میدان کی تمام چھوٹی موٹی ندی نالوں کا پانی جمع ہو کر ایک بڑے نالے میں بہنے لگا ہے، وہ بھی اس پانی کے پیچھے ہو لیا، آگے چل کر ایک باغ آیا، اس نے دیکھا کہ باغ کا مالک اپنے کھیتوں کو پانی دے رہا ہے، ایک کھیت بھر جاتا ہے، تو پانی دوسرے کھیت کی طرف کر دیتا ہے، مسافر نے اس سے پوچھا، بھائی باغ والے تمہارا نام کیا ہے؟ اس نے وہی نام بتایا جو مسافر نے بادل سے سنا تھا ، پھر باغ والا بولا، اللہ کے بندے، آپ نے میرا نام کیوں پوچھا ہے، مسافر نے کہا، جس بادل کا یہ پانی آرہا ہے، اس سے میں نے سنا، کہ کوئی تمہارا نام لے کر کہہ رہا ہے: ’’فلاں آدمی کے باغ کو پانی دو۔‘‘ اب بتائیے، آپ اس میں کیا عمل کرتے ہیں، کہ اس کو پانی دینے کے لیے بادلوں کو حکم مل رہا ہے، باغ کے مالک نے کہا، جب آپ نے پوچھ ہی لیا ہے، تو سنئیے! میں اس کی پیداوار کو تین برابر حصوں میں تقسیم کرتا ہوں، ایک حصہ سائلین، مسافروں اور مسکینوں میں خرچ کرتا ہوں، ایک حصہ سے اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پالتا ہوں، تیسرا حصہ اس باغ کی اصلاح اور دیکھ بھال میں لگا دیتا ہوں۔ (مشکوٰۃ از صحیح مسلم)
(۲) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بنو تمیم کے ایک آدمی نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا: یا رسول اللہ میں مالدار ہوں، اہل و عیال بھی رکھتا ہوں، اور میرے گھر میں مہمانوں کی آمدورفت بھی اکثر رہتی ہے، فرمائیے میں اپنا مال کس طرح خرچ کروں، اور اس میں کیا طریقہ اختیار کروں آپ نے فرمایا: اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کرو، یہ تمہارے مال کو خبث و ناپاکی سے اور تمہیں بخل اور گناہوں سے پاک کر دے گی، اس کے علاوہ اپنے رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرو، سائلین، ہمسایوں اور مسکینوں کے حقوق کی نگاہ داشت رکھو، وہ بولا یا رسول اللہ! ذرا مختصر بیان فرمائیے، آپ نے فرمایا:
{فَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰی حَقَّه وَالْمِسْکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا} (الاسرائیل)
(۳) حضرت ابو کبشہ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا : میں تین چیزوںپر قسم کھاتا ہوں انہیں یاد رکھو ، ایک یہ کہ صدقہ کرنے سے کبھی مال میں کمی نہیں آتی، تیسرے یہ کہ جو شخص اپنے اوپر سوال کا دروازہ کھولتا ہے، اللہ تعالیٰ اس پر تنگ دستی اور محتاجی کا دروازہ کھول دیتا ہے۔ (ترمذی)
(۴) حضرت ابو درداء سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا: جب سورج طلوع ہوتا ہے تو اس کے دائیں بائیں دو فرشتے ہوتے ہیں، وہ منادی کرتے ہیں، جسے جنوں اور انسانوں کے بغیر تمام اہل زمین سنتے ہیں، اے لوگو! اپنے رب کی طرف آئو (اپنے فالتو مال اس کی راہ میں خرچ کرو، زکوٰۃ و خیرات کے بعد) جو تھوڑا بہت بچ جائے، اور صاحب مال کی ضرورت پورا کرنے کے لیے کافی ہو، وہ اس کثیر سرمائے سے بہتر ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہونے اور نیکیوں میں صرف کرنے سے غافل کر دے، اسی طرح جب سورج غروب ہوتا ہے، تو اس کے ساتھ دائیں بائیں دو فرشتے منادی کرتے ہیں، جسے جنوں اور انسانوں کے بغیر تمام اہل زمین سنتے ہیں۔
((اَللّٰھُمَّ اعْطِ مُنْفِقًا خَلَفًا وَاعظِ مُمْسِکًا مَالًا تَلَفًا)) (مسند احمد و ابن حبان و ھاکم، بحوالہ تہویب المسند: ص۸/۱۸۵)
’’یعنی اے اللہ! اپنی راہ میں خرچ کرنے والے کو خلیفہ (ثواب اور مال دے) اور بخل کی بنا پر مال بند رکھنے والے کو ضائع کر۔‘‘
(۵) حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں ، آنحضرتﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ صدقات قبول فرماتا ہے، اور ان کو دائیں ہاتھ میں لے کر اس طرح بڑھاتا ہے، جس طرح تم اپنے بچھرے یا اونٹ کے بچے کو پالتے ہو (جو تھوڑے عرصہ کے بعد ایک تنومند اور قوی ہیکل گھوڑا یا اونٹ بنا جاتا ہے، اسی طرح ایک حقیر لقمہ احد پہاڑ جتنا بڑا ہو جاتا ہے، امام وکیع کہتے ہیں، اس کی تصدیق قرآن کیرم میں موجود ہے، جو یہ ہے:
((وَھُوَ الَّذِیْ یَقْبَلُ التَّوْبَة عَنْ عِبَادِہٖ وَیَأخُذُ الصَّدَقَاتِ وَیَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبٰوا وَیُرْبِی الصَّدَقَاتِ)) (تبویب المسند بحوالہ مسند احمد و ترمذی)
’’اللہ تعالیٰ ہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے، اور ان کے صدقات کو پکڑتا ہے، اور اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے، اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔‘‘
(۶) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا: جب کوئی مومن حلال مال سے صدقہ کرتا ہے، اور اللہ تعالیٰ حلال مال ہی کو قبول فرماتا ہے، اور حلال مال ہی آسمان پر پہنچ کر شرف پذیرائی حاصل کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کو اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے، اور اس کو اس طرح بڑھاتا ہے، جس طرح تم اپنے بچھپرے اونٹ کے بچے کو پالتے ہو، حتی کہ ایک کھجور ایک پہاڑ جنتی بڑی ہو جاتی ہے۔ (صحیحین)
زکوٰۃ حقیقۃً اللہ تعالیٰ کی مالی عبادت ہے، اور اسلام کا ایک اہم رکن لیکن واقعاتی اعتبار سے دیکھا جائے، تو اس کو اجتماعی زندگی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے، اور ظاہر ہے کہ کوئی قوم مالی استحکام کے بغیر متمدن اور ترقی یافتہ کہلانے کی مستحق نہیں ہے، لہٰذا تفصیلات اور احکام بیان کرنے سے پہلے چند مبادی کا ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے، جن کے ذہن نشین کرنے سے بصیرت پیدا ہو گی، اور آیندہ بیان ہونے والے مسائل کے سمجھنے میں مدد ملے گی۔
اولاً:… شریعت اسلامیہ نے مندرجہ ذیل چار قسم کے مال میں زکوٰۃ فرض کی ہے، جن کے ساتھ انسانی ضروریات وابستہ ہیں، اور زندگی میں ہر آدمی ان کا محتاج ہے۔
۱۔ بہائم، چوپائے، جانور، اونٹ، گائے، بکری وغیرہ۔
۲۔ سونا، چاندی، نقود و زیورات وغیرہ
۳۔ ہر قسم کا تجارتی مال، جس میں تجارت کی شرعاً اجازت ہے۔
۴۔ زمین سے پیدا ہونے والی چیزیں، اجناس خوردنی پھل اور تیل نکالنے کے بیچ۔
ثانیاً:… چونکہ شریعت نے زکوٰۃ مالداروں پر فرض کی ہے، تاکہ ان کے مال کا کچھ حصہ ہر سال غرباء و مساکین کی ضروریات پر صرف کیا جا سکے، لہٰذا ہر قسم کے مال زکوٰۃ کا نصاب مقرر کر دیا گیا ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ جو شخص کسی قسم کے نصاب کا مالک ہے، وہ غنی ہے، اور اس پر اپنے مال کی زکوٰۃ دینا فرض ہے، اور جس کے پاس کوئی بھی نصاب نہیں، وہ فقیر ہے، اور مصرف زکوٰۃ ہے۔
مذکورہ بالا چار قسم کے مال کے نصاب کی تفصیل یہ ہے۔
۱۔ اونٹ کے لیے پانچ اونٹ، گائے کے لیے تیس گائے، بھیڑ، بکری اور دنبہ کے لیے چالیس بکریاں جسامت اور حجم کے اختلاف کی بنا پر ان جانوروں کے نصاب میں بھی اختلاف ہے۔
۲۔ چاندی کے لیے ۲۰۰ درہم (تقریباً ۲/۱.۵۲ تولہ)
۳۔ مال تجارت کی قیمت جس نقدی سے لگائی جائے، اس کا نصاب اسی نقدی کا نصاب ہے، اگر اس کی قیمت دراہم سے لگائی جائے، تو نصاب ۲۰۰ درہم ہے، اور اگر دینار سے نکالی جائے تو نصاب ۲۰ دینار ہے۔
۴۔ زمین سے پیدا ہونے والے غلہ کا نصاب ۵ دستی ہے جس کا وزن تقریباً ۲۰ من ہے۔
ثالثاً:… شریعت مطہرہ نے زکوٰۃ ادا کرنے کے لیے ایک سال کی مدت مقرر کی ہے، اور اس میں اغنیاء اور غرباء و مساکین دونوں کی مصلحتوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے اگر یہ مدت مثلاً ایک ہفتہ یا ایک مہینہ مقرر کی جاتی، تو اس صورت میں مالداروں پر ناقابل برداشت بوجھ پڑتا، اور اگر حج کی طرح زکوٰۃ عمر میں صرف ایک دفعہ فرض کی جاتی، تو غرباء و مساکین کے لیے جسم و جان کا رشتہ قائم رکھنا مشکل ہو جاتا۔
یاد رہے، سال کی مدت کا اطلاق زمین سے نکلنے والی اشیاء کے علاوہ باقی تین قسم کے اموال پر ہوتا ہے، زمین سے پیدا ہونے والے غلہ یا زمین سے نکلنے ولای معدنیات (سونا، چاندی، لوہا، تانبہ، قلعی، کوئلہ اور نمک وغیرہ) یا دفینہ کی زکوٰۃ اسی وقت دینی پڑتی ہے، جب یہ چیزیں حاصل ہوں، ان میں سال کی شرط نہیں۔
رابعاً:… زکوٰۃ شرعی کی مقدار میں کمی بیشی، مال کی تحصیل میں سہولت اور مشقت پر مبنی ہے، جس مال کے حصول میں بآسانی اور سہولت پائی جاتی ہے، اس میں مقدار زکوٰۃ زیادہ ہے اور جس کے حصول میں مشقت اور تکلیف اٹھانا پڑتی ہے، اس میں زکوٰۃ کی مقدار کم ہے، جیسے کسی کو کنواں یا گڑھا کھودتے وقت دفینہ مل جائے، تو اسے یہ مال مفت میں مل گیا ہے، کوئی تکلیف نہیں اٹھانا پڑی، اس لیے دفینہ پانے والے کو کل مال کا پانچواں حصہ (۲۰%) دینا پڑتا ہے، کھیتی باڑی میں چونکہ مشقت زیادہ کرنی پڑتی ہے، لہٰذا اس کی پیدوار میں مقدار زکوٰۃ پانچویں حصہ سے کم کر کے دسواں حصہ (۱۰%) مقرر کر دی گئی ہے، بشرطیکہ کھیتی بارش یا چشمہ کے پانی سے تیار ہوئی ہو، اور اگر کھیتی تیار کرنے کے لیے ٹیوب ویل یا رہٹ وغیرہ مصنوعی آلات کے ذریعہ آبپاشی کی گئی ہے، تو مقدار زکوٰۃ دسویں حصہ سے بھی کم ہو کر بیسواں حصہ (۵%) رہ جاتی ہے۔
مال تجارت کے حصول میں ان تمام مذکورہ صورتوں میں زیادہ مشقت اٹھانا پڑتی ہے، مال خریدنے یا بیچنے کے لیے مختلف شہروں اور ملکوں کا سفر کرنا پڑتا ہے، جس سے دین کا چین اور رات کی نیند حرام ہو جاتی ہے، خسارے، سرقہ اور ڈاکے وغیرہ کا خطرہ اس کے علاوہ ہے، نیز تاجر کی یہ دوڑ دھوپ مسلسل او رمتواتر جاری رہتی ہے، اسے آرام کا وقفہ کم ہی ملتا ہے، لہٰذا ان تمام آلام و مصٓئب کے پیش نظر تاجر کے مال میں زکوٰۃ بیسویں حصہ سے گھٹا کر چالیسواں حصہ (۲/۱.۲%) حصہ فرض کی گئی ہے۔
ان مبادی کے ذہن نشین کر لینے کے بعد اب مذکورہ بالا چار قسم کے اموال کی زکوٰۃ سے متعلق مختصر تفصیلی احکام ترتیب وار ملاحظہ فرمائیے۔
آنحضرتﷺ نے حاجت مندوں کی ضرورتوں کو رفع کرنے، اور اسلام کا معاشی نظام مضبوط بنانے کے لیے جہاں سونے چاندی کے مالکوں، زراعت پیشہ لوگوں اور تجارتی کاروبار کرنے والوں کے مال میں زکوٰۃ فرض کی ہے، وہاں مویشیوں کے ریوڑ پالنے والوں کو بھی فراموش نہیں کیا، ان کے مال میں بھی زکوٰۃ فرض کی ہے، کیونکہ یہ ریوڑ ان لوگوں کی خوشحالی اور دولت مندی کا بہت بڑا ذریعہ ہیں، یہ لوگ دودھ، گھی، اون، چمڑے اور فالتوں جانور بیچ کر ہر سال لاکھوں روپے کماتے ہیں، اور بڑی فارغ البالی کی زندگی بسر کرتے ہیں، لہٰذا دوسرے لوگوں کی طرح یہ بھی زکوٰۃ سے کسی صورت مستثنیٰ نہیں ہو سکتے۔
ہر قسم کے مویشیوں میں زکوٰۃ فرض ہونے کی دو شرطیں ہیں، یہ دونوں پائی جائیں، تو زکوٰۃ فرض ہو گی، ورنہ نہیں، پہلی شرط یہ ہے، کہ نصاب کو پہنچنے کے بعد ان پر ایک سا گزر جائے، دوسری یہ کہ ان کی زندگی اور بقا کا انحصار سارا سال یا سال کا بیشتر حصہ وادیوں، جنگلوں اور پہاڑوں میں خود رو گھاس چرنے پر ہو، اگر کچھ دن یا نصف سال سے کم عرصہ کے لیے گھر پر چارہ ڈالا جائے، تو زکوٰۃ کی فرضیت میں کوئی فرق نہیں آئے گا، ہاں اگر سال بھر یا سال کا بیشتر حصہ گھر پر چارہ ڈالا جائے، یا مالک نے ان (بیلوں یا اونٹوں کی صورت میں) زرعی کاروبار یا بوجھ برداری کے لیے رکھا ہوا ہے، تو ان میں زکوٰۃ فرض نہیں ہو گی۔
بعض ائمہ پورا سال جنگل میں چرنے کی شرط لگاتے ہیں، ان کے نزدیک اگر چند دن بھی اگر پر چارہ ڈالا گیا، تو زکوٰۃ فرض نہیں ہو گی، مگر یہ مسلک صحیح نہیں اس سے زکوٰۃ سے گریز کرنے والے بڑی آسانی کے ساتھ خیلہ سازی کریں گے، اور اپنے جانوروں کو چند دن گھر میں چارہ ڈال کر زکوٰۃ کے بارے سبکدوش ہو جائیں گے۔
دوسرے اموال کی طرح آنحضرتﷺ نے مویشیوں میں بھی زکوٰۃ فرض کی ہے، اور اس پر تمام امت کا اجماع ہے، ان سے زکوٰۃ نہ دینے والے کے حق میں حدیث پاک میں سخت وعید آئی ہے۔ مشکوٰۃ شریف میں ہے:
((عَنْ اَبِیْ ذِرٍّ عَنِ النَّبِیُّ ﷺ قَلَ مَا مِنْ رَّجُلٍ یَّکُوْنُ لَه اِبِلٌ اَوْ بَقَرٌ اَوْ غَنَمٌ لَا یُؤَدِّیْ حَقْہَا اِلَّا اُتِیَ بِھَا یَوْمَ الْقِیَامَة اَعْظَمَ مَا یَکُوْنُ وَاَسْمَنَه تَطأُہٗ بِاَخْفَافِھَا وَتَنْطَھُه بِقُرُوْنِھَا کُلَّھَا جَازَتُ اُخْرٰھَا رُدَّتْ عَلَیْه اُوْلٰھَا حَتّی یُقْضٰی بَیْنَ النَّاسِ)) (صحیحین)
’’حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا: اونٹ، گائے یا بکریوں کا مالک اگر ان کی زکوٰۃ ادا نہیں کرے گا، تو قیامت کے دن یہ جانور دنیا کی نسبت زیادہ قد آور اور زیادہ فربہ اس کے سامنے لائے جائیں گے، وہ اس کو سینگوں سے مارتے ہوئے،ا ورپیروں تلے کچلتے ہوئے گذریں گے، جب آخر والے ختم ہو جائیں گے، تو پہلے پھر اسی طرح گذرنا شروع ہو جائیں گے، اور لوگوں کے درمیان فیصلہ ہونے تک اس کا یہی حال ہوتا رہے گا۔‘‘
ایک دوسری حدیث میں،جو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، اس کی زیادہ تفصیل ہے۔ (مشکوٰۃ)
((قِیْلَ یَا رَسُوْلُ اللّٰہِ فَالْاِبِلُ قَلَ وَلَا صَاحِبُ اِبِلً لَا یُؤَدِّیْ مِنْھَا حَقَّہَا وَمِنْ حَقَّہَا حَلْبُھَا یَوْمَ وَزْدِھَا اِلَّا اِذَا کَانَ یَوْمَ الْقِیَامَة بُطِحَ لَه بِقَعٍ قَرْقَرٍ اَوْ نَرَمَا کَانَتْ لَا یَفْقِدُ مِنْھَا نَصِیْلًا وَاحِدًا تَطَؤُہٗ بِاَخْفَافِھَا وَتَعَضَّه بِاَفْوَاھِھَِا کُلَّمَا مَرَّ عَلَیْه اُوْلةھَا رَدَّ عَلَیْه فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٗ خَمْسِیْنَ اَلْفَ سَنَة حَتّٰی یُقْضیی بَیْنَ الْعِبَادِ فَیُرَی سَبِیْلُه اِمَّا اِلَی الْجَنَّة وَاِمَّا اِلَی النَّارِ قِیْلَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ فَالْبَقَرُ وَالْغَنَمُ فَقَالَ وَلَا صَاحِبُ بَقَرٍ وَلَا غَنَمٍ لَا یُؤَدِّیْ مِنْھَا حَقَّہَا اِلَّا اِذَا کَانَ یَوْمَ الْقِیَامَة بُطِحَ لَه بِقَاعٍ قَرْقَرٍ لَا یَفْقِدُ مِنْھَا کُلَّھَا مَرَّ عَلَیْه اُوْلٰہَا رُدَّ عَلَیْه اُخْرٰھَا فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٗ خَمْسِیْنَ اَلْفَ سَنَة حَتّٰی یُقْضٰی بَیْنَ الْعِبَادِ فَیُرٰی سَبِیْلُه اِمَّا اِلَی الْجَنَّة وَاِمَّا اِلَی النَّارِ)) (راوہ مسلم، مشکوٰۃ شریف)
’’آنحضرتﷺ مختلف اموال سے زکوٰۃ نہ دینے والوں کے متعلق وعید بیان فرما رہے تھے، کسی نے پو چھا یا رسول اللہﷺ! اونٹوں کا کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا: جو مالک اپنے اونٹوں کی زکوٰۃ ادا نہیں کرے گا،اور ان کے نفلی حقوق میں سے پانی پینے کے دن ان کا دودھ دوھ کر غرباء میں تقسیم کران بھی ایک حق ہے قیامت کے دن اسے ان کے سامنے ایک چٹیل میدان میں منہ کے بل لٹادیا جائے گا، اور وہ اونٹ دنیا کی نسبت بہت موٹے تازے ہوں گے، ان میں سے ایک بچہ بھی غائب نہیں ہو گا، وہ اسے پیروں تلے روندیں گے، اور دانتوں سے کاٹیں گے، جب ایک دفعہ پوری قطار اس پر گذر جائے گی، تو پلٹ کر آخر کی طرف سے پھر اس پر مخالف سمت کو گذرنا شروع کر دیں گے، اور لوگوں کے درمیاں فیصلہ ہونے تک پچاس ہزار سال کے دن میں اس کا یہی حشر ہوتا رہے گا، پھر معلوم نہیں کہ اس کو جنت کا راستہ دکھایا جائے گا، یا جہنم کا، پھر کسی نے پوچھا، یا رسول اللہ! گائیوں اور بکریوں کے متعلق فرمائیے، ان کا کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا: گائیوں اور بکریوں کا مالک بھی اگر ان کی زکوٰۃ نہیں دے گا، تو قیامت کے دن ان کے آگے چٹیل میدان میں منہ کے بل گرا دیا جائے گا، سب گائیں اور بکریاں موجود ہوں گی ان میں سے کوئی گائے یا بکری غائب نہیں ہو گی، ان میں کوئی گائے یا بکری خمیدہ سینگوں والی نہیں ہو گی، نہ کوئی بغیر سینگوں کے ہو گی، اور نہ کسی کے سینگ ٹوٹے ہوں گے، وہ سب اسے اپنے سینگوں سے ماریں گی، اور کھروں سے نوچیں گی، جب ایک دفعہ پوری قطار اس پر گذر جائے گی، تو پلٹ کر آکر کی طرف سے پھر اس پر گذرنا شروع کر دیں گی، لوگوں کے درمیان فیصلہ ہونے تک پچاس ہزار سال کے دن میں اس کا یہی حال ہوتا رہے گا، پھر معلوم نہیں کہ اسے جنت کا راستہ دکھایا جاء گا یا جہنم کا۔ ‘‘
جن بہائم (چوپائے جانور) کی زکوٰۃ آنحضرتﷺ اور آپ کے خلفاء نے وصول کی ہے، اور آج تک اس پر تمام مسلمانوں کا عمل ہے تین قسم یہ ہی، اونٹ، گائے، بکری۔
واضح رہے کہ زکوٰۃ میں بھینس ،گائے کی، اور بھیڑ، دنبہ، بکری کی قسم شمار ہوتے ہیں، اس لیے ان کا نصاب اور زکوٰۃ وہی ہے، جو گائے اور بکری کا ہے، اب تینوں قسم کے جانوروں کی زکوٰۃ درج ذیل جدولوں میں ملاحظہ فرمائیے۔
اونٹ کی زکوٰۃ کا جدول
۵ سے ۹ تک ایک بکری
۱۰ سے ۱۴ تک دو بکری
۱۵ سے ۱۹ تک تین بکری
۲۰ سے ۲۴ تک چار(؎۱) بکری
۲۵ سے ۳۵ تک ایک بنت مخاص (ا سال کی اونٹنی)
۳۶ سے ۴۵ تک ایک بنت لبون (۲ سال کی اونٹنی)
۴۶ سے ۶۰ تک ایک حقہ (۳ سال کی اونٹنی)
۶۱ سے ۷۵ تک ایک جذعہ (۴ سال کی اونٹنی)
۷۸ سے ۹۰ تک ۲ بنت لبون
۹۱ سے ۱۲۰ تک ۲ حقہ
(؎۱) بکری اگر بھیڑ یا دنبہ کی قسم سے دی جائے، تو جذعہ (ایک سال کی ) کفایت کر سکتی ہے، اور اگر بکری کی قسم سے دی جائے، تو مسنہ( جس کے ساتھ دو دانت ٹوٹ کر آگ چکے ہوں) ضروری ہے، نیز مادہ لی جائے گی، نر قبول نہیں کیا جائے گا۔۱۲
۱۲۰ کے آگے ہر دس کے بعد کل تعداد چالیس اور پچاس کے دو ہندسوں پر تقسیم ہو جاتی ہے، اسی لیے آنحضرتﷺ نے فرمایا:
((فَاِنْ زَادَتْ عَلٰی مِائة وَّعِشْرِیْنَ فَفِیْ کُلِّ اَرْبَعَیْنَ بِنْتُ لُبُوْنٍ وَفِیْ کُلِّ خَمْسِیْنَ حِقَّة))
’’یعنی اگر اونٹ ۱۲۰ سے بڑھ جائیں، تو ہر چالیس میں بنت لبون اور ہر پچاس میں حقہ ہے۔‘‘
آئندہ بھی یہی حساب ہزاروں لاکھوں تک جاری رہے گا، کسی موقعہ پر بھی ابتدائی نصاب کی طرف رجوع نہیں کیا جائے گا، جیسا کہ بعض ائمہ کا مذہب ہے، مثلاً ۱۲۰ پر ۱۱۰ اونٹ زیادہ ہوئے، تو ۱۲۰ ہو جائیں گے، یہ دو دفعہ ۴۰، اور ایک دفعہ ۵۰ پر تقسیم ہو جاتے ہیں، اس لیے ان میں دو بنت لبون اور ایک حقہ زکوٰۃ ہو گی، اور ۱۴۰ دو دفعہ ۵۰، اور ایک دفعہ ۴۰ پر تقسیم ہو جاتے ہیں، اس لیے ان میں دو حقے اور ایک بنت لبون دینا ہو گی، اور ۱۵۰ تین دفعہ ۵۰ پر تقسیم ہو جاتے ہیں، لہٰذا ان میں تین حقے ہوں گے وعلی ہذا القیاس۔
نوٹ:… اگر زکوٰۃ میں بنت مخاض (ایک سال کی اونٹنی) آتی ہو، اور وہ مالک کے پاس نہیں ہے، اس کے پاس ابن لبون (دو سال کا نر اونٹ) ہے تو وہی لے لیا جائے گا، اور مالک کو کچھ واپس نہیں دیا جائے گا، اور اگر اس کے پاس بنت لبون (دو سال کی اونٹنی) ہے تو وہ بھی قبول کر لی جائے گی، مگر اب عامل مالک کو ۲ بکریاں یا ان کی قیمت واپس کرے گا، اسی طرح اگر زکوٰۃ میں بنت لبون آتی ہے، اور وہ موجود نہیں، تو اس کی جگہ بنت مخاض قبول کر لی جائے گی، لیکن اب مالک کو اس کے ساتھ دو بکریاں یا ان کی قیمت دینا ہو گی، اس سے آگے بھی زکوٰۃ میں لیے جانے والے جانور کی عمر ایک سال کی کمی و بیشی کی صورت میں اس طریقہ پر عمل کیا جائے گا، اگر عمر ایک سال کم ہوئی، تو مالک کو اس کے ساتھ ۲ بکریاں،یا ان کی قیمت دینا پڑے گی، اور اگر عمر ایک سال زیادہ ہوئی، تو عالم کو ہی کچھ دینا پڑے گا۔
ایک سال کی اونٹنی کے عوض دو سال کا نر لیا جاتا ہے، اس کے علاوہ کسی صورت میں اونٹوں کی زکوٰۃ میں نر قبول نہیں کیا جائے گا، ہمیشہ مادہ ہی لی جائے گی۔
(۲) گائے کی زکوٰۃ
۳۰ سے ۳۹ تک تبیع یا تبیعہ (ایک سال کا بچھڑا یا بچھڑی)
۴۰ سے ۵۹ تک مسن یا مسنہ (۲ سال کا نر یا مادہ جس کے دودھ کے دانٹ ٹوٹ
چکے ہوں
۶۰ سے ۶۹ تک ۳ تبیع یا ۲ تبیعہ
اونٹوں کی طرح یہاں بھی ۶۰ سے آگے ہر دس کے بعد کل تعداد ۲۰، اور ۴۰ کے دو ہندسوں پر تقسیم ہو جاتی ہے، لہٰذا آنحضرتﷺ کے ارشاد کے مطابق:
((یَاْخُذُ مِنَ الْبَقَرِ مِنْ کُلِّ ثَلَاثِیْنَ تَبِیْعًا اَوْ تَبِیْوَة وَمِنْ کُلِّ اَرْبَعِیْنَ مُسِنَّة)) (مغنی ابن قدامہ ومشکوٰۃ بحوالہ سنن ابی داود)
یعنی ہر عامل ۳۰ گائیوں سے ایک سال کا نر یا مادہ اور ۴۰ سے مسنہ لے، ۷۰ سے ایک ایک سال کا نر یا مادہ اور ایک دو سال کا نر یا مادہ لیا جائے گا، ۸۰ سے ۲ سال کے نر ۹یا مادہ، اور ۹۰ سے ۹۹ تک، ۳ ۔ ایک سال کے نر یا مادہ وعلی ہذا لقیاس۔
نوٹ:… گائے کی زکوٰۃ میں صرف تبیع اور مسن مقرر ہے، دوسرے کسی عمر کے جانور کا ذکر نہیں۔ ہاں مالک اپنی خوشی سے بڑی عمر جا جانور دے ، تو جائز ہے، اس میں نر اور مادہ کا کوئی امتیاز نہیں، بعض علما کہتے ہیں کہ مسنہ ہر حال میں مادہ ہونی چاہیے، جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث میں مسنہ ہی کا ذکر ہے، مسن کا نہیں، مگر یہ درست نہیں، طبرانی میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کی مرفوع حدیث میں مسن کا ذکر موجود ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں۔
((فِیْ کُلِّ ثَلَاثَیْنَ تَبِیْعٌ وَفِیْ کُلِّ اَرْبَعِیْنَ مُسِنٌّ اَوْ مُسِنَّة)) (مرعاۃ المفاتیح ص ۶۹ ج ۳)
لہذا مختار یہی ہے کہ اونٹ کی طرح زکوٰۃ میں لی جانے والی گائے میں نر یا مادہ کا فرق نہیں ہے، جو موجود ہو، مالک ادا کر سکتا ہے۔
دو نصاب کے درمیان واقع ہونے والے عدد و قص کہلاتے ہیں، مثلاً ۲۰ اور ۴۰ کے درمیان، اسی طرح ۴۰ اور ۶۰ کے درمیان (وعلی ہذا القیاس) ان میں زکوٰۃ نہیں ہے، لیکن امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، کہ ۴۰ پر ایک گائے بڑھ جائے گی، تو اس میں مسنہ کا چالیسواں حصہ زکوٰۃ دینا پڑے گی، اگر مسنہ کی قیمت چالیس روپے ہے، تو ۴۰ کے بعد ایک گائے میں ایک روپیہ دینا پڑے گا، اسی طرح گائیں جنتی زیادہ ہوں گی، اتنے روپے دینے پڑیں گے، مگر یہ حدیث پاک کی تصریحات کے خلاف ہے، اس لیے صاحبین نے بھی امام صاحب کے ساتھ اتفاق نہیں کیا۔
(۳) بکریوں کی زکوٰۃ
۴۰ سے ۱۲۰ تک ایک بکری
۱۲۱ سے ۲۰۰ تک ۲ بکری
۲۰۱ سے ۳۰۰ تک ۳ بکری
اس کے بعد ہر سو پر ایک بکری زکوٰۃ دینا پڑے گی، چنانچہ ۳۹۹ میں بھی ۳ بکریاں ہیں، جیسا کہ ۳۰۰ میں تین بکریاں ہیں، ۴۰۰ پوری ہوں گی، تو ۴ بکریاں دینا پڑتی ہیں، ۵۰۰ ہوں گی تو ۵ بکریاں ہوں گی، اور ۵۰۰ سے کم ہوں گی، تو زکوٰۃ میں ۴ ہی بکریاں فرض ہوں گی، (وعلی ہذا القیاس) اس کے آگے جتنے سینکڑے پورے ہوں گے ، اتنی بکریاں دی جائیں ی، جو سینکڑہ کم ہو گا، اس میں زکوٰۃ نہیں ہو گی۔
بکریوں میں بچے بھی شمار ہوں گے مگر بچے زکوٰۃ میں قبول نہیں کیے جائیں گے، زکوٰۃ میں صرف بھیڑ جذعہ (ایک سال کی) یا بکری مسنہ لی جائے گی۔
مصدق سارے مال کو اعلیٰ ادنیٰ اور متوسط تین درجوں میں تقسیم کرے ، اور متوسط درجہ سے زکوٰۃ لے، جس طرح آنحضرتﷺ کے فرمان ((فَاِیَّاکَ وَکَرَائِمَ اَمْرَ اِلِیْھِمْ)) (مشکوٰۃ از صحیحین) کے مطابق اعلیٰ قسم کا مال لینا منع ہے، اسی طرح آپ کے دوسرے فرمان ((وَلَا تُخْرَجُ فِی الصَّدَقَة، ھَرِمَة وَلَا ذَاتُ عَوَارٍ وَلَا تَیْنٌ اِلَّا اَنْ یشاء الْمُصَدِّقُ)) (مشکوٰۃ بحوالہ صحیح بخاری) کے مطابق کوئی بوڑھا عیب دار سانڈھ قبول نہیں کیا جائے گا، ہاں اگر مصدق (عامل) ان تینوں قسم کے جانور لینے میں فقراء ومساکین کا بھلا سمجھے، تو لے سکتا ہے، اسی طرح اگر کوئی مالک اپنی رضا مندی اور خوشی سے اعلیٰ قسم کا جانور دینا چاہے،تو دے سکتا ہے۔
حضرت ابن بن کعب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، ایک دفعہ آنحضرتﷺ نے زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے عامل بنا کر بھیجا ‘ میں اونٹوں کے ایک مالک کے پاس گیا ‘اور اسے زکوٰۃ دینے کے لیے کہا ‘ اس نے میرے سامنے لا کر سارے اونٹ جمع کر دیئے میں نے شمار کر کے کہا ‘ ان کی زکوٰۃ ایک بنت مخاض بنتی ہے ‘ اس پر وہ کہنے لگا اس کو لے کر کیا کرو گے ‘ نہ یہ سواری کے قابل ہے اور نہ ہی دودھ دے سکتی ہے ‘ اس کی بجائے یہ موٹی ‘تازہ ‘ جوان اور قد آور اونٹنی لے جاؤ ‘میں نے کہا میں یہ بغیر اجازت نہیں لے سکتا ‘ رسول اللہﷺ یہاں قریب ہی ہیں ‘ اگرتم چاہو‘تو میرے ساتھ چلو ‘ اور یہ اونٹنی آپ پر پیش کرو ‘اگر آپ نے اجازت دے دی ‘تو میں قبول کر لوں گا ورنہ رد کر دوں گا چنانچہ ہم دونوں اونٹنی ساتھ لے کر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضرہوئے اس نے کہا یا رسول اللہ !آج تک اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ یا ان کے عامل میرے پاس زکوٰۃ لینے کے لیے نہیں آئے آج پہلا موقعہ ہے کہ آپ کے یہ عامل آئے ہیں اور مجھ سے زکوٰۃ کا مطالبہ کیا ہے میں نے اپنا سارا مال ان کے سامنے لاکر جمع کر دیا انہوں نے کہا اس سارے مال کی زکوٰۃ ایک بنت مخاض ہے میں عرض کیا یہ سواری اور دودھ دینے کے قابل نہیں اس کی بجائے یہ موٹی تازہ جوان اونٹنی لےجاؤ مگر یہ نہیں مانے اب میں اسے اے اللہ کے رسول !آپ کی خدمت میں لایا ہوں آپ اسے قبول فرمائیے آنحضرت ﷺنے فرمایا تمہارے مال کی زکوٰۃ تو وہی بنت مخاض ہے جو ہمارے عامل نے بتائی ہے اب اگر تم اپنی مرضی سے یہ اونٹنی دینا چاہتے ہو تو ہم قبول کر لیتے ہیں اس کا اجر تم اللہ سے پاؤ گے وہ بولا یہ لیجئے ! اسی لیے تو میں اسے لایا ہوں آپ نے اسے قبول کرنے کا حکم دیا اور اس کے مال میں برکت کی دعا فرمائی -ابوداؤد)
مسند امام احمد میں ہے کہ عمارہ نے کہا میں حضرت معاویہ کے زمانہ میں زکوٰۃ وصول کرنے پر عامل مقررتھا اس وقت اس کے اونٹ بڑھ کر کر 15سو ہو چکے تھے چنانچہ میں نے اس سے 30حقے زکوٰۃ وصول کی شارح کہتے ہیں یہ ای کے دو سخا ‘ اخلاص اور آنحضرت ﷺ کی دعا کا نتیجہ ہے کہ اللہ نے اس کے مال میں اتنی برکت عطا فرمائی (الفتح الترتیب مسند الامام احمد الشیبانی ج8ص227)
اگر کسی کا مال اعلیٰ ‘ادنیٰ اور متوسط تین درجوں میں تقسیم نہیں ہو سکتا بلکہ اس کے پاس صرف اعلیٰ یا صرف ادنیٰ یا صرف متوسط ہے ‘ اسی طرح اس کے پاس صرف ذکور یعنی نر ہیں ‘ مادہ نہیں ہے تو ان سب صورتوں میں اسی سے اسی قسم کا جانور لیا جائے گا ۔ جو اس کے پاس موجود ہے‘اعلیٰ سے اعلیٰ ‘ ادنیٰ سے ادنیٰ اور ذکور سے نر ہی قبول کر لیا جائے گا ‘ یہاں متوسط اور مادہ کی پابندی نہیں ہے ‘
اگر دو یا زیادہ آدمیوں کے علیٰحدہ علیحٰدہ مویشی (اونٹ ‘گائے ‘ بکری ) ہوں ‘ لیکن انہوں نے ان کے چرانے کےلیے ایک چرواہا مقرر کر رکھا ہے ‘ رات کے وقت ان کو ایک ہی باڑہ میں بند کرتے ہیں نیزان کی چراگاہ ‘ پانی پلانے کا آلہ ‘ اور نسل کشی کے لیے سانڈھ بھی ایک ہے ‘ تو یہ مال مخلوط ہے ‘اور ان کے مالکوں کو دو ہوں ‘تو خلیطین اور دو سے زیادہ ہوں ‘ تو خلطاءکہتے ہیں
سارے شریک کاروں کا مال مل کر نصاب کو پہنچے ‘ یا ان میں سے ہر ایک کا پورا پورا نصاب ہے مگر اس کو مخلوط کئے ہوئے ایک سال ہو گیا ہے ‘تو مصدق اس سے اس طرح زکوٰۃ لے گا جیسے یہ ایک آدمی کا مال ہے سب مال کو شمار کرے گا ‘ اور اس پر جو زکوٰۃ آئے گی وصول کرے گا پھر یہ خلیط (جن کا مال مشترک ہوا ) اپنے اپنے حصہ کے مطابق ایک دوسرے سے حساب لے دے لیں گے ‘مثال کے طور پر ایک آدمی کی 20بکریاں اور دوسرے کی 40بکریاں ہیں ان دونوں کو اپنا مال مخلوط کئے ہوئے ایک سال ہو گیا تو مصدق 60بکریاں سے زکوٰۃ کی ایک بکری لے گا اب اگر یہ بکری 20والے کی ہے ‘ تو وہ اپنے ساتھی سے اس بکری کی دو ثلث قیمت لے گا اور اگر وہ بکری 40والے کی ہے تو وہ دوسرے سے اس کی ایک ثلث قیمت لے گا اگر تین آدمی خلیط ہیں اور ہر ایک کے ملک میں 40بکریاں ہیں تو یہ کل 120ہوئیں سال کے بعد مصدق ان سے ایک بکری لے گا مال چونکہ تینوں کا برابر ہے اس لیے جس کی بکری جائے گی وہ اپنے ساتھیوں سے دو ثلث قیمت وصول کرے گا اس طرح ہر ایک کو ثلث بکری زکوٰۃ پڑی‘ یہ اختلاط کا فائدہ ہے اگر وہ باہم خلیط نہ ہوتے ‘ تو ان کو تین بکریاں زکوٰۃ دینا پڑتی ‘امام مالک کے نزدیک خلیطین یا خلطاء میں سے ہر ایک کا مال نصاب کو پہنچے ‘تو سب پر زکوٰۃ ہے ‘ اور جس کا مال نصاب کو نہ پہنچے ‘اس پر زکوٰۃ فرض نہیں مثلاً دو آدمیوں کی 40‘40 بکریاں ہیں اور ایک کی بیس ہیں ‘ سب مل کر 100 ہوگئیں ان میں ایک بکری زکوٰۃ دینا پڑے گی اور یہ ان دونوں پر ہو گی ‘ جن کی بکریاں 40‘40 بکریاں ہیں اور 20 بکریاں والے پر زکوٰۃ نہیں۔(موطا)
اس کے برعکس امام شافعی ‘ امام احمد ‘عطاء ‘ لیث اور اسحاق فرماتے ہیں کہ سب خلطاکا مال مل کر نصاب کو پہنچ جائے تو اس میں زکوٰۃ واجب ہے حتیٰ کہ اگر چالیس آدمیوں کی 40 بکریاں ہیں ان میں ایک بکری زکوٰۃ دینا پڑے گی ‘پھر جس کی بکری جائے گی وہ دوسروں سے ان کے حصے کی قیمت وصول کرے گا یہی مذہب مختار اور احوط ہے ‘(مرعاۃ المفاتیح )
آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے ‘لايجمع خشية الصدقة (بخاری شریف)’’یعنی زکوٰۃ کے ڈر سے علیحٰدہ مال اکٹھا نہ کیا جائے اور اکٹھے مال کو الگ الگ نہ کیا جائے ‘‘آنحضرت ﷺ کی یہ ہدایت مالک اور عامل دونوں کے لیے ہے کیونکہ اس کے سلسلہ میں دونوں سے کمزوری متوقع ہے، مالک کا ڈر تو یہ ہے ، کہ زکوٰۃ کہیں واجب نہ ہو جائے یا زیادہ نہ دینی پڑے، جیسے خلیطین کی ۶۰ بکریاں، مصدق آئے، تو ہر ایک ۳۰ بکریاں لے کر علیحدہ ہو جائے، اس طرح دونوں زکوٰۃ سے بچ گئے، یا دونوں میں سے ہر ایک کے پاس ۱۰۱ بکری ہے، دونوں کی بکریاں مل کر ۲۰۲ ہوتی ہیں، ان میں تین بکریاں زکوٰۃ واجب ہے، لیکن مصدق کی آمد سن کر علیٰحدہ کر لیتے ہیں،ا ب ہر ایک کو ایک بکری دینا پڑے گی، اور ایک بکری کی بچت ہو جائے گی، اسی طرح دو آدمیوں کے پاس الگ الگ ۴۰ بکریاں ہیں، وہ آپس میں خلیط نہیں ہیں، مگر عامل کے پاس اپنے آپ کو خلیط ظاہر کرتے ہیں، اور اپنے علیحدہ علیحدہ مال کو جمع کر کے پیش کرتے ہیں، اس صورت میں انہیں ایک بکری دینا پڑے گی، اور ایک بکری بچ رہے گی، اس قسم کی گھٹیا حرکات سے آنحضرتﷺ نے مذکورہ بالا فرمان میں منع فرمایا ہے، عامل کا ڈر یہ ہے، کہ کہیں زکوٰۃ ساقط یا کم نہ ہو جائے، اس لیے کوشش کرنا ہے، کہ زیادہ سے زیادہ زکوٰۃ وصول کرے، یا کم از کم کوئی مال زکوٰۃ لیے بغیر نہ چھوڑے، مثلاً ۳۰، ۳۰ بکریاں کے علیحدہ ریوڑوں کو جمع کر کے مخلوط بنا دے، اور ان میں سے ایک بکری زکوٰۃ لے لے، یا خلیطین کی ۱۱۰ بکریوں کو دو برابر حصوں میں بانٹ کر دو بکریاں وصول کر لے، حالانکہ ان میں ایک بکری زکوٰۃ پڑھتی تھی، مصدق کے لیے بھی مذکورہ بالا فرمان عالی کے پیش نظر یہ حرکت ناجائز ہے۔
عامل کے لیے جائز نہیں کہ ایک جگہ بیٹھ جائے، اور سارے علاقے کے لوگوں کو حکم دے کہ اپنے اپنے مال میں یہاں لا کر زکوٰۃ دو، اسی طرح اصحاب مال کے لیے بھی جائز نہیں، کہ عامل کی آمد سن کر اپنا مال دس بیس میل دور لے جائیں، تاکہ عامل مشقت اٹھا کر زکوٰہ کے لیے وہاں جائے، یہ حدیث پا ک میں آیا ہے۔
((عَنِ النَّبِیُّ ﷺ قَالَ لَا جَلَبَ وَلَا جَنَبَ وَلَا تُؤْخَذُ صَدَقَاتُھُمْ اِلّا فِیْ دُوْرِھِمْ)) (ابو داود)
’’یعنی آپ نے فرمایا کہ عامل ایک جگہ بیٹھ کر علاقے کے مال اپنے پاس نہ منگوائے اور مویشیوں کے مالک اپنا مال دور نہ لے جائیں۔ بلکہ جہاں کوئی رہتا ہے، اس کی زکوٰۃ وہیں جا کر لی جائے۔‘‘
اگر کسی کے پاس سواری یا افزائش نسل کے لیے گھوڑے ہیں، جنگل میں چرتے ہوں، یا گھر پر پلتے ہوں، ان میں زکوٰۃ نہیں ہے،یہی حال غلاموں کا ہے، ان میں بھی سوائے صدقۃ الفطر کے زکوٰۃ نہیں ہے، ہاں اگر گھوڑے یا غلام تجارت کے لیے ہیں تو تجارت کے دوسرے مال کی طرح بھی زکوٰۃ فرض ہو گی، امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اگر گھوڑے نر و مادہ یا صرف مادہ جنگل میں چرنے والے ہوں، تو ان میں زکوٰۃ واجب ہے، کیونکہ ان سے افزائش نسل ہوتی ہے، اور یہی ان کے پالنے کا مقصد ہے، اگر صرف نر ہوں، تو ان میں زکوٰۃ نہیں ہے، اس لیے کہ ان سے نسل نہیں بڑھ سکتی پھر مالک کو اختیار ہے کہ ہر گھوڑے سے ایک دینار زکوٰۃ دے، یا ان کی قیمت لگا کر ہر دو سو درہم پر پانچ درہم ادا کرے، مگر یہ مذہب جمہور کے خلاف ہے، صاحبین نے بھی اس میں جمہور کی مموافقت کی ہے، اور محققین علماء احناف کے نزدیک فتویٰ صاحبین کے قول پر ہے، جمہور کی دلیل یہ حدیث ہے:
((عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَة رضی اللّٰہ عنه قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ لَیْسَ عَلَی الْمُسْلَم صَدَقَة فِیْ عَبْدِہٖ وَلَا فِیْ فُرْسِه وَفِیْ رِوَایَة قَالَ لَیْسَ فِیْ عَبْدِہٖ صَدَقَة اِلَّا صَدَقَة الْفِطْرِ)) (صحیحین)
’’یعنی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا مسلمان کے غلام اور گھوڑے میں زکوٰۃ نہیں، ایک روایت میں ہے، آپ نے فرمایا اس کے غلام میں صدقہ الفطر کے سوا کوئی زکوٰۃنہیں۔‘‘
گدھے اور خچر عموماً مال برداری کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں، اس لیے بحکم ((لَیْسَ عَلَی الْعَوَامِلِ صَدَقَة)) ان میں زکوٰۃ نہیں ہے، اگر افزائش نسل کے لیے پالے جائیں، تب بھی احادیث میں ان کی زکوٰۃ کی تصریح نہیں ہے، بلکہ آنحضرتﷺ سے پوچھا گیا، ((وَقَالُوْا فَالْحُمْرُ))کہ یا رسول اللہ گدھوں کے بارے میں کیا ارشاد ہے، تو آپ نے صرف اتنا فرمایا کہ:
((مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ فِیْھَا شَیْئًا اِلَّا ھٰذِہِ الْاٰیَۃِ الْجَامِعَة الْفَاذَّة فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّة خَیْرًا یَّرَہٗ وَمَنْ یَعْمَلَ مِثْقَالَ ذَرَّة شَرًّا یَرَہٗ)) (مسلم شریف)
یعنی ان کے متعلق اللہ تعالیٰ نے بجز ایک ہی جامع آیت کے (جو ہر قسم کی نیکی اور برائی کو شامل ہے) کوئی خاص حکم نہیں اتارا کہ ’’ جو شخص ذرہ کے برابر نیکی کرے گا، وہ اس کا ثمرہ پا لے گا، اور جو شخص ذرہ کے برابر برائی کرے، وہ بھی اس کا اثر ضرور دیکھے گا، مطلب یہ ہے، کہ گدھوں اور خچروں کا مالک اگر ان کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں کچھ خرچ کرے گا، تو اس کا نفلی صدقہ ہو گا، اور اس کا اجر رائیگاں نہیں جائے گا۔
ایک دوسری حدیث میں ہے:
((عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَة رضی اللّٰہ عنه مَرْفُوْعًا قَالَ عَفُوْتُ لَکُمْ عَنْ صَدَقَة الْجَبْہَة وَالْکسْعَة وَالنَّخَة قَالَ بَقِیَّة الْجَبْہُة وَالْکُسْعَة الْبِغَالُ وَالْحَمِیْرُ وَالنُّخَّة الْمُرَبِّیَاتُ فِی الْبُیُوْتِ)) (البیہقی بحوالہ مرعاۃ المفاتح ص ۹۰ ج ۳)
’’یعنی رسول اللہﷺ نے فرمایا: میں نے تمہارے لیے گھوڑے، گدھے، خچر اور گھر میں پلنے والے جانوروں کی زکوٰۃ معاف کر دی ہے۔‘‘
ہاں اگر کوئی شخص ان جانوروں کی تجارت کرے، تو ان میں تجاری مال کی حیثیت سے زکوٰۃ فرض ہے۔
ارباب مال کو چاہیے کہ زکوٰۃ وصول کرنے والے آئیں، ان کی خندہ پیشانی سے استقبال کریں، اور وصولی زکوٰۃ کی راہ میں مشکلات پیدا نہ کریں، کیونکہ عامل کو خوش و خرم لوٹانا تکمیل زکوٰۃ کے لیے ضروری ہے، آنحضرت ﷺ نے فرمایا:
((سَیَأتِیْکُمْ رُکَیْبٌ مُّبْغَضُوْنَ فَاِذَا جَائُٔ کُمْ فَرَحِّبُوْا بِھِنْ وَخَلُوْا بِیْنَھُمْ وَبَیْنَ مَا یَبْتَغُوْنََ فَاِذَا عَدَلُوْا فَلِاَنْفُسِہِمْ وَاِنْ ظَلَمُوْ فَعَلَیْھَمْ وَارْضُوْھُمْ فَاِنَّ تَمَام زَکٰوتِکُمْ رِضَاھُمْ وَلْیَدْعُوْا لَکُمْ)) (ابو داود)
’’تمہارے پاس (زکوٰۃ وصول کرنے والوں کے) چھوٹے چھوٹے ناپسندیدہ قافلے آیا کریں گے، جب وہ آئیں، تو انہیں مرحبا اور خوش آمدید کہو، اور جو کچھ وہ زکوٰۃ کے سلسلہ میں تم سے طلب کریں، انہیں لینے دو، اگر عدل کریں گے، تو انہیں ثواب ہو گا، اور اگر ظلم کریں گے، تو ان کی سزا پائیں گے، تم ان کو راضی کیا کرو، ان کے خوش ہونے سے تمہاری زکوٰۃ پوری ہو گی، ورنہ ادھوری رہے گی، اور زکوٰۃ وصول کرنے کے بعد انہیں تمہارے حق میں خیر و برکت کی دعا کرنی چاہیے۔‘‘
نیز آپ نے فرمایا:
((اِذَا اَتَاکُمْ الْمُصَدِّقُ فَلْیَصْدُرْ عَنْکُمْ وَھُوَ عَنْکُمْ رَاضٍ)) (مسلم)
’’جب عامل تمہارے پاس زکوٰۃ لینے آئے تو اس سے ایسا برتاؤ کرو کہ وہ تم سے خوش ہو کر واپس جائے۔‘‘
ایک اور حدیث میں ہے:
((عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَلاَ جَائَ نَاسٌ مِنَ الْاَعْرَابِ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ فَقَالُوْا اِنَّ نَاسًا مِنَ الْمُصَدِّقِیْنَ یَأْتُوْنَا فَیَظْلَمُوْنَّا فَقَالَ اَرْضُوْا مُصَدِّقِیْکُمْ قَالُوْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَاِنْ ظَلَمُوْنَا قَالَ اَرْضُوْا مُصَدِّقِیْکُمْ وَاِنْ ظُلِمْتُمْ)) (ابو داود)
’’حضرت جابر بن عبد اللہ کا بیان ہے کہ دیہات کے رہنے والے کچھ لوگ آنحضرتﷺ کی خدمت میں آئے اور کہا آپ کے فرستادہ زکوٰۃ وصول کرنے والے (عامل) ہمارے پاس آتے ہیں، وہ ہم پر ظلم کرتے ہیں، اور واجب حق سے بڑھ کر زکوٰۃ لیتے ہیں، یہ سن کر آپ نے فرمایا، زکوٰۃ لینے والوں کو خوش کیا کرو، وہ کہنے لگے، یا رسول اللہ! خواہ وہ ہم پر ظلم کریں، فرمایا: زکوٰۃ لینے والوں کو خوش کیا کرو، اگرچہ تم پر ظلم کیا جائے۔‘‘
لیکن یہ بات خاص ذہن میں رہے کہ آنحضرتﷺ کے عامل قطعاً ظلم نہیں کرتے تھے، اور نہ حق سے زیادہ وصل کرنے کی کوشش کرتے تھے، جیسے کہ اس کی ایک روشن مثال پہلے بیان ہو چکی ہے، اور آپ کے سب عامل (تحصیلدار) ایسے ہی تھے، لیکن چونکہ انسان جب طبعی بخل کی وجہ سے چاہتا ہے کہ اسے یا تو سرے سے کچھ دینا ہی نہ پڑے، یا کم سے کم دینے سے خلاصی ہو جائے، اس لیے پورا شرعی حق وصول کرنے کو بھی اپنے حق میں ظلم اور زیادتی سمجھتا ہے، اور پورا پورا حق لینے والے عامل سے بلاوجہ بغض رکھتا ہے، اور اسے ناپسند کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ آپ نے ان کی شکایت کا ازالہ نہیں فرمایا، اور نہ اسے قابل التفات سمجھا ہے، کیونکہ آپ جانتے تھے، کہ آپ کے فرستادہ عامل زکوٰۃ وصول کرنے کے سلسلہ میں ہر گز ہر گز زیادتی نہیں کرتے ہیں۔
اس کی کچھ مثالیں حدیث کی کتابوں میں آئیں ہیں، مختصر ایک مثال فرمائیے سوید بن غفلہ فرماتے ہیں کہ ہمارے پاس آنحضرت ﷺ کا مصدق آیا، میں نے اسے کہتے ہوئے سنا کہ مجھے ہدایت کی گئی ہے، کہ میں کوئی دودھ دینے والا جانور زکوٰۃ میں نہ لوں، اور نہ علیحدہ علیحدہ مال کو جمع کروں، اور نہ اکٹھے مال کو الگ الگ کروں اس مصدق کو ایک آدمی نے اپنے اونٹوں کی زکوٰۃ میں ایک بڑی کوہان والی موٹی تازی اونٹنی لا کر دی، اور کہا میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے مال سے بہترین اونٹنی قبول کریں، مگر مصدق نے لینے سے انکار کر دیا، پھر وہ اس سے کم درجہ کی اونٹنی لایا، مصدق نے اسے بھی لینے سے انکار کر دیا، پھر وہ اس سے بھی کم درجہ کی اونٹنی لایا، مصدق نے وہ قبول کر لی، او رکہا اب مجھے ڈر ہے کہ آنحضرتﷺ خفا ہوں گے، اور فرمائیں گے، تم ایک مسلمان کا بہترین مال لے آئے ہو۔ (ابو داؤد)
اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اگر کوئی عامل فی الواقع ہٹ دھرمی کرتا ہے، اور حق سے زیادہ وصول کرنا چاہتا ہے، تو اسے من مانی کاروانی کرنے کی کھلی چھٹی ہے، بلکہ اسے ایسا کرنے سے روکا جائے گا اور اس کا یہ فعل حاکم اعلیٰ کے نوٹس میں لایا جائے گا، خود آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ ایسی صورت میں حق سے زیادہ نہ دیا جائے۔
کسی شخص کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ عامل کے فرضی ظلم سے بچنے کے لیے کچھ مال چھپا لے، مثلاً ایک شخص کے پاس ۱۲۰ بکریاں ہیں، سال کے بعد اس میں ایک بکری زکوٰہ دینا پڑتی ہے، وہ ڈرتا ہے کہ عامل اس سے دو بکریاں وصول کرے گا، اس لیے وہ عامل کے سامنے صرف ۴۰ بکریاں پیش کرتا ہے، اور ۸۰ بکریاں چھپا لیتا ہے، تاکہ اسے ایک بکری زکوٰۃ دینا پڑے، جو درحقیقت اس کے مال کی زکوٰۃ ہے، ایسا کرنا ناجائز ہے، ایک حدیث میں ہے کہ صحابہ نے عرض کیا:
((یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنَّ اَصْحَابَ الصَّدَقَة یَعْتَدُوْنَ عَلَیْنَا اَفَتَکْتُمُ مِنْ اَمْوَالِنَا بِقَدْرِمَا یَعْتَدُوْنَ قَالَ لَا)) (رواہ ابو داود)
یا رسول اللہ! زکوٰہ لینے والے ہم پر زیادتی کرتے ہیں، اور اصل حق سے زیادہ مانگتے ہیں (مثلاً ۱۲۰ بکریاں سے ۲ بکریاں مانگتے ہیں) اگر اجازت ہو تو جس قدر وہ زیادتی کرتے ہیں، اس کے مطابق ہم اپنا مال چھپا لیں (تاکہ پوری پوری زکوٰۃ بھی ادا ہو جائے، اور ہم ظلم سے بھی محفوظ رہیں، جیسے ۱۲۰ بکریوں میں سے ۸۰ بکریاں چھپا لیں، آپ نے فرمایا ، نہیں اس کی اجازت نہیں ہے۔ آنحضرت ﷺ نے اس طرح مال چھپانے کو ناجائز قرار دے کر ایک بہت بڑے فتنے کا دروازہ بند فرما دیا، ورنہ اکثر لوگ عمال کی زیادتی کا بہانہ بنا کر اپنا اپنا مال چھپا لیتے، اور بہت کم زکوٰۃ وصول ہوتی، اور یوں نظام زکوٰۃ کا پورا ڈھانچہ غیر مؤثر ہو کر رہ جاتا، رہا عوام کو ظالم عامل کو دستبرد سے بچانے کا مسئلہ تو اس کا حل یہ ہے کہ اگر عوام میں اتنا شعور ہے کہ وہ زکوٰۃ کے مسائل جانتے ہیں، اور سمجھتے ہیں کہ عامل واقعی ظلم کر رہا ہے، اور اپنے حق سے زیادہ مانگ رہا ہے، تو وہ اس کو دلائل و براہین کے ذریعہ صحیح صحیح زکوٰۃ لینے پر مجبور کریں، اور اسے حق سے زیادہ ہر گز نہ دیں، لیکن اگر ظلم و ستم سے باز نہ آئیں ، تو اس کا معاملہ اسلامی حاکم اعلیٰ کے روپرو پیش کریں۔
جو عامل حق پر قائم رہے، صدقہ زکوٰۃ کے سلسلہ میں کسی نوع کی خیانت اور بددیانتی کا ارتکاب نہ کرے، ارباب اموال سے واجب حق سے زیادہ وصول نہ کرے، اور نہ کوتاہی سے کام لے تو آنحضرتﷺ نے اسے مجاہد اور غازی کی طرح اجر و ثواب کا مستحق قرار دیا ہے، نمازی کی طرح یہ بھی گھر سے جانے کے وقت سے واپسی تک برابر اجر و درجہ پاتا ہے، چنانچہ حدیث میں ہے:
((عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِیْجٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ الْعَامِلُ عَلَی الصَّدَقَة بِالْحَقِّ کَالْغَازِیْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ حَتّٰی یَرْجِعَ اِلٰی بَیْتِه)) (سنن ابی داود)
اگر کسی آدمی کو زکوٰۃ دیتے ہوئے (مثلاً) نصف سال گذر چکا ہے پھر اسے ورثہ یا ہبہ کی صورت میں کچھ اور مال مل جاتا ہے، یا وہ نیا مال خرید لیتا ہے، تو اس کو مال مستفاد کہتے ہیں، جیسے ایک آدمی کے پاس ۸۰ بکریاں ہیں، زکوٰۃ دینے کے چھ مہینے بعد اسے ۴۰ بکریاں ورثہ میں مل جاتی ہیں، تو یہ ۴۰ بکریاں مال مستفاد ہوں گی، اب سوال یہ ہے کہ اس مال مستفاد کی زکوٰۃ پہلے سال کے ساتھ ادا کی جائے، یا سال پورا ہونے کے بعد، اس میں اختلاف ہے، تفصیل آگے آ رہی ہے۔
الف:… مال مستفاد پہلے مال سے حاصل ہوا ہے، مثلاً ۱۰۰ بکریوں کی زکوٰۃ ادا کی گئی، پھر اگلا سال آنے تک وہ بچے دے کر ۲۰۰ ہو گئیں، یا تجارتی مال کی صورت میں ۱۰۰۰ روپے کی زکوٰۃ ادا کی، اگلا سال پورا ہونے تک نفع وغیرہ مل کر ۲۰۰۰ روپے ہو گیا۔
ب:… مال مستفاد پہلے مال کی قسم سے نہیں ہے، جیسے کسی کے پاس ۱۰۰ بکریاں تھیں، چھ ماہ کے بعد اسے ۴۰ اونٹ ورثہ یا ہبہ میں مل گئے۔
ج:… مال مستفاد پہلے مال کی قسم سے نہیں ہے، جیسے کسی کے پاس پہلے ۱۰۰ بکریاں تھیں، سات آٹھ ماہ کے بعد اسے مزید ۱۰۰ بکریاں ورثہ یا ہبہ میں مل گئیں۔
پہلی صورت میں بالاتفاق تمام علماء کے نزدیک مال مستفاد کی زکوٰۃ پہلے مال کے ساتھ دی جائے گی، اس کے لیے علیحدہ سال کا انتظار نہ کیا جائے گا۔
دوسری صورت میں سب کے نزدیک بالاتفاق مال مستفاد کی زکوٰۃ پہلے مال کے ساتھ نہیں دی جائے گی، بلکہ اس کے لیے الگ سال پورا کیا جائے گا، جب اس کا سال پورا ہو گا، تو اس کی زکوٰۃ دی جائے گی۔
تیسری صورت میں اختلاف ہے، امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مال مستفاد کی زکوٰۃ پہلے مال کے ساتھ ادا کی جائے گی، اس کے لیے الگ سال اور علیحدہ حساب کی ضرورت نہیں ہے، دوسرے ائمہ کرام اور محدثین عظام فرماتے ہیں کہ اس صورت میں الگ سال پورا ہونے کے بعد مال مستفاد کی زکوٰۃ ادا کی جائے گی، اس کو پہلے مال میں شامل نہیں کیا جائے گا، اور یہی مذہب حق اور صحیح ہے، حدیث پاک اس کی تائید کرتی ہے، چنانچہ آنحضرتﷺ نے فرمایا:
((عَنْ ابْنِ عَمَرَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ مَنِ اسْتَفَادَ مَالًا فَلَا زَکٰوة علَیْه حَتّٰی یَحُوْلُ عَلَیْه الْحَوْلُ)) (ترمذی)
’’یعنی جس کو مال مستفاد ملے، وہ سال گزرنے کے بعد اس کی زکوٰۃ دے۔‘‘
جن چار قسم کے مالوں میں زکوٰۃ فرض ہے، ان میں دوسری قسم سونا، چاندی ہے، اور اسی کے حکم میں نقدی ہے، ان میں زکوٰۃ کی فرضیت کتاب و سنت سے ثابت ہے، جو اس سے انکار کرے وہ کافر ہے، اسے اس سے فوراً توبہ کرنی چاہیے، ورنہ شرعاً مستوجب قتل ہے، اور جو انکار نہ کرے، اور ادا بھی نہ کرے، وہ فاسق ہے۔
اس کے متعلق قرآن و حدیث میں سخت وعید آئی ہے، جس سے بچنا ایک سچے مسلمان کا فرض ہے، حدیث شریف میں آیا ہے:
((عن ابی ھریرة قال قال رسول اللّٰہ ﷺ ما من صاحب ذھب ولا فضة لا یؤدی منھا حقہا الا اذا کان یوم القیامة صُفِّحَتْ لَه صَفاٗئح من نارفاحمی علیھا فِیْ نار جہنم فیُکوی بھا جنبه وجبینه وظہرہ کلما رُدَّت اعیدت لَه فی یوم کان مقدارہ خمسین الف سنة حتی یقضی بین العباد فیرٰی سبیلُہٗ اِمَّا الی الجنة واما الی النار الخ)) (صحیح مسلم)
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا: سونے چاندی کا جو مالک ان کا حق ادا نہیں کرتا، قیامت کے دن اس کے لیے اس سونے چاندی کی چوڑی چوڑی سلاخیں بنائی جائیں گی، پھر انہیں جہنم میں آگ کی طرح سرخ کیا جائے گا، اور ان سے اس کی پیشانی، پہلو اور پیٹھ پر داغ دئیے جائیں گے، جب وہ سرد پڑ جائیں گے تو جہنم کی آگ گرم کر کے دوبارہ داغ دینے شروع کیے جائیں گے، اور لوگوں کے درمیان فیصلہ ہونے تک پچاس ہزار سال کے دن اس کے ساتھ یہی سلوک ہوتا رہے گا، اس کے بعد اسے جہنم کا راستہ دکھایا جائے گا، یا جنت کا۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں اس کی تائید اس طرح نازل فرمائی:
{وَ الَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّہَبَ وَ الْفِضَّة وَ لَا یُنْفِقُوْنَہَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَبَشِّرْہُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ ط یَّوْمَ یُحْمٰی عَلَیْہَا فِیْ نَارِ جَہَنَّمَ فَتُکْوٰی بِہَا جِبَاہُہُمْ وَ جُنُوْبُہُمْ وَ ظُہُوْرُہُمْ ہٰذَا مَا کَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِکُمْ فَذُوْقُوْا مَا کُنْتُمْ تَکْنِزُوْنَ} (التوبة:۳۴۔۳۵)
’’جو لوگ سونا، چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں، اور اسے اللہ تعالیٰ کے راستہ میں خرچ نہیں کرتے، آپ ان کو دردناک عذاب کی بشارت دے دیں، جس دن ان کے اس مال کو جہنم کی آگ میں گرم کیا جائے گا، پھر اس سے ان کی پیشانیوں، پہلوؤں، اور پیٹھوں پر داغ دئیے جائیں گے، اور ان سے کہا جائے گا، یہ وہی مال ہے، جسے تم نے اپنے لیے جمع کر رکھا تھا، اب اپنے جمع کیے ہوئے مال کا مزہ چکھو۔‘‘
ان تین اعضاء کو داغ دینے کی وجہ یہ ہے کہ جب کوئی ضرورت مند سوال کرتا ہے، تو سب سے پہلے کراہت اور ناپسندیدگی کے آثار ان کے چہروں پر ظاہر ہوتے ہیں، اپنی پیشانیوں پر شکن ڈالتے ہیں، اور تیوری چڑھا کر سائل کو غضب ناک نظر سے دیکھتے ہیں، تاکہ وہ اپنا حق طلب کرنا چھوڑ دے، اگر ضرورت مند زیادہ توجہ دلائے، تو پہلو بدل کر دوسری طرح متوجہ ہو جاتے ہں، اگر سائل نے پھر جرأت سے کام لیا، توپیٹھ پھیر کر چل دیتے ہیں، یہ اللہ کے انعام اور فضل کی انتہائی ناسپاسی ہے، جس کا ارتکاب عموماً بخیل سرمایہ دار کرتے ہیں، بخاری شریف میں ہے:
((مَنْ اٰتَاہُ اللّٰہُ مَالًا فَلَمْ یُوَّدِّ زَکٰوتَه مُثِّلَ مَالُه یَوْمَ الْقِیَامَة، شُجَاعًا اَقْرَعَ لَه زَبِیْبَتَانِِ یُطَوَّقُه یَوْمَ الْقِیَامَة ثُمَّ یَاْخُذُ بِلَھْزِ مَتَیْه یَعْنِیْ شِدْ قِیْه فَیَقُوْلُ اَنَا مَالُکَ وَاَنَا کَنْزُکَ ثُمَّ وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَا اٰتَاھُمُ اللّٰہِ مِنْ فَضْلَه ھُوَ خَیْرًا لَّھُمْ بَلْ ھُوَ شَرٌّ لَھُمْ سَیُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِه یَوْمَ الْقِیَامَة))
’’جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے مال (سونا چاندی) دیا ہو اور اس نے اس کی زکوٰۃ ادا نہ کی ہو، تو قیامت کے دن اس کے مال کو ایک نہایت زہریلے سانپ کی شکل دی جائے گی، اور طوق کی طرح اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا، وہ اس کے منہ پر دونوں جانب ڈنگ مارے گا، اور کہے گا، میں تیرا ما ل ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں، جسے توجمع کر کے دنیا میں چھوڑ آیا، پھر آنحضرتﷺ نے اس کی تصدیق کرنے والی قرآن پاک کی یہ آیت پڑھی، جو لو گ اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے مال میں بخل سے کام لیتے ہیں، وہ ہر گز نہ سمجھیں کہ یہ ان کے لیے بہتر ہے، بلکہ یہ ان کے حق میں بدتر ہے، جس مال کے ساتھ انہوں نے بخل کیا ہے، قیامت کے دن اسے (سانپ بنا کر) ہار کی طرح ان کے گلے میں ڈال دیا جائے گا۔ ‘‘
ایک روایت میں ہے، وہ سانپ سے ڈر کر بھاگے گا، سانپ اس کے پیچھے دوڑے گا، حتی کہ وہ تھک ہار کر اپنا ہاتھ اس کے منہ میں ڈال دے گا، اور وہ اسے اونٹ کی طرح چباتا ہوا نکل جائے گا۔
مذکورہ بالا آیات و احادیث سے معلوم ہوا کہ زکوٰۃ نہ دینے والے بخیل کو قیامت کے دن قسم قسم کے عذاب میں مبتلا کیا جائے گا، کبھی اس کے سیم و زر کی چوڑی چوڑی سلاخیں بنائی جائیں گی، کبھی اس کو زہریلے سانپ کی شکل دی جائے گی، اور اس کے گلے میں طوق کی طرح ڈال دیا جائے گا، کبھی وہ اس کے آگے دوڑے گا اور سانپ اس کے پیچھے پیچھے حتی کہ بخیل تھک ہار کر اپنا ہاتھ اس کے منہ میں ڈال دے گا، جسے وہ چبا کر نگل جائے گا، اور پھر اس کے جسم کو کھا جائے گا، جیسا کہ ((ثُمَّ یُْبِعُه سَائِرَ جَسَدِہٖ)) کے الفاظ سے ظاہر ہے۔
مال کی دیگر اقسام بہائم، اجناس خوردنی اور مال تجارت کی طرح نقدی اور سونے چاندی کے مالکوں پر بھی زکوٰۃ فرض ہے، اور اس کی فرضیت کتاب و سنت اور اجماع امت سے ثابت ہے، جو شخص نقدی اور سونے چاندی کے نصاب کا مالک ہے، اور اس پر سال بھی گذر چکا ہے، پھر ہر سال اس کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتا، اور اس سلسلہ میں غفلت اور سستی سے کام لیتا ہے، اس کے لیے قرآن حکیم اور حدیث پاک میں سخت وعید وارد ہوئی ہے، جس کا ذکر اوپر کیا جا چکا ہے، یہ مال، دولت محض اللہ تعالیٰ کا انعام ہے، اس میں زکوٰۃ ادا کرنا اس انعام کا شکر ہے، اس لیے کسی مسلمان کو اس نعمت کی ناسپاسی کر کے اللہ تعالیٰ کی وعید کا خطرہ مول نہیں لینا چاہیے۔
بہائم اور اجناس خوردنی کی طرح سونے چاندی کے لیے بھی نصاب مقرر ہے، جیسا کہ مندرجہ ذیل احادیث اس سلسلہ میں وارد ہوئی ہیں:
(الف) ((عَنْ عَلِیِّ ابْنِ اَبِیْ طَالِبِ عَنِ النَّبِیَّ ﷺ قَالَ اِذَا کَانَتْ لَکَ مِائَتَا دِرْھَمٍ وَحَالَ عَلَیْھَا الْحَوْلُ فَفِیْھَا خَمْسَة دَرَاھِمَ وَلَیْسَ عَلَیْکَ شَیْئٌ فِی الذَّھَبِ حَتَّی یَکُوْنَ لَکَ عِشْرُوْنَ دِیْنَارًا وَحَالَ الْحَوْلُ فَفِیْھَا نِصْفُ دِیْنَارٍ)) (ابو داود)
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا: جب تمہارے پاس دو سو درہم ہوں، اور ان پر سال بھی گذر جائے، تو ان میں زکوٰۃ پانچ درہم ہو گی، اور جب تمہارے پاس بیس دینار سونا ہو تو سال کے بعد اس میں نصف دینار زکوٰہ ادا کرنا فرض ہے۔‘‘
(ب) ((عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ لَیْسَ فِیْمَا دُوْنَ خَمْسِ اَوَاقٍ مِنَ الْوَرِقِ صَدَقَة وَلَیصَ فِیْمَ دُوْنَ خَمْسِ ذَوْدٍ مِنَ الْاِبِلِ صَدَقَة وَلَیْسَ فِیْمَا دُوْنَ خَمْسَة اَوْسُقِ مِنَ الثَّمَرِ صَدَقَة)) (احمد ، بخاری من حدیث ابی سعید)
’’جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: ۵ اوقیہ (۲۰۰ درہم) سے کم چاندی میں زکوٰۃ نہیں ہے، اور ۵ سے کم اونٹوں میں زکوٰۃ نہیں ہے، اور ۵ وسق، تقریباً ۲۰ من سے کم غلہ میں زکوٰۃ نہیں ہے۔‘‘
ان اور کتب احادیث میں مروی دیگر بیسیوں احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ شارع علیہ السلام نے چاندی کے لیے ۲۰۰ درہم اور سونے کے لیے ۲۰ دینار مقرر کیا ہے، اور ان پر وجوب زکوٰۃ کے لیے ایک سال کی میعاد کو شرط قرار دیا ہے، ۲۰۰ درہم یعنی ۲/۱.۵۲ تولہ، اور ۲۰ دینار سونے کا وزن۲/۱.۷ تولہ ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ سونے چاندی کے مالک ہر مسلمان کے لیے اس نصاب کے مطابق زکوٰۃ ادا کرنا لازم ہے، نقدی کی زکوٰۃ چاندی کی قیمت کے مطابق ہو گی، بنا بریں چونکہ اس وقت چاندی کا نرخ ساڑھے تین روپے تولہ ہے، اس حساب سے ۲/۱.۵۲ تولہ چاندی کی قیمت رائج الوقت شرح کے لحاظ سے تقریباً ۱۸۴ روپے بنتی ہے، اس لیے نقدی کا نصاب ۱۸۴ روپے ہو گا، آج اگر کسی کے پاس اتنی یا اس سے زیادہ نقدی ہو، اور اس پر ایک سال کا عرصہ بھی گزر چکا ہو تو اس کو اس تمام رقم سے ۲/۱.۲% فی صد کے حساب سے زکوٰۃ ادا کرنی چاہیے۔
اگر کسی کے پاس سونا اور چاندی میں سے کسی کا نصاب بھی پورا نہیں ہے، تو اس کے متعلق علماء کا اختلاف ہے، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ان دونوں کو جمع کر کے نصاب پورا کیا جائے، اور اس سے زکوٰۃ ادا کی جائے، لیکن دوسرے ائمہ اس کے خلاف ہیں، ان کے نزدیک جب تک سونے اور چاندی میں سے ہر ایک الگ الگ نصاب کو نہ پہنچے، زکوٰۃ واجب نہیں ہے، ان دونوں کو باہم ملا کر نصاب پورا نہیں کیا جائے گا، اور یہ مذہب صحیح ہے کیونکہ یہ دونوں دھاتیں علیحدہ علیحدہ جنسیں ہیں، اور اسی وجہ سے ان کی باہمی بیع کمی و بیشی کے ساتھ جائز ہے، تو ان کے ضم کرنے کے لیے قوی دلائل چاہئیں جو یہاں ناپید ہے۔
اگر کسی شخص کا مال اس طرح اس کے ہاتھ سے نکل جائے، کہ اسے معلوم نہیں کہ وہ اسے واپس ملے گا یا نہیں، تو وہ مال ضمار کہلاتا ہے، مثلاً جنگل میں کسی جگہ مال دفن کیا، اور جگہ بھول گیا، یا مال سمندر میں ڈوب گیا، کا کسی نے چھین لیا، اور ثبوت نہیں ہے، کا کسی بادشاہ نے ناحق جرمانہ کر دیا یا کوئی قرض لے کر مکر گیا، اور اس کے پاس گواہ یا تحریر نہیں ہے۔
ان سب صورتوں میں اگر اسے مال مل جائے، خواہ کئی سال کے بعد ملے تو ایک سال کی زکوٰۃ دینا ہو گی، ملنے سے پہلے گذشتہ سالوں کی زکوٰۃ نہیں پڑے گی، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ مؤطا میں لکھتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیز نے کسی ظالم حاکم سے چھینا ہوا مال مظلوم کو واپس دلوایا۔ اور لکھا کہ مال کا مالک گذشتہ سالوں کی زکوٰۃ دے، لیکن اس کے بعد معاً دوسرا فرمان بھیجا کہ صرف ایک سال کی زکوٰہ دی جائے، یہ مال ضمار تھا، چنانچہ ہدایہ میں ہے:
((مَنْ کَانَ لَه عَلٰی اٰخَرَ دَیْنٌ فَجَعَدَہٗ سِنِیْنَ ثُمَّ قَامَتْ بِه بَیِّنَة یُزَکِّه لِمَا مَضٰی مَعْنَاہُ صَارَتْ لَه بَیِّنَة بِاَنْ اَقَرَّ عِنْدَ النَّاسِ وَھِیَ مَسْأَلَة مَالِ الضِّمَارِ)) (ص۱/۱۶۹)
’’جس نے کسی سے قرض لینا ہو، اور مقروض کئی سال تک انکار کرتا رہے، پھر اس کا ثبوت مل جائے، جس کے نتیجہ میں مال وصول ہو جائے، تو وہ گذشتہ سالوں کی زکوٰۃ ادا نہ کرے۔، مصنف کہتے ہیں کہ ثبوت ملنے کا یہ مطلب ہے کہ مقروض کہیں لوگوں کے سامنے اقرار کر بیٹھے اور یہ مال ضمار کا مسئلہ ہے۔‘‘
اگر کسی شخص نے کسی کو قرض دیا، اور کئی سال بعد وصول ہوا، تو اس پر ایک سال کی زکوٰۃ ہے، گذشتہ سالوں کی زکوٰۃ نہیں دینا پڑے گی، اگر اسے نصاب کے مطابق رقم وصول نہیں ہوئی، لیکن اس کے پاس کچھ نقدی یا مال تجارت موجود ہو، جس میں زکوٰۃ واجب ہے، تو قرض کی رقم اس میں جمع کر کے زکوٰۃ دے، اگر اس کے پاس نقدی وغیرہ کچھ نہیں، تو پھر قرض کی وصول شدہ رقم یاد کرھے، اس کے بعد جب اسے اتنی رقم ملے کہ پہلی اور پچھلی مل کر ۲/۱.۵۲ تولہ چاندی یا ۲/۱.۷ تولہ سونے کو پہنچ جائے، تو اس کی زکوٰۃ ادا کرے، پھر جو رقم اسے تھوڑی بہت ملتی جائے، حساب کے مطابق اس کی زکوٰہ ادا کرتا جائے۔
اگر کسی مقروض کے پاس اس قدر سامان ہے کہ اس سے اس کا قرض ادا ہو سکتا ہے، لیکن اس کے علاوہ اس کے پاس نصاب کے مطابق نقد روپیہ بھی ہے، تو وہ نقد روپیہ کی زکوٰۃ دے، اگر قرض اتنا زیادہ ہے، کہ نقد اور اسباب دونوں سے پورا ہو سکتا ہے، تو اس پر زکوٰۃ نہیں۔ (مؤطا)
یتیم کے مال میں زکوٰۃ فرض ہے، سرپرست پر لازم ہے کہ ہر سال اس کے مال سے زکوٰۃ ادا کرے، حدیث شریف میں آیا ہے:
((عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍ وَاَنَ النَّبِیَّ ﷺ خَطَبَ النَّاسَ فَقَالَ اَلَا مَنْ وَلِیَ یَتَیْمًا لَه مَالٌ فَلْیَتَّجِرْ فِیْه وَلَا یَنْزُ کَه حَتّٰی تَأکُلَه الصَّدَقَة)) (رواہ الترمذی، مشکوٰۃ)
’’عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے خطبہ دیا، اور فرمایا: لوگو! آگاہ ہو ، جس کی زیر نگرانی کوئی مالدار بچہ ہو، وہ اس کا مال تجارت میں لگائے، ایسا نہ ہو کہ اس کو آہستہ آہستہ زکوٰۃ ختم کر دے۔‘‘
نیز مؤطا میں ہیـ:
((اِنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالَ اِتَّجِرُوْا فِیْ اَمْوَالِ الْیَتَامٰی لَا تَاْکُلُه الزَّکوٰة)) (مؤطا)
’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یتیموں کے مال میں تجارت کرو، اسے زکوٰۃ نہ کھا جائے۔ ‘‘
((عَنِ الْقَاسِمِ کَانَتْ عَائِشَة تَلِیْنِیْ وَاَخَالِیْ یَتِیمِیْنِ فِیْ حَجْرِھَا فَکَانَتْ تُخْرِجُ مِنْ اَمْوَالِنَا الزَّکوٰة)) (موطأ)
’’قاسم کہتے ہیں کہ میں اور میرا بھائی یتیمی کی حالت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی زیر نگرانی تھے وہ ہمارے مال سے زکوٰۃ نکالا کرتی تھیں۔‘‘
نیز قاسم کہتے ہیں، کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنی زیر سرپرستی کا مال تجارت میں لگا رکھا تھا۔
مذکورہ بالا حدیث اور آثار سے معلوم ہوا، کہ یتیم کے مال میں زکوٰۃ فرض ہے، فرضیت زکوٰۃ پر دلالت کرنے والی آیات قرآنیہ اور احادیث صحیحہ سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے، کیونکہ ان میں چھوٹے اور بڑے کے درمیان فرق نہیں کیا گیا، بلکہ ان میں بتایا گیا ہے، کہ غنی پر زکوٰۃ فرض ہے، جہاں غنا پائی جائے گی، زکوٰۃ فرض ہو گی، اس مسئلہ میں علماء کے درمیان اختلاف ہے، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ، امام احمد رحمۃ اللہ علیہ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور جمہور علماء کا مذہب ہے کہ یتیم کے مال میں زکوٰۃ فرض ہے، امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور چند دیگر علماء کہتے ہیں کہ یتم کے مال میں زکوٰۃ فرض نہیں ہے، لیکن یہ مذہب مرجوح ہے، یہ عجیب بات ہے کہ امام صاحب یتیم کی کھیتی باڑی میں اور باغات کے پھلوں میں عشر واجب بتاتے ہیں، اور اس کے مال میں صدقۃ الفطر کے وجوب کے بھی قائل ہیں، مگر سونے چاندی میں زکوٰۃ نہیں مانتے۔
حضرت عبدا للہ بن مسعود رضی اللہ عنہ امام سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ اور امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یتیم کے مال میں زکوٰۃ فرض ہے، مگر سر پرست ہر سال کی زکوٰۃ کا حساب محفوظ رکھے، جب لڑکا بالغ ہو، تو اسے بتا دے کہ تمہارے مال میں گزشتہ سالوں کی اتنی زکوٰۃ واجب الادا ہے، اب یہ لڑکے کا کام ہے کہ زکوٰۃ دے یا نہ دے، سرپرست خود زکوٰۃ نہیں دے سکتا، یہ مذہب بھی مرجوح ہے، مذکورہ دلائل کے پیش نظر سرپرست کو چاہیے کہ وہ ہر سال وقت پر زکوٰۃ ادا کرے۔
سونے چاندی کے زیورات میں زکوٰۃ فرض ہے، اس کے متعلق خاص احادیث و آثار کے علاوہ کتاب و سنت کے عموم سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے، قرآن حکیم میں ہے:
{وَ الَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّہَبَ وَ الْفِضَّة وَ لَا یُنْفِقُوْنَہَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَبَشِّرْہُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ} (التوبۃ:۳۴)
’’یعنی جو لوگ سونا، چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں، اور اسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، اے رسول! آپ انہیں دردناک عذاب کی بشارت دے دیں۔‘‘
حدیث شریف میں ہے:
((قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ وَفِی الرَِّقَة رُبُعُ الْعَشْرِ)) (بخاری)
’’رسول اللہﷺ نے فرمایا: کہ چاندی میں چالیسواں حصہ (۲/۱.۲%) زکوٰۃ فرض ہے۔‘‘
((وَقَالَ لَیْسَ فِیْمَا دُوْنَ خَمْسِ اَوَاقٍ مِنَ الْوَرِقِ صَدَقَة فَاِذَا بَلَغَ مِائَتِیْ دِرْھَمٍ فَفِیْھَا خَمْسَة دَرَاھِمَ))
’’پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکوٰۃ نہیں ہے، جب ۲۰۰ درہم ہو جائیں تو ان میں سے۵ درہم زکوٰۃ واجب ہے۔‘‘
حدیث کے یہ الفاظ ذکر کر کے حافظ ابن حزم لکھتے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ سونے چاندی میں زکوٰۃ ہے، اور سونے چاندی کے زیور بھی سونا چاندی ہیں، ان کو کسی نص اور اجماع نے زکوٰۃ سے مستثنیٰ نہیں کیا۔ (المحلی: ص ۸۰/۶)
آنحضرتﷺ نے زیوارت سے زکوٰۃ نہ دینے پر بڑی وعید بیان فرمائی ہے، چنانچہ مندرجہ ذیل احادیث میں ہے:
(الف) ((عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍ وَاَنَّ اِمْرَأَة اَتَتِ النَّبِیَّ ﷺ وَمَعَھَا اِبْنَة لَھَا وَفِیْ یَدِ اِبْنَتِھَا مَسْکَتَانِ غَلِیْظَانَ مِنْ ذَھَبٍ فَقَالَ لَھَا اَتُعْطِیْنَ زَکٰوة ھٰذَا قَالَتْ لَا قَالَ اَیَسُرُّکِ اَنْ یُسَوِّرَکِ اللّٰہِ سِوَارًا مِنْ نَارٍ قَالَ فَخَلَعَتْہُمَا وَاَالْقَتْہُمَا اِلَی النَّبِیِّ ﷺ قَالَتْ ھُمَ للّٰہِ وَرَسُوْلِه)) (ابو داود، نسائی)
’’عبدا للہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک عورت آنحضرت ﷺ کے پاس آئی جس کے ساتھ اس کی بیٹی تھی، اس کے ہاتھ میں سونے کے دو موٹے موٹے کنگن تھے، آپ نے پوچھا، اس کی زکوٰۃ بھی دیتی ہو؟ اس نے نفی میں جواب دیا، آپ نے فرمایا: کیا تمہیں یہ پسند ہے، کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان کے بدلہ میں تمہیں آگ کے کنگن پہنائے ؟ راوی کا بیان ہے کہ یہ سنتے ہی اس نے دونوں کنگن اتار دئیے، اور آنحضرت ﷺ کے سامنے رکھ دئیے اور بولی کہ میں ے یہ دونوں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی راہ میں دے دئیے۔‘‘
(ب) ((عَنْ اُمِّ سَلْمَة قَالَتْ کُنْتُ اَلْبَسُ اَوْ ضَاحًا مِنْ ذَھَبٍ فَقُلْتَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَکَنْزٌ ھُوَ؟ فَقَالَ مَا بَلَغَ اَنْ تُؤَدّٰی زَکوٰتُه فَزُکِّی فَلَیْسَ بِکَنْزٍ رَوَاہُ مَالِکٌ وَاَبُوْ دَاوٗدَ)) (مشکوٰۃ)
’’حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، میں سونے کی پازیبیں پہنا کرتی تھی، میں نے پوچھا یا رسول اللہ! کیا یہ کنز (سونا چاندی جمع کردہ) ہے، آپ نے فرمایا: جو زکوٰۃ کے نصاب کو پہنچ جائے، اور اس کی زکوٰۃ ادا کی جائے ، تو وہ کنز نہیں ہے۔‘‘
(ج) ((عَنْ عَائِشَة رضی اللّٰہ عنہا قَالَتْ دَخَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ فَرَاٰی فِی یَدِیْ فَتَخاتٍ فَقَالَ مَا ھٰذَا یَا عَائِشَة؟ فَقُلْتَ صَنَعْتُھُنَّ اَتَزَیَّنُ لَکَ بِھِنَّ یَا رَسُوْلُ اللّٰہِ قَالَ اَتُؤَدِّیْنَ زَکٰوتَھُنَّ فَقُلْتَ لَا قَالَ ھُنَّ حَسْبُکِ مِنَ النَّارِ)) (ابو داود، دارقطنی)
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں، آنحضرتﷺ گھر تشریف لائے، اور میرے ہاتھ میں بڑی بڑی انگوٹھیاں دیکھیں، اور پوچھا، عائشہ رضی اللہ عنہا! یہ کیا ہے؟ میں نے کہا یہ زیور میں نے آپ کی خاطر خوبصورتی حاصل کرنے کے لیے بنوائے ہیں، آپ نے فرمایا: ان کی زکوٰۃ بھی ادا کرتی ہو، میں نے کہا نہیں، آپ نے فرمایا: پھر آگ کی سزا کے لیے تجھے یہی کافی ہے۔‘‘
واضح رہے کہ یہ روایات صحیح اور قابل حجت ہیں، تفصیل کے لیے عون المعبود تحفۃ الاحوذی وغیرہ ملاحظہ ہوں۔
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ زیورات کی زکوٰۃ دینی لازم ہے، ان کی زکوٰۃ نہ دینے والے بڑے خطرے میں ہیں، صحابہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ، عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ زیورات میں وجوب زکوٰۃ کے قائل ہیں۔
اور ائمہ دین میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ، سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ ، عبدا للہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی ایک قول ہے، ہد ایہ میں ہے:
((وَفِیْ تِبْرِ الذَّھَبِ وَالْفِضَّة وَحُلِّیْھَا وَاَوَا نِیْھِمَا الزَّکٰوة))
’’سونے چاندی کی ڈلی ، ان کے برتنوں اور زیورات میں زکوٰۃ ہے۔‘‘
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ، امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور ایک قول میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، کہ سونے چاندی کے زیورات میں زکوٰۃ واجب نہیں، یہ حضرات قیاس اور بعض صحابہ کے اقوال سے استدلال کرتے ہیں، مگر صحیح حدیث کے ہوتے ہوئے قیاس اور آثار کا قطعاً اعتبار نہیں ہے، کتاب و سنت کے نصوص کی روشنی میں پہلا مذہب راجح اور دوسرا مذہب مرجوح ہے، اس لیے جن لوگوں کے پاس زیوارت نہیں، انہیں ہر سال زیورات کی زکوٰۃ بالالتزام ادا کرنی چاہیے وہ اپنے زیورات کا وزن کریں، اگر سونے کے زیورات ۲/۱.۷ تولہ اور چاندی کے ۲/۱.۵۲ تولہ یا اس سے زیادہ ہو جائیں تو ان کی قیمت سے ۲/۱.۲% کے حساب سے زکوٰۃ ادا کریں۔
(۱) جن کے پاس نصاب کے مطابق رقم ہے، پھر سال پورا ہونے تک اس میں اضافہ ہی ہوتا رہتا ہے، نصاب سے کم نہیں ہوتی، تو ہر سال پورا ہونے پرساری رقم میں زکوٰۃ واجب ہو گی، کیونکہ حولان حول کی شرف نصاب کے لیے ہے، دوران سال میں حاصل ہونے والی رقم کے لیے نہیں، جیسے کی کے پاس ۲۰۰ سو روپیہ ہے، پھر ماہ بماہ اس میں اضافہ ہوتا جائے، حتی کہ سال پورا ہونے تک وہ رقم دو ہزار ہو جاتی ہے، تو دو ہزار کی زکوٰۃ دی جائے گی۔
(۲) جو آدمی نقدی یا تجاری مال کی زکوٰۃ ادا کرے، پھر چھ ماہ بعد اسے ورثہ یا ہبہ کی صورت میں کچھ رقم مل جائے، تو اسے عرف عام میں مال مستفاد کہتے ہیں، تو اس پر پہلے مال کے ساتھ اس کی زکوٰۃ دینی ضروری نہیں، بلکہ اس کی تحویل میں آنے کے ایک سال بعد اس رقم میں زکوٰہ واجب ہو گی، ہاں اگر اپنی آسانی کے لیے مال کے ساتھ زکوٰۃ دینا دچاہے تو جائز ہے۔
(۳) اگر بیوی کا مال الگ ہے، تو اسے اپنے مال کی زکوٰۃ خود ادا کرنا ہو گی، شوہر پر اس کی ذمہ داری نہیں ہے، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی نہ صرف یہ کہ وہ اپنے مال کی خود زکوٰۃ ادا کرتی تھیں، بلکہ اس نے آنحضرتﷺ سے پوچھا، یا رسول اللہ! میرا خاوند غریب ہے، میں اپنی زکوٰۃ اسے دوں، تو ادا ہو جائے گی، آپ نے اثبات میں جواب دیا،ا ور فرمایا: بیگانوں کو دینے کے بجائے اپنے خاوند کو دینے میں تمہیں دوگنا ثواب ملے گا، ایک زکوٰۃ دینے کا، دوسرا صلہ رحمی کا۔
ہر قسم کے تجارتی مال میں زکوٰۃ فرض ہے، اور اس کے ادا کرنے کے لیے حولان حول کی شرط ہے، حدیث شریف میں آتا ہے:
((عَنْ سَمُرَة بْنِ جُنْدُبِ اَنَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ کَانَ یَاْمُرُنَا اَنْ نُّخْرِجَ الصَّدَقَة مِنَ الّذِیْ نُعِدُّ لِلْبَیْعِ)) (مشکوٰۃ، ابو داود)
’’سمرہ بن جند ب کہتے ہیں کہ جو مال ہم تجارت کے لیے تیار کرتے تھے، آنحضرتﷺ ہمیں اس سے زکوٰۃ دینے کا حکم فرمایا کرتے تھے۔‘‘
ایک شخص حماس نامی رنگے ہوئے کپڑوں اور تیر محفوظ رکھنے کے لیے ترکشوں کی تجارت کیا کرتا تھا، وہ کہتا ہے:
((اِنَّ عُمَرَ قََالَ لَه قَوِّمْھَا یَعْنِیْ الْاُدُمَ وَالْجِعَابَ وَاَدِّ زَکَاتَہَا)) (کتاب الاموال لابی عبید وسنن البیھقی)
’’امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا ان چمڑوں اور ترکشوں کی قیمت لگائو، اور ان کی زکوٰۃ ادا کرو۔‘‘
ابن قدامہ کہتے ہیں، اس جیسا واقعہ مشہور ہوتا ہے، چونکہ ا س پر کسی صحابی کا انکار مروی نہیں، لہٰذا اس پر اجماع ہوا (المغنی) ۔ ہدایہ میں ہے۔
((اَلزَّکٰوة وَاجِبَة فِیْ عُرُوْضِ التِّجَارَة کَائِنَة مَّا کَانَتْ اِذَا بَلَغَتْ قِیْمَتُھَا نِصَابًا مِنَ الْوَرِقِ اَوِ الذَّھَبِ)) (ج۱ ص ۱۷۷)
’’زکوٰۃ ہر قسم کے سامان تجارت میں واجب ہے، جب اس کی قیمت سونے چاندی کے نصاب کو پہنچ جائے۔‘‘
مذکورہ بالا دلائل سے معلوم ہوا کہ ہر قسم کے تجارتی مال پر زکوٰۃ فرض ہے، اور اس پر علماء کا اتفاق ہے۔
حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ’’معدودے چند افراد کے سوا ائمہ اربعہ اور دیگر تمام ائمہ دین اس بات پر متفق ہیں کہ تجارت کے سامان میں زکوٰۃ واجب ہے، خواہ تاجر مقیم ہوں یا مسافر ، ارزانی کے وقت سامان خرید کر گرانی کا انتظار کرنے والے تاجر ہوں، یا عام دکاندار جو رہ وقت اور ہر نرخ پر خرید و فروخت میں مصروف رہتے ہیں، تجارت کا مال نئے یا پرانے کپڑے ہوں، یا کھانے پینے کا سامان، ہر قسم کا غلہ، پھل ، فروٹ، سبزی، گوشت وغیرہ، مٹی، چینی، دھات وغیرہ کے برتن ہوں یا جاندار چیزیں ، غلام یا گھوڑے، خچر اور گدھے وغیرہ، گھر میں پلنے والی بکریاں ہوں، یا جنگل میں چرنے والے ریوڑ، غرض تجارت کے ہر قسم کے مال میں زکوٰۃ فرض ہے۔ (القواعد النورانیۃ الفقہیہ لابن تیمیہ ص ۹۰)
(۱) زمین سے پیدا ہونے والے غلہ سے جو حصہ بطور زکوٰہ ادا کیا جاتا ہے، عشر کہلاتا ہے، عشر کا معنی ہے، دسواں حصہ، بعض حالات میں زمین کی پیداوار کا دسواں حصہ واجب الادا ہوتا ہے، اس لیے اس کا نام عشر رکھا گیا ہے۔
(۲) جو کھیتی یا باغ بارش، چشمہ یا نہر کے پانی سے سیراب ہو، اور اسے تیار کرنے کے لیے کسی آلہ یا مشین سے پانی کھینچ کر دینے کی ضرورت نہ پڑے، یا ایسی زمین میں بوئی جائے، جس میں پانی سطح زمین کے قریب ہے، اور کھیتی یا درخت اپنی جڑوں کے ذریعہ پانی چوس کر نشوونما حاصل کرلیں، تو ایسی کھیتی یا باغات کے پھلوں میں عشر واجب الادا ہوتا ہے، اور جس کھیتی یا باغ کے پکانے اور تیار کرنے میں رہٹ، مشین یا کسی دوسرے مصنوعی آلہ کے ذریعے کھینچ کر پانی دینے کی ضرورت ہو، اس میں نصف عشر (بیسواں حصہ) ہے، اس تفصیل کی وضاحت درج ذیل احادیث شریفہ میں کی گئی ہے:
(الف) ((عَنْ عَبْدُ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِیَّ ﷺ فِیْمَا سَقَتِ السَّمَائُ وَالْعُبُوْنَ اَوْ کَانَ عَثَرِیَّ الْعُشْرُ وَمَا سُقِیَ بِالنَّصْحِ نِصْفُ الْعَشْرِ)) (رواہ البخاری ، مشکوٰۃ)
(ب) ((اَنَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ قَالَ فِیْمَا سَقَتِ السَّمَائُ وَالْاَنْہَارُ وَالْعُیُوْنُ اَوْ کَانَ بَعْلًا اَلْعُشْرُ وَمَا سُقِیَ بِاالسَّوَا فِی وَالنَّضْحِ نِصْفُ الْعُشُرِ)) (رواہ النسائی، مشکوٰۃ)
’’یعنی عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو کھیتی، بارش اور چشموں سے سیراب ہوئی ہو، یا وہ بارانی ہو، اس میں عشر (دسواں حصہ) ہے، اور جو زمین جانوروں کے ذریعہ یا کسی دوسرے طریقہ سے پانی کھینچ کر سیراب کی جائے، اس میں نصف عشر (بیسواں حصہ) ہے۔‘‘
دونوں حالتوں میں کاشتکار کی محنت کا لحاظ رکھا جاتا ہے، چونکہ پہلی صور ت میں محنت کم ہے، اس لیے زکوٰۃ زیادہ ہے، یعنی پیداوار کا دسواں حصہ دوسری صورت میں محنت زیادہ، یا پانی قیمتاً خریدنا پڑتا ہے، جیسے نہری علاقوں میں آبیانہ ادا کیا جاتا ہے، یا اس کے حصول میں اخراجات بڑھ جاتے ہیں، جیسا کہ بجلی یا انجن سے چلنے والے ٹیوب ویل میں عموماً خرچ ہوتا ہے، تو ایسی صورت میں زکوٰۃ کم ہے، اسے (دسواں حصہ سے گھٹا کر بیسواں حصہ کر دیا گیا ہے، اگر کھیتی یا باغ کے تیار ہونے میں اول یعنی (بارش ، نہر، چشمہ) اور دوسری قسم یعنی (رہٹ، ٹیوب ویل وغیرہ) کے ذرائع آب پاشی کا حصہ مساوی ہے، جیسے کچھ بارش ہو گئی اور کبھی رہٹ وغیرہ چل کر پانی دینا پڑا۔ تو ا س صورت میں زکوٰۃ دسواں حصہ میں سے تین حصے دینا ہو گی، مثلاً بارانی فصل میں زکوٰۃ دو من ہے، تو اس صورت میں ڈیڑھ من دینا پڑے گا، اگر زیادہ تر بارش ہوتی ہے، لیکن ایک آدھ دفعہ رہٹ یا ٹیوب ویل سے بھی کھیتی سیراب ہوتی ہے، یا زیادہ تر ٹیوب ویل سے کام لیا جاتا ہے۔ اور پانی کھینچ کر دیا جاتا ہے اور کبھی بارش بھی ہو جاتی ہے، تو ایسی صورت میں اکثر کا اعتبار ہو گا، پہلی حالت میں عشر (یعنی دسواں حصہ) اور دوسری صورت میں نصف عشر (یعنی بیسواں حصہ ) لازم ہو گا۔
امام ابن قدامہ لکھتے ہیں کہ اس مسئلہ میں کوئی مخالفت نہیں (المغنی) علامہ زرقانی نے بھی اس پر اتفاق نقل کیا ہے۔ (زرقانی شرح مؤطاص ۲۴۸/۱)
(۳) ز میں کی پیداوار سے عشر نکلانے کے لیے شریعت نے نصاب مقرر کر دیا ہے جس کی پابندی لازمی ہے، اگر غلہ اس نصاب کو پہنچ جائے، تو عشر واجب ہو گا، اور اگر نصاب سے کم رہے تو عشر واجب نہیں،چنانچہ حدیث میں ہے۔
((عَنْ اَبِیْ سَعِیْدِنِ الْخُدْرِیْ عَنْ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ قَالَ لَا یَحِلُّ فِی الْبُرِّ وَالثَمَرِ زَکٰوة حَتّٰی یَبْلُغَ خَمْسَة اَوْسُقٍ وَفِی لَفْظٍ لَیْسَ فِیْ حَبِّ وَلَا تَمَرٍ صَدَقَة حَتّٰی یَبْلُغَ خَمْسَة اَوْسُقٍ)) (نسائی شریف مع التعلیقات السفیۃ ص ۲۸۱ و بخاری اصح المطابع ص ۲۰۱ ج۱)
’’یعنی آنحضرت ﷺ نے فرمایا، گندم ، کھجور اور دانہ جب تک پانچ وسق (تقریباً ۲۰ من) نہ ہو، اس میں زکوٰہ و عشر واجب نہیں۔‘‘
بعض لوگ آیت قرآن{وَمِمَّا اَخْرَجْنَا لَکُمْ مِنَ الْاَرْضِ}الایۃ اور حدیث شریف ((فِیْمَا سَقَتِ السَّمَائُ وَالْعُیُوْنُ)) الخ کے عموم سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ زمین سے پیدا ہونے والی اجناس خوردنی میں کوئی نصاب نہیں ہے، بلکہ زمین سے پیدا ہونے والی ہر تھوڑی یا بہت چیز میں عشر یا نصف عشر واجب ہے، اگر زمین سے دس سیر گندم پیدا ہوئی ہے، تو اس میں سے ایک سیر یا آدھ سیر دینا واجب ہے، مگر یہ مسلک بجز امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر علماء کے کسی نے اختیار نہیں کیا، جمہور علماء اس کے خلاف ہیں اور جمہور کا مذہب ہی صحیح ہے، کیونکہ آیت کریمہ اور حدیث شریف کے عموم کے پانچ وسق والی حدیث نے تخصیص کر دی ہے، چنانچہ امام بخاری پہلے حدیث ((فیما سقت السماء والعیون)) اور اس کے بعد پانچ وسق والی حدیث ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں۔
((قَالَ اَبُوْ عَبْدُ اللّٰہِ ھٰذَا تَفْسِیْرُ الْاَوَّلِ حَدِیْثِ ابْنِ عُمَرَ سَقَتِ السَّمَائُ اَلْعُشْرُ وَبَیَّنَ فِیْ ھٰذَا وَوَقَّتَ وَالزِّیَادَة مَقْبُوْلَة وَالْمُفَسِّرُ یَقْضِیْ علی الْمُبْھِمْ اِذَا رَوَاہُ اَھْلُ التَثَبَّتُ)) (بخاری شریف اصح المطابع ص۲۰۱/۱)
’’یعنی ابو عبد اللہ (امام بخاری )نے کہا اس (پانچ وسق والی حدیث نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث (بارش سے پکنے والی کھیتی میں عشر ہے) کی تفسیر کر دی ہے، اور زمین سے پیدا ہونے والی قابل عشر جنس کا نصاب مقرر فرما دیا ہے، یہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے زائد بات ہے، جو مقبول ہے جب اہل حفظ و اتقان کوئی مفسر حدیث بیان کریں، تو مبہم روایت کے ابہام کو دور کر دیتی ہے۔‘‘
نصاب سے زائد قلیل و کثیر سب میں زکوٰۃ ہے، ((وَمَا زَادَ فَبِحِسَابٍ ذٰلِکَ)) ۱۹ من میں نصاب سے کم ہونے کی وجہ سے عشر واجب نہین، لیکن ۲۰ من سے زائد ایک من، بلکہ ۱۰ سیر ۲۰ سیر میں بھی عشر واجب ہے،چنانچہ عشر کی صورت میں ایک من میں ۴ سیر اور نصف عشر میں ۲ سیر دینا لازم ہے۔
جن اشیاء میں عشر یا زکوٰۃ واجب ہے، ان کی مجمل فہرست مع مختصر احکام ترتیب وار درج ذیل ہیں۔
احادیث میں آنحضرتﷺ اور خلفائے راشدین کے زمانہ میں پھلوں میں صرف کھجور اور انگور کی زکوٰۃ لینے کا ذکر آتا ہے، اس کے علاوہ کسی پھل سے عشر نہیں لیا گیا، چنانچہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ان دونوں کے احکام ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
((اَلسُّنَّة الَّتِیْ لَاخْتِلَاف۔ فِیْھَا عِنْدَنَا وَالَّذِیْ سَمِعْتُ اَحْدَ الْعِِلْمِ اَنَّه لَیْسَ فِیْ شَیْئٍ مِنَ الْفَوَاکِہِ کُلِّھَا صَدَقَة)) (موطا مع زرقانی ص ۳۶۹)
’’یعنی وہ طریقہ جس میں ہمارے نزدیک کوئی اختلاف نہیں، یہ ہے کہ (کھجور اور انگور کے علاوہ) کسی قسم کے پھل میں عشر واجب نہیں، اور ایسا ہی میں نے اہل علم سے سنا ہے۔‘‘
ان دونوں پھلوں کی زکوٰہ کا طریقہ یہ ہے کہ پھل پکنے کے قریب صاحب فراست عامل باغ میں گھوم پھر کر تمام پھل دیکھے، اور انداز لگائے کہ اس باغ میں ترازہ اور تر پھل کتنے من ہیں، اور خشک ہونے کے بعد کتنے رہ جائیں گے، مثلاً ایک باغ کا اندازہ لگایا کہ اس میں تر پھل ۱۵۰ من ہیں، خشک ہونے کے بعد یہ ایک سو من رہ جائیں گے، سو من میں عشر ۱۰ من اور نصف عشر ۵ من ہے، یہ تفصیل اپنے رجسٹر میں درج کرے، پھر جب پھل کٹ کر خشک ہو جائیں، تو اگر عشر یا نصف عشر وصول کرے، عشر میں خشک کھجور اور منقی لیا جائے گا، تازہ پھل نہیں لیے جائیں گے، یہ تفصیل حدیث میں یوں ہے:
((عَنْ عُتَّابِ بْنِ اُسَبْ قَالَ اَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ اَنْ یُخْرَصَ الْعِنَبُ کَمَا یَخْرَصُ النَّخْلُ وَتُؤْخَذُ زَکٰوتُه زَبِیْبًا کَمَا تُؤْخَذُ صَدَقَة النَّخْلِ تَمْرًا)) (ابو داود مع عون المعبود ص ۶۴ ج۲)
’’یعنی عتاب بن اسید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے حکم جاری فرمایا کہ انگور کا اندازہ کھجور کی طرح لگایا جائے، اور اس کی زکویۃ منقٰہ کی صورت میں لی جائے، جیسا کہ کھجورکی زکوٰۃ خشک کھجور سے وصول کی جاتی ہے۔‘‘
کھجور و انگور کے اندازہ کرنے کے بعد اب باغ کا مالک آزاد ہے، کہ اپنا پھل تازہ بتازہ بیچ دے، خود کھائے یا دوست و احباب کو تحفے میں دے دے۔
اندازہ کا یہ طریقہ فریقین (فقراء اور اصحاب مال) یہ پھل خشک اور تازہ دونوں کھائے جاتے ہیں، اس لیے اگر اندازہ کے بغیر ان کے استعمال کی اجازت ہوتی تو فقراء کا سراسر نقصان تھا، اور اگر عشر ادا کیے بغیر ان کے استعمال سے روک دیا جاتا تو اصحاب مال خسارہ میں رہتے اور طرح طرح کی مشکلات میں مبتلا ہو جاتے، اندازہ لگانے سے فقراء کے نقصان کا خطرہ جاتا رہا، اور اصحاب مال کے لیے بھی کوئی وقت باقی نہ رہی، اس طریقہ کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس میں صاحب مال کی ہیرا پھیری اور خیانت کا اندیشہ باقی نہیں رہتا، فقراء کا حق اس کے ذمہ متعین ہو جاتا ہے، عامل وقت پر اگر وصول کرے گا،شریعت کی طرف سے اس سلسلہ میں ارباب مال کو ایک رعایت بھی دی گئی ہے، جس کا ذکر حدیث میں یوں آیا ہے:
((عَنْ سَھْلِ بْنِ اَبِیْ حَثَمَة قَالَ اَمَرَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ اِذَا خَرَصْتُمْ فَجُرُّوْا فَدَعَوْ الثُّلُثَ فَاِنْ لَمْ تَدَعُوْا الثُّلُثَ فَدَعُوا الرُّبْعَ)) (ابو داود مع عون المعبود ص ۲۴ ج ۲)
’’یعنی جب کسی باغ کا اندازہ لگائو، تو تیسرا حصہ چھوڑ دو، اگر تیسرا حصہ نہ چھوڑو تو چوتھا حصہ چھوڑ دو۔‘‘
اس کے دو معنی ہیں، اصل اندازے سے تیسرا یا چوتھا حصہ چھوڑ دو، یا عشر لیتے وقت عشر سے تیسرا یا چوتھا حصہ چھوڑ دو، مثلاً کسی باغ کے خشک پھل کا اندازہ ۱۰۰ من ہے، تو اس سے ۳۳ یا ۲۵ من چھوڑ دو، یا اس کے عشر، ۱ من سے ۴/۱.۴ من یا ۲/۱.۲ من چھوڑ دو، کیونکہ باغ والے کو اپنے طور پر بھی غربائ، مساکین اور مزدور پیشہ لوگوں سے ہمدردانہ سلوک کرنا پڑتا ہے، نیز دوست و احباب، خویش و اقارب کے حقوق بھی ادا کرنا ہوتے ہیں۔
ان کے علاوہ دوسری قسم کے پھل جیسے سنگترہ، مالٹا، ناشپاتی، آڑو، خربوزے، تربوز، اور آم وغیرہ جو چند دن کے مہمان ہوتے ہیں، عشر زکوٰۃ سے مستثنیٰ ہیں ان کے مالک ان پھلوں کو بیچیں، سال کے بعد ان کی قیمت سے جو کچھ بچ رہے، اس کی زکوٰۃ دیں۔
(۲) اجناس خوردنی اور ہر قسم کا غلہ جو انسان کی خوراک بنتا ہے، جیسے گندم، چاول، مکئی، باجرہ، جو، چنا اور جوار وغیرہ، ان میں سے جو قسم نصاب کو پہنچ جائے، اس میں یہ تفصیل مذکورواجب ہے، نصاب کو نہ پہنچے تو عشر نہیں ہے، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک گندم، چھلکا دار اور بغیر چھلکا کے جو اگر علیحدہ علیحدہ نصاب کو پہنچتے ، اور سب کو جمع کرنے سے نصاب پورا ہو جاتا ہے، تو عشر واجب ہے۔
(۳) ہر قسم کی دالیں جیسے چنے، ماش، مونگی اور مسور اور مٹر وغیرہ امام مالک اور دوسرے ائمہ کا اس میںبھی اختلاف ہے، امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر ائمہ کے نزدیک ان میں جو قسم نصاب کو پہنچ جائے گی، اس میں عشر واجب ہے اور جو نصاب کو نہیں پہنچے گی، اس میں عشر واجب نہیں، ان کو جمع کر کے نصاب پورا نہیں کیا جائے گا، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک علیحدہ علیحدہ یا سب مل کر نصاب کو پورا کر دیں، دونوں صورتوں میں عشر واجب ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے مختلف دالوں کو جمع کر کے عشر لیا ہے، مگر صحیح یہ ہے کہ جب ان کی شکل و صورت، ان کے خواص اور ان کے نام الگ الگ ہیں، تو ان کو جمع کرنا چاہیے، بلکہ جو قسم نصاب کو پہنچ جائے، اس میں عشر واجب ہے، ورنہ نہیں۔
(۴) گڑ، شکر اور چینی میں یہ تینوں مل کر یا الگ الگ نصاب کو پہنچ جائیں، دونوں صورتوں میں عشر واجب ہے، کیونکہ یہ تینوں ایک ہی چیز کے مختلف شکلیں ہیں۔
(۵) تیل نکالنے کے بیج مثلاً توریا، سرسوں، تارا میرا اور ارنڈی وغیرہ، زیتوں بھی ایک قسم کے دانے ہیں، جو عرب ممالک شام و لبنان میں بکثر پیدا ہوتے ہیں، برصغیر پاک وہند میں پیدا نہیں ہوتے، ان سے زیتون کا تیل حاصل کیا جاتا ہے، یہ دانے کسی اور طریقے سے استعمال نہیں ہوتے، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے مؤطا میں اس کیع شر کا یہ طریقہ بتایا ہے کہ اگر کسی کے کھیت سے ۲۰ من (پانچ وسق) زیتون کے دانے ہوں، تو مالک ان کا تیل نکلوائے اور ا س تیل سے عشر یا نصف عشر ادا کرے، عشر میں دانے نہیں دے سکتا، ہمارے ہاں کے تیل نکالنے کے بیجوں کو بھی اس پر قیاس کیا جائے۔
(۶) وہ دانے جو عموماًً انسان کی خوراک تو نہیں بنتے، لیکن مویشیوں گوارا چری، موٹھ، جوکی، برسیم، لوسن وغیرہ، جن ائمہ کے نزدیک دانوں میں عشر دینے کے لیے ان کا خوراک ہونا ضروری ہے، ان کے نزدیک تو ان میں عشر نہیں ہے، لیکن امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک (ادخار) سال بھر باقی رہنا ہی کافی ہے خوراک بنیں یا نہیں بنیں، اس لیے ان کے نزدیک ان میں عشر واجب ہے اور صحیح بھی یہی معلوم ہوتا ہے، کیونکہ جب یہ دانے زمین کی آمدنی کا بہت بڑا ذریعہ ہیں، اور یہ زمینداران سے ہر سال لاکھوں روپیہ کماتے ہیں، نیز یہ سال بلکہ اس سے زیادہ عرصہ تک باقی رہ سکتے ہیں، تو کوئی وجہ نہیں، کہ ان میں غرباء کو ان کے حق سے محروم کر دیا جائے، اور ان کا عشر نہ دیا جائے۔
(۷) ہر قسم کی کپاس دیسی اور امریکن نرما وغیرہ میں عشر واجب ہونے کی وہی علت ہے، جو قسم سابق میں امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ذکر ہوئی ہے، پہلی چار قسم کے زمینی پیداوا سے چونکہ غرباء و مساکین براہ راست بغیر کسی طویل عمل کے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، اس لیے ع شر میں وہ جنس ہی دی جائے، جس سے عشر دینا لازم آتا ہے، مثلاً گندم سے گندم اور چینی سے چینی ہی دی جائے، قیمت نہیں دینا چاہیے(؎۱)، باقی تین قسم کی پیداوار سے غرباء بغیر طویل عمل ے براہ راست فائدہ اٹھا سکتے ہیں، کپاس سے کپڑا تیار کرنا، اور سرسوں، توریہ وغیرہ سے تیل نکالنا ان کے لیے مشکل ہے، اس لیے ان اجناس میں اگر صاحب مال قیمت ادا کر دے تو کوئی مضائقہ نہیں۔
(؎۱) یہ عشر وصول کرنے والے کی ضرورت پر منحصر ہے، اس کو جس چیز کی ضرورت ہے یا جس میں اس کو آسانی ہے وہ بھی لے سکتا ہے، جیسا کہ ابو داود میں ہے۔
ہر قسم کے دانوں میں وجوب عشر کی دلیل یہ حدیث ہے:
((عَنْ مُعَاذٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ خُذِ الْحَبِّ مِنَ الْحَّبِ وَالشَّاة مِنَ الْغَنَمِ وَالْبَعِیْرَ مِنَ الْاِبِلِ وَالْبَقَرَة مِنَ الْبَقَرَة…)) (ابو داود مع عون المعبود ص ۲۲ ج ۳)
’’اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ، کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا : عشر میں غلہ یا بکریاں سے بکری، اونٹوں سے اونٹ اور گایوں میں سے گائے لو۔‘‘
بعض لوگوں نے چار چیزوں گندم، جو، کھجور اور منقی سے عشر دینا بتایا ہے، اور دلیل میں وہ احادیث نقل کی ہیں، جن میں ان ہی چار چیزوں کے نام آتے ہیں، مگر وہ احادیث مرسل، منقطع یا انتہائی کمزور ہونے کی وجہ سے ناقابل اعتبار ہیں۔ ائمہ حدیث نے انہیں قبول نہیں کیا، اس لیے ان لوگوں کا یہ مسلک صحیح نہیں ہے، قرآن و حدیث کے عموم کی،ا ن ضعیف حدیثوں سے تخصیص نہیں ہو سکتی، اس کے برعکس امام داود ظاہری فرماتے ہیں، کہ زمین سے پیدا ہونے والی ہر چیز سے (جو آمدنی کا ذریعہ ہو) زکوٰۃ واجب ہے،لیکن جس چیز میں ناپ تول جاری ہوتا ہے، اس میں وجوب عشر کے لیے نصاب شرط ہے، جیسا کہ تفصیل گذر چکی ہے،اور جو چیزیں ناپ تول میں نہیں آتیں، ان میں قلیل کثیر میں عشر واجب ہے، غرباء کی ضروریات اور امراء کے تزکیہ نفس و مال کے پیش نظر تو یہ مذہب احوط اور صحیح معلوم ہوتا ہے، حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ((وھذا نوع من الجمع)) کہہ کر اس مذہب کی ترجیح پر ایک گونہ اطمینان کا اظہار فرمایا ہے، دور حاضر کے بعض ممتاز علماء نے بھی اسی کو رائج قرار دیا ہے، چنانچہ مولانا عبید اللہ صاحب رحمانی اپنی تصنیف مرعاۃ المناتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح ص ۴۰ ج۲ میں فرماتے ہیں:
((وَاَرْحَجْ ھٰذِہ الْاٰقْوَالِ وَاَتُوْاھَا عِنْدِی قَوْلُ دَاؤدَ الظَّاھِرِیْ))
’’میرے نزدیک ان اقوال میں سے داؤد ظاہری کا قول زیادہ قوی اور راجح ہے۔‘‘
ایسے ہی مؤلف التعلیقات السلفیہ علی سنن النسائی ص ۲۰۱ ج۱ کا بھی اسی طرح رحجان ہے۔
زمیں سے پیدا ہونے والی جتنی چیزیں اوپر بیان ہوئی ہیں، اگر نصاب سے کم ہیں، تو ان میں عشر نہیں ہے، جمہور کے نزدیک ہر قسم کی سبزیاں مثلاً گاجر، مولی، آلو ، گوبھی، پالک، گھیا اور ٹماٹر وغیرہ نیز مویشیوں کے ہر قسم کے چارہ گوارا، چری، شلغ، برسیم، لوسن وغیرہ میں عشر واجب نہیں ہے، مالک ان چیزوں کو بیچیں، سال کے بعد ان کی قیمت سے جو بچ رہے، ان کی زکوٰۃ دیں، پہلے گذر چکا ہے، کہ کھجور اور انگور کے علاوہ باقی تمام پھلوں کا بھی یہی حکم ہے، امام مالک فرماتے ہیں:
((لَیْسَ فِیْ شَیٔئٍ مِنَ الْفَوَاکِه کُلِّھَا صَدَقَة وَلَا فِی الْغَصَبِ وَلَا فِی الْبُقُوْلِ کُلِّھَا صَدَقَة وَلَا فِیْ اَثْمَانِھَا اِذَا بِیْعَتْ صَدَقَة حَتّٰی یَحُوْلَ عَلَیْھَا الْحَوْلُ مِنْ یَوْمِ بَیْعِھَا وَیَقْبِضُ صَاحِبُھَا ثَمَنَھَا)) (مؤطا مالک زرقانی ص ۳۶۹ ج ۲)
’’کھجور اور انگور کے علاوہ ہر قسم کے پھلوں میں اسی طرح مویشیوں کے چارہ میں نیز ہر قسم کی سبزیوں میں عشر واجب نہیں ہے، جب مالک ان چیزوں کو بیچ کر قیمت اپنے قبضے میں کرے، تو سال کے بعد اس سے زکوٰۃ ادا کرے۔‘‘
یاد رہے، امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام داؤد ظاہری کے نزدیک تمام سبزیوں ہر قسم کے پھلوں اور مویشیوں کے چارہ میں عشر واجب ہے، تفصیلات کے لیے کتب مذکورہ کی طرف مراجعت فرمائیے۔
حدیث میں آیا ہے:
((قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ اِنَّ اللّٰہَ لَمْ یَرْضَ بِحُکْمِ بِنَتٍی وَلَا غَیْرِہٖ فِی الصَّدَقَاتِ حَتّٰی حَکَمَ ھُوَ فِیْھَا فَجَّزَأَ ثَمَانِیَة)) (تفسیر بن کثیر بحوالہ سنن ابی داود)
’’آنحضرتﷺ نے فرمایا، مال زکوٰۃ میں اللہ تعالیٰ نے نبی یا کسی غیر نبی کے فیصلہ کو پسند نہیں فرمایا، بکہ اس کے متعلق خود حکم فرمایا۔‘‘
قرآن حکیم میں ہے:
{اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآئِ وَ الْمَسٰکِیْنِ وَالْعٰمِلِیْنَ عَلَیْہَا وَ الْمُؤَلَّفَة قُلُوْبُہُمْ وَ فِی الرِّقَابِ وَ الْغٰرِمِیْنَ وَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَابْنِ السَّبِیْل} (التوبۃ:۶۰)
’’یعنی وہ زکوٰۃ کا مال فقرائ، مساکین، زکوٰۃ وصول کرنے والے عاملوں، مؤلفین ، غلاموں اور قرضداروں، اور اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والوں اور مسافروں کے لیے ہے۔‘‘
ان آٹھ قسموں کی مختصر تفصیل یہ ہے۔
(۱۔۲) فقراء جمع فقیر کی، اور مساکین جمع مسکین کی، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور جمہور علماء کے نزدیک فقیر کی حالت مسکین سے بدتر ہے، کیونکہ مسکین اسے کہتے ہیں، جس کے پاس تھوڑا بہت ہو، اور فقیر جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو، امام ابو حنیفہ کا قول اس کے برعکس ہے۔
(۳) زکوٰۃ وصول کرنے والے عامل یہ وہ لوگ ہیں جو خلیفہ اسلام یا کسی ادارہ کی طرف سے زکوٰۃ جمع کرنے کے لیے مقرر ہوتے ہیں، علامہ ابن العربی مکی فرماتے ہیں کہ زکوٰۃ میں ان کا حصہ رکھنے سے معلوم ہوا کہ جو شخص فرض کفایہ بجا لائے، وہ اس کی مزدوری لے سکتا ہے، جیسے نماز کی امامت ہے، نماز تو سب انسانوں پر فرض ہے، لیکن جماعت کرانا فرض کفایہ ہے، اس لیے جیسے امام جماعت کرانے پر اجرت لے سکتا ہے، اسی طرح زکوٰۃ جمع کرنے والے عامل کے لیے اجرت لینا بھی جائز ہے، امام اپنی صوابدید سے کام کے مطابق زکوٰۃ سے ان کو معاوضہ دے۔ (احکام القرآن)
(۴) مؤلفۃ القلوب: اس سے وہ ضعیف الایمان مسلمان مراد ہیں، جن کی اگر دلجوئی اور مالی اعانت نہ کی جائے، تو ان کے السام سے منحرف ہو جانے کا خطرہ ہو، یا ایسے مائل بہ اسلام کافر جو مالی اعانت سے حلقہ بگوش اسلام ہو جائیں، امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک آ ج کل یہ حصہ ساقط ہے، مگر صحیح یہ ہے کہ آجکل بھی بوقت ضرورت عمل کیا جا سکتا ہے۔
(۵) غلام، آج کل چونکہ غلامی کا رواج نہیں ہے، اس لے اس حصہ کو زکوٰۃ کے دوسرے مصارف کی طرف منتقل کیا جائے گا، ہاں اگر کوئی مسلمان دشمن کے ہاں گرفتار ہو جائے، تو اس سے فدیہ لے کر اسے چھڑایا جا سکتا ہے۔
(۶) غارمین، ان (؎۱) سے مراد وہ مقروض ہیں، جن پر اتنا قرضہ چڑھ گیا ہے، کہ ان میں اس کے ادا کرنے کی سکت باقی نہیں رہی، مگر یاد رہے، اگر کوئی شخص خلاف شرع کاموں میں مال خرچ کرنے کی وجہ سے مقروض ہو گیا ہے، جیسے جوا بازی، شراب نوشی، اور عیاشی وغیرہ تو جب تک توبہ نہ کرے، اس کی زکوٰۃ اور دیگر صدقات سے اعانت کرنی جائز نہیں، اگر مقروض فوت ہو جائے، اور قرض ادا کرنے کے لیے کوئی چیز نہ چھوڑ جائے، تو زکوٰہ کی اس مد سے اس کا قرض ادا کیا جا سکتا ہے۔
(؎۱) غارمین میں سے ہو مقروض مراد ہیں جو قرض میں کسی کا ضامن ہو اور وہ ضامنی اس کو ادا کرنی پڑ جائے۔(سعیدی)
(۷) فی سبیل اللہ، اس سے وہ لوگ مراد ہیں، جو محاذ جنگ میں دشمنان اسلام سے نبرد آزما ہوتے ہیں، یہ لوگ غنی بھی ہوں، تب بھی ان کو مال زکوٰۃ دینا جائز ہے، امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں، غریب غازی کو مال زکوٰۃ دیا جائے گا، غنی کو دینا جائز نہیں، مگر یہ مسلک قرآن کے اطلاق اور آنحضرتﷺ کے اس فرمان کے خلاف ہے:
((لا تحل الصدقة الغنی الا لخبسة لغازی فی سبیل اللّٰہ الحدیث)) (مشکوٰۃ)
’’پانچ قسم کے اغنیاء کے علاوہ کسی غنی کے لیے مال زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے، ان میںسے ایک غنی غازی فی سبیل اللہ ہے۔‘‘
سامان حرب و ضرب خریدنے کے لیے قومی دفاعی فنڈ میں زکوٰۃ کا مال دینا جائز ہے، محمد بن عبد الحکم فرماتے ہیں، آلات حرب، گھوڑے، اور ہتھیار خریدنے اور دشمن کو اپنے ملک سے دفع کرنے کے لیے زکوٰۃ کا مال خرچ کرنا جائز ہے، کیونکہ یہ بھی جہاد فی سبیل اللہ میں داخل ہے، دیکھئے نبیﷺ نے سہل بن ابی حثمہ کے قتل کے سلسلہ میں فتنہ و فساد اور لڑائی کا شعلہ سرد کرنے کے لیے زکوٰۃ کے ۱۱۰۰ اونٹ خرچ کر دئیے تھے۔ (احکام القرآن لابن العربنی: ص ۹۵۷ ج۲)
فی سبیل اللہ کے حکم میں حج اور عمرہ بھی داخل ہیں۔
((وعن ابن لأس الخزاعی قال حملنا النبی ﷺ عل ابل الصدقة الی الحج والعمرة)) (مسند احمد)
’’ابن لائس خزاعی کہتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے ہمیں سفر حج میں سواری کے لیے زکوٰۃ کے اونٹ دئیے۔‘‘
امام شوکانی اس کے علاوہ متعدد احادیث ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ’’ان احادیث سے پتہ چلا کہ فی سبیل اللہ کی مد سے حج اور عمرہ کے لیے جانے ولاوں کی امداد کی جا سکتی ہے، اور ان کے سفر کا سامان وغیرہ تیار کرنا جائز ہے، اگر کوئی جانور جہاد فی اللہ کے لیے وقف ہے، تو اس پر حاجی اور معتمر سفر کر سکتا ہے۔‘‘ اس طرح مدارس دینیہ پر، جہاں مفلوک الحال غریب طلباء تعلیم پاتے ہیں، زکوٰۃ کا مال صرف کرنا جائز ہے۔
(۸) ابن السبیل، اس سے وہ مسافر مراد ہے، جو اگرچہ اپنے وطن امیر ہیں، مگر سفر میں اس کے پاس خرچ ختم ہو گیا ہے، اور اس کے لیے گھر پہنچنا مشکل ہو گیا ہے، ایسے مسافر پر زکوٰۃ کا خرچ کرنا جائز ہے، اور جو دونوں جگہ محتاج ہیں، وہ بطریق اولیٰ مستحق ہیں۔