سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(101) بدعت کی تعریف

  • 3039
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 3176

سوال

(101) بدعت کی تعریف
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مستحب و مباح سمجھتے ہوئے ہفتہ میں کسی بھی ایک دن مثلاً بدھ کو خاص کر کے نمازعشاء کے بعد دوام سے (یعنی ہمیشہ ہر بدھ کو نماز عشا کے بعد) 12 رکعتیں نوافل کا اہتمام کرنا کیا یہ بدعت میں شمار ہو گا۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیلکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اسی کا نام تو بدعت ہے کہ انسان کسی غیر ثابت شدہ امر پر پابندی کرنا شروع کردے اور اسے ضروری خیال کرنا شروع کر دے۔ عبادات میں اصل حرمت ہے،الا یہ کہ کسی عبادت کی دلیل مل جائے۔عبادت صرف وہی مقبول اور صحیح ہو گی جس کی تفصیلات شریعت میں موجود ہوں گی۔ آپ کا بیان کردہ طریقہ کسی شرعی نص سے ثابت نہیں ہے ،لہذا اس پر عمل کرنا بدعت ہے ۔اور بدعت کے حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

" ہر نيا كام بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہى ہے اور ہر گمراہى آگ ميں ہے "

اسے نسائى نے باب كيف الخطبۃ صلاۃ العيدين ميں روايت كيا ہے، اور مسند احمد ميں جابر رضى اللہ تعالى عنہ سے اور ابو داود ميں عرباض بن ساريہ اور ابن ماجہ ميں ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہم سے مروى ہے.

اس حديث ميں شاہد " ہر گمراہى آگ ميں " ہے.

جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم خطبہ ارشاد فرماتے تو آپ يہ كہتے:

" اما بعد: يقينا سب سے بہتر كلام اللہ كى كتاب اللہ ہے، اور سب سے بہتر طريقہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم كا ہے، اور سب سے برے امور نئے ايجاد كردہ ہيں، اور ہر بدعت گمراہى ہے " (صحيح مسلم حديث نمبر :867 )

تو جب ہر بدعت گمراہى ہے تو اس كے بعد يہ كيسے كہا جا سكتا ہے كہ اسلام ميں كوئى بدعت حسنہ بھى ہے، اللہ كى قسم يہ تو صريحاً اللہ كے نبى صلى اللہ عليہ وسلم كےفرمان و فيصلہ كے مخالف ہے.

2 - اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تو يہ بتايا ہے كہ جس نے بھى دين ميں كوئى نيا كام اور بدعت ايجاد كى تو اس كا عمل تباہ اور مردود ہے، اسے اللہ تعالىٰ قبول نہيں فرمائے گا، جيسا كہ درج ذيل حديث ميں وارد ہے:

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس كسى نے بھى ہمارے اس دين ميں كوئى ايسا كام ايجاد كيا جو اس ميں سے نہيں تو وہ مردود ہے " (صحيح بخارى بمع فتح البارى حديث نمبر: 2697 )

تو پھر اس كے بعد كسى شخص كے ليے بدعت كو جائز كہنا اور اس پر عمل كرنا كس طرح جائز ہو سكتا ہے.

3 - بدعتى شخص جو دين ميں كوئى ايسا كام اضافہ كرتا ہے جو دين ميں نہ تھا اس كے اس فعل سے كئى ايک برائياں لازم آتى ہيں جو ايک سے ايک بڑھ كر ہيں. مثلاً:

٭ دين كے ناقص ہونے كا الزام، اور يہ كہ اللہ نے اس كى تكميل نہيں كى، اور اس ميں زيادتى كى مجال ہے حالانكہ يہ درج ذيل فرمان بارى تعالىٰ كے متصادم ہے:

’’ آج ميں نے تمہارے ليے تمہارا دين مكمل كر ديا ہے، اور تم پر اپنى نعمت بھرپور كر دى ہے، اور تمہارے ليے اسلام كے دين ہونے پر راضى ہو گيا ہوں ‘‘

٭ يہ كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور سے ہى دين ناقص تھا حتى كہ يہ بدعتى شخص آيا اور اس نے آ كر تكميل كى.

٭ اس بدعت كے اقرار سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر دو قسم كے امور كى تہمت لازم آتى ہيں:

يا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بدعت حسنہ سے لاعلم تھے. ( نعوذ باللہ باللہ من ذلك )

يا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم تھا ليكن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنى امت سے چھپائى اور اس كى تبليغ نہ كى ( نعوذ باللہ باللہ من ذلك )

٭ اس بدعت كا اجر نہ تو نبى صلى اللہ عليہ وسلم پا سكے اور نہ ہى صحابہ كرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حتى كہ يہ بدعتى شخص آيا تا كہ اس اجر كو حاصل كر سكے، حالانكہ اسے تو يہ كہنا چاہيے تھا كہ: اگر يہ بھلائى اور خير كا كام ہوتا تو وہ صحابہ كرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس كى طرف سبقت لے جاتے.

٭ بدعت حسنہ كا دروازہ كھولنے سے دين ميں تغير و تبدل اور خواہشات و رائى كا دروازہ كھولنے كا باعت بنے گا، كيونكہ ہر بدعتى شخص يہ كہےگا ميں نے جو كام كيا ہے وہ اچھا اور حسن ہے، تو ہم كسى رائے كو اپنائيں اور كس كے پيچھے چليں ؟

٭ بدعات پر عمل كرنے سے كئى سنتوں كو ترک كرنے كا باعث ٹھرے گا، اور يہ حقيقت ہے واقعات اس كے شاہد ہيں: جب بھى كوئى بدعت ايجاد ہوتى ہے تو اس كے مقابلہ ميں ايک سنت مٹ جاتى ہے، ليكن اس كے برعكس صحيح ہے.

اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ ہميں ہر قسم كى ظاہر اور باطنى گمراہى اور فتنوں سے محفوظ ركھے.

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 3کتاب الصلوۃ

تبصرے