سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(97) مدرک رکوع یعنی امام کے ساتھ رکوع میں ملنے والے کی رکعت ہو جاتی ہے یا نہیں-

  • 3033
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 3413

سوال

(97) مدرک رکوع یعنی امام کے ساتھ رکوع میں ملنے والے کی رکعت ہو جاتی ہے یا نہیں-
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں کہ مدرک رکوع یعنی امام کے ساتھ رکوع میں ملنے والے کی رکعت ہو جاتی ہے یا نہیں؟ ایسی حالت میں ظاہر ہے کہ رکوع پانے والے نے سورئہ فاتحہ نہیں پڑھی احادیث صحیحہ کی روشنی میں جواب دیا جائے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیلکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 سب سے پہلے یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ ہر نمازی پر خوہ وہ امام ہو یا مقتدی، منفرد ہو یا مدرک رکوع، نماز فرض ہو یا سنت یا نفل، سور فاتحہ پڑھنی رض ہے۔ اس کے بغیر پڑھے کسی کی کسی صورت میں نماز نہ ہو گی۔ احادیث صحیحہ سے یہی ثابت ہے۔ اس کے متعلق بے شمار حدیثیں ہیں، ان میں سے چند حدیثیں ہدیۂ ناظرین ہیں جن کو غور سے پڑھیں۔
ان رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم قال لا صلٰوة لمن لم یقرأ بفاتحة الکتاب (بخاری مسلم) ترمذی، ابن ماجہ و دیگر کتب حدیث) یعنی فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے، نہیں نماز ہوتی، اس شخص کی جس نے سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی۔
جزء القرأۃ للامام بخاری ونیز دیگر کتب حدیث میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کو مدینہ کی گلیوں، اور بازاروں میں بھیج کر آواز لگوا دی تھی، کہ لا صلٰوة الا بقرأة فاتحة الکتاب، یعنی سن کو، بغیر الحمد پڑھے کسی کی نماز نہ ہو گی۔
اس قسم کی سینکڑوں حدیثیں صحاح وغیرہ میں موجود ہیں۔ جن کو بخوفِ طوالت یہاں نظر انداز کیا جاتا ہے۔ ان حدیثوں کے عموم پر غور کرنا چاہیے۔ اگر مدرک رکوع کی نماز ہو جاتی، تو حضورؐ صاف فرما دیتے کہ نماز بغیر الحمد کے نہیں ہوتی، مگر رکوع پانے والے کی ہو جاتی ہے۔۔جس طرح حضرات احناف ان حدیثوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کہتے ہیں، کہ مقتدی کی نماز بغیر فاتحہ پڑھے ہو جاتی ہے، اور طرح طرح کی تاویلات و دلیلیں پیش کرتے ہیں، چاہے ان سے ان کا مدعا ثابت ہو یا نہ ہو، اسی طرح بعض مدعیان اہلحدیث بھی مدرک رکوع کی رکعت ہو جانے پر اڑے ہوئے ہیں۔ اور جو دلائل اس کے متعلق پیش کرتے ہیں اکثر تو محدثین کے نزدیک کمزور و ضعیف ہیں اور جو صحیح ہیں ان سے ان کا ہرگز یہ مدعا ثابت نہیں ہوتا۔ ان کی تفصیل ملاحظہ ہو۔
پہلی دلیل حدیث ابو بکرہ رضی اللہ عنہ کی ہے جو علاوہ کتب حدیث کے صحیح بخاری میں بھی موجود ہے، اس کا خلاصہ اس طرح ہے کہ ابو بکرہ رضی اللہ عنہ مسجد میں ایسی حالت میں پہنچے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رکوع میں جا چکے تھے، ابو بکرہؓ صف کے پیچھے سے رکوع کر کے نماز میں شریک ہو گئے بعد فراغت نماز آپ نے ان سے فرمایا ’’ ذادک اللہ حرصاً و لا تعد‘‘ اللہ تمہارا شوق زیادہ کرے۔ لیکن یہ حرکت آئندہ نہ کرنا۔ کہ بغیر صف کے پہنچے ہی رکوع میں چلے جائو۔
اس حدیث میں کہیں نہیں ہے۔ کہ ابو بکرہؓ کی رکوع والی رکعت ہو گئی، یہ محض لوگوں کو دھوکے میں ڈالنا ہے کہ ’’لاتعد‘‘ سے مراد رکوع والی رکعت کا عدم اعادہ ہے۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ  نے خود اس کے متعلق جزء القرأۃ میں فیصلہ کر دیا ہے۔ اور اس کے معنی خود ہی بیان کر دیے ہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں ’’لیس لاحد ان یعود لما نہی النبی صلی اللہ علیه وسلم عنه و لیس فی جوابه انه اعتد بالرکوع‘‘ یعنی حدیث ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے معلوم ہوا کہ کسی کو جائز نہیں ہے۔ کہ حضور کے منع کرنے کے بعد صف کے پیچھے سے رکوع کرتا ہوا امام کے ساتھ رکوع میں شریک ہو جائے اور اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ابو بکرہؓ نے رکوع کی رکعت کو شمار کیا ہو۔ سبحان اللہ، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ تو فرمائیں کہ ابو بکرہؓ کی حدیث سے یہ نہ سمجھنا کہ رکوع والی رکعت کو انہوں نے شمار کیا ہے۔ اور یہ حضرات حدیث کو الٹ پلٹ کر اس سے رکوع کی رکعت ثابت کرنے کے فکر میں ہیں۔
امام بخاریؒ کی اس تصریح کے بعد اس حدیث سے رکوع کی رکعت مراد لینا گویا امام بخاری کو جھٹلانا ہے۔ اس لیے کہ وہ اپنی روایت کردہ حدیث خوب سمجھتے تھے۔ ’’صاحب البیت ادری بما فیته‘‘ ونیز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جزء القرأۃ میں ابو بکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے واقعہ کو نقل کرتے ہوئے حدیث کا یہ ٹکڑا بھی نقل کرتے ہیں۔ کہ حضورؑ نے ابو بکرہؓ سے فرمایا واقض ما سبقک یعنی ابو بکرہ اپنی رکوع والی رکعت کو پھر سے پڑھ لو۔ یہ روایت طبرانی میں بھی اسی طرح ہے۔ لو اب تو معاملہ بالکل ہی صاف ہو گیا۔ و نیز صحیح بخاری و مسلم وغیرہ میں حضور علیہ السلا کا صاف فرمان موجود ہے۔ ’’ما ادرکتم فصلوا و ما فاتکم فاتموا‘‘ یعنی لوگو، نماز میں بھاگ کر نہ ملو جو امام کے ساتھ پائو اسے پڑھ لوخ اور جو حصہ فوت ہو جائے اس کو بعد سلام پھیرنے امام کے پڑھ لیا کرو۔ چنانچہ علامہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے نیچے فتح الباری میں لکھتے ہیں:
واستدل به علی ان من ادرک الامام راکعاً لم تحسب لہ تلک الرکعة للامر باتمام مافته لانه الوقوف و القرأة فیه و هو قول ابی ہریرة و جماعة بل حکاہ البخاری فی القرأة خلف الامام عن کل من ذہب الی وجوب قرأة خلف الامام‘‘ یعنی اس حدیث میں دلیل ہے ان لوگوں کی جو کہتے ہیں۔ رکوع میں شامل ہونے سے رکعت شمار نہ ہو گی۔ اس لیے کہ آپ نے فرمایا کہ فوت شدہ حصہ کو پڑھ لو، چونکہ اس صورت میں قیام اور قرأۃ فوت ہو چکے ہیں اس لیے اس رکعت کا اعادہ ضروری ہے۔ یہ ہی قول حضرت ابو ہریرہؓ اور ایک جماعت صحابہ کا ہے۔ یہاں تک کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا جو صحابہ قرأۃ خلف الامام کو فرض سمجھتے ہیں۔ وہ سب اسی طرح کہتے ہیں۔ اس حدیث کے ہوتے ہوئے اور امام بخاری وغیرہ کی اس تصریح کے بعد معلوم ہوا کہ رکوع کی رکعت لینے والے حدیث کے خلاف کرنے میں کس قدر بے باک ہیں۔
دوسری دلیل جو مدرک بالرکوع کی صحت نماز کے متعلق پیش کی جاتی ہے وہ یہ ہے۔ جسے ابو دائودؒ نے بایں الفاظ نقل کیا ہے۔ ’’من ادرک الرکعة فقد ادرک الصلوٰۃ‘‘ اس کا صحیح ترجمہ اس طرح ہے۔ جس نے رکعت پائی اس نے نماز پائی۔ رکعت کہتے ہیں قیام اور قرأت اور رکوع و سجدہ کے مجموعے کو۔ یہاں رکعت کے معنی رکوع کے لینا سراسر غلط ہے۔ عون المعبود شرح ابو دائودؒ میں گہے۔ وھاھنا لیست قرینة تصرف عن حقیقته الرکعة فلیس فیه دلیل علی ان مدرک الامام مدرک لتلک الرکعة یعنی اس مقام پر حقیقی معنی رکعت کے ہیں اس حدیث سے ثابت نہیں ہوتا، کہ مدرک الرکوع کی رکعت ہو جاتی ہے، یہ تو اس کے معنی کے متعلق بحث تھی، اب اس کی سند کے متعلق سنئے۔ یہ حدیث سرے سے ضعیف ہے۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ جزء القرأۃ میں لکھتے ہیں کہ اس میں راوی یحییٰ بن سلیمان ہے۔ وہ ضعیف اور منکر الحدیث ہے۔ اور اس نے یہ روایت اپنے استاذ زید اور ابن المقبری سے نہیں سنی، اور اس حدیث سے حجت نذہیں پکڑی جا سکتی۔ جزء القرأۃ صفحہ ۲۶۔ یہ سب کو معلوم ہے کہ امام بخاریؒ جیسا جلیل القدر محدث دنیا میں ایک بھی نہیں گزرا جب وہ اس حدیث کو ضعیف اور منکر بتاتے ہیں، تو اب کس کی مجال کہ اس کو صحیح سمجھے اور اس سے مدرک بالرکوع کی صحت نماز کا فتویٰ دے۔
و نیز شیخ نکل حضرت مولانا سید نذیر حسین صاحب محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ جن کا ثانی متاخرین محدثین میں اب تک کوئی نہیں پیدا ہوا۔ ان کے فتاویٰ میں مع ان کی تصحیح و مہر مرقوم ہے۔ حدیث میں ’’من ادرک الرکعة‘‘ میں رکعت سے رکوع مراد لینا جائز نہیں، کیوں کہ یہ معنی مجازی ہے۔ اور لفظ کا معنی مجاز مراد لینا بلاقرینہ کے جائز نہیں ہے اور اس حدیث میں کوئی قرینہ نہیں ہے۔ اور ساتھ اس کے یہ حدیث ضعیف بھی ہے۔ فتاویٰ نذیریہ صفحہ ۲۸۶۔ اسی لیے مولانا سید نذیر حسین صاحب محدث رکوع کی رکعت کے سرے سے قائل نہ تھے، جیسا کہ عون المعبود میں ہے۔ و ہذا ای بعدم اعتداد و ہو قول شیخنا العلامہ السید مولانا نذیر حسین الدہلوی متعنا اللہ بطول حیاتہ عون المعبود شرح ابو دائود صفحہ ۳۳۴ یعنی رکوع کی رکعت کے نہ ہونے کے قائل ہیں۔ شیخ علامہ نذیر حسین محدث دہلوی و نیز خود ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو اس حدیث کے راوی بیان کیے جاتے ہیں۔ ان کا فتویٰ اس طرح ہے۔ عن ابی ہریرة من ادرک فی الرکوع فلیرکع معه و لیعد الرکعة رواہ البخاری فی جزء القرأة خلف الامام‘‘ یعنی جس نے رکوع پایا اس کو وہ رکعت لوٹانی ہو گی۔ حضرت ابو ہریرہ کے اس فیصلہ کے بعد ان کی روایت کردہ حدیث میں رکوع مراد لینا سراسر نافہمی کی دلیل ہے۔
تیسری دلیل مدرک بالرکوع کی صحت نماز کے لیے یہ پیش کی جاتی ہے۔ اس کو ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ نے بایں الفاظ نقل کیا ہے۔ من ادرک الرکعة من الصلٰوة فقد ادرکھا قبل ان یقیم الامام صلبه یعنی جس نے رکوع پا لیا امام کے سر اٹھانے سے پہلے، اس نے اس رکعت کو پالیا۔ اس روایت کے متعلق حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ کی تنقید و تضعیف جزء القرأۃ میں اس طرح ہے اما یحییٰ ابن حمید فمجہول لا یعتمد صلی حدیثه ۔۔۔۔۔ فلیس ہذا مما یحتج به اہل العلم یعنی اس حدیث میں ایک راوی یحییٰ ابن حمید ہے۔ اس کی حدیث پر اعتماد نہیں کیا جاتا اور نہ اہل علم نے اس کے ساتھ حجت پکڑی ہے لہٰذا اس روایت سے قائلین مدرک بالرکوع کا استدلال کرنا غلط ہوا۔
چوتھی دلیل قائلین صحت نماز مدرک رکوع کی یہ ہے جس کو دار قطنی رحمۃ اللہ علیہ نے بایں الفاظ نقل کیا ہے: ’’من ادرک الرکوع من الرکعة الآخرة یوم الجمعة فلیضف الیہا الاخری (الحدیث) یعنی جس شخص نے جمعہ کی نماز کی پچھلی رکعت کا رکوع پالیا۔ اس کو چاہیے کہ دوسری رکعت پڑھ لے۔ اس کا جمعہ ہو گیا۔ اس روایت کے متعلق معلوم ہونا چاہیے کہ اس میں ایک راوی سلیمان بن دائود حرانی ہے۔ اس کے متعلق امام بخاریؒ جزء القرأۃ میں لکھتے ہیں: منکر الحدیث یعنی اس کی روایت منکر ہوتی ہے۔ منکر روایت محدثین کے نزدیک انتہا درجہ کی ضعیف ہوتی ہے۔ ابن حبان نے فرمایا لایحتج به (تعلیق المغنی) یعنی اس کی روایت قابل حجت نہیں۔
حضرات! ان لوگوں کی یہی چند دلیلیں تھیں، جن کی حقیقت آپ کے سامنے کھل گئی۔ حضرت امام بخاریؒ جیسے جلیل القدر محدث نے جو ان کے متعلق فرمایا ہے۔ وہ آپ ملاحظہ فرما چکے۔ اب کس شخص کی مجال ہے۔ کہ ان صحیح دلیلوں کو ضعیف بتائے۔ پہاڑ کو اس کی جگہ سے ہٹانا ممکن ہے مگر ام بخاریؒ کی برح کو ہٹانا بہت مشکل اور دشوار ہے۔ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے فن حدیث میں ملکہ دیا ہے وہ خوب جانتے ہیں، ان کے علاوہ قائلین صحت نماز مدرک رکوع کے پاس چند یاسات فاسدہ ہیں۔ جن کی بنا فاسد علی الفاسد ہے اس لیے ان کے جواب کی سردست ضرورت نذہیں۔ حضرات! یہ ساری عمر کی نماز کا معاملہ ہے۔ نماز میں سورئہ فاتحہ نہ پڑھنے سے عمر بھر کی نماز کی بربادی یقینی ہے۔ آگے تمہیں اختیار ہے۔ (ان ارید الا الاصلاح ما استطعت و ما توفیقی الا باللہ علیه توکلت و الیه انیب۔

مدرک رکوع کی حدیث اور اس کی حقیقت:

حدیث ابو ہریرہ جس کو ابو دائود نے مرفوعاً روایت کیا ہے، اذا جئتم الیٰ الصلوٰة و نحن سجود فاسجدوا و لا تعدوھا شیئا و من ادرک الرکعة فقد ادرک الصلوٰة۔ رکعت کے دو معنی ہیں حقیقی اور مجازی، ٓٓحٓقیقی معنی رکعت ہے۔ اور مجازی معنی رکوع ہے۔ حقیقت مجاز پر مقدم ہے۔ جب حقیقت متعذرہ ہو تو مجاز متعمل ہوتی ہے۔ تعین مجاز کے لیے قرینہ صارفہ کی ضرورت ہے۔

قرینہ صارفہ کی مثال:

جیسا کہ صحیح مسلم شریف میں براء بن عازب سے مروی ہے۔ بلفظ فوجت قیامه فرکعة فاعتداله فسجدته پس وقوع رکعت قیام اعتدال اور سجدہ کے مقابل قرینہ صارفہ ہے۔ اس مقام میں رکعت سے مراد رکوع ہے اور حدیث ابوداؤد میں کوئی قرینہ صارفہ نہیں جو حقیقت سے مجاز کی طرف پھیرے پس معنی حدیث یہ ہو گا من ادرک الرکعة فقد ادرک الصلوٰة جس شخص نے ایک رکعت باجماعت پالی اس نے نماز باجماعت کا ثواب پا لیا۔
اس حدیث پر بدرجہ کلام ہے۔ اول اس میں یحییٰ بن سلیمان راوی ضعیف ہے، تقریب میں ہے یحییٰ بن سلیمان بن المدینی ابو صالح لین الحدیث ہے۔ کاشف میں ہے قال البخاری منکر الحدیث۔ خلاصہ میں ہے یحییٰ بن ابی سلمان عن سعید المقبری و عنه شعبة قال البخاری منکر الحدیث۔ حاشیہ خلاصہ پر نقلاً عن التہذیب مستور ہے۔ و قال ابو حاتم مضطرب الحدیث یکتب حدیثہ لیس ممکن یکذب۔ میزان میں ہے۔ قال ابو حاتم یکتب حدیثہ لیس ہو بالقوی و قال البخاری منکر الحدیث۔ امام بیہقی معرفت میں لکھتے ہیں۔ تفرد به یحیی بن ابی سلمان بذا و لیس بالقوی اور امام بخاری جزء القرأۃ میں فرماتے ہیں۔ و یحییٰ ہذا منکر الحدیث و ثقہ ابن حبان و الحاکم و ذکرہ ابن حبان فی الثقات خلاصہ یحییٰ بن ابی سلیمان کی توثیق ابن حبان اور حاکم نے کی ہے۔ اور اس کی تضعیف ایک جماعت کثیرہ سے منقول ہے۔
وجہ دوم:
اس حدث میں یہ زیادتی اذا جتئم الی الصلوٰة و نحن سجود فاسجدو ولا تعدوھا لشیئا غیر محفوظ و منکر ہے۔ ایک جماعت کثیرہ نے حدیث ابو ہریرہ کو روایت کیا ہے۔ مگر سوائے یحییٰ ابن ابی سلیمان کے کسی نے اس زیادت کو روایت نہیں کیا اس جماعت کی حدیث کو امام بخاری جزء القرأۃ میں لائے ہیں۔ اور دس رواۃ یہ ہیں: امام مالک، عبید اللہ بن عمر، یحییٰ بن سعید، ابن الہاد، یونس، معمر، ابن عیینہ، شعیب، ابن جریح، عراک بن مالک۔ تلک عشرۃ کاملہ کے خلاف یحییٰ بن ابی سلیمان کی یہ زیادتی غیر محفوظ اور منکر ہے۔

ایک اعتراض اور اس کا جواب:

اگر کہا جائے کہ اس حدیث پر ابو دائود اور منذری کا سکوت صحت حدیث پر تین دلیل ہے۔ اس کا جواب یہ ہے۔ کہ سکوت ابو دائود مصلح للاحتجاج کا اصول اکثری ہے۔ نہ کہ کل ورنہ ابو دائود میں بیسیوں ایسے مقام ہیں جن پر ابو داؤد اور منذری نے سکوت کیا ہے۔ اور وہ حدیث عند المحدثین قابل حجت نہیں۔ چنانچہ ابو دائود کے باب سجدتی السہو فیہما تشہد و تسلیم میں عمران بن حصین کی روایت میں ذکر تشہد محفوظ نہیں اور ابو دائود کا اس پر سکوت ہے۔ ایسی ایسی اور بھی مثالیں موجود ہیں جن کو امام شوکانی نے نیل الاوطار میں ذکر کیا ہے۔

حدیث دار قطنی اور ابن خزیمہ کی تحقیق:

عن ابی ہریرة ان رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم قال من ادرک رکعة من الصلوٰة فقد ادرکہا قبل ان یقیم الامام صلبه اخرجه الدارقطنی و ابن خزیمه۔‘‘ مگر اس میں بھی بچند وجوہ کلام ہے۔ اول اس میں قرۃ بن عبد الرحمن راوی ضعیف ہے۔ دوسرے قرۃ بن عبد الرحمن کے شاگرد یحیی بن حمید راوی کو امام بخاری نے جزء القرأۃ میں مجہول کہا ہے۔ اور کہا ہے و لیس ہذا مما یحتج به اہل العلم۔ اور میزان الاعتدال میں قال البخاری لایتابع فی حدیثه و ضعفه الدار قطنی دوم یہ حدیث غیر محفوظ و منکر ہے۔ قبل ان یقیم الامام صلبه کا لفظ یحییٰ بن حمید نے خلاف ثقات اثبات مذکورین کے روایت کیا ہے۔ قرۃ بن عبد الرحمن ضعیف راوی کے متعلق تقریب میں یقال اسمه یحییٰ صدوق له منکر الخ ترغیب میں ہے۔ قال احمد منکر الحدیث جداً و ضعفه ابن معین و قال ابن عدی ارجو انه لا باس به صح حدیثه ابن حبان و اخرجہ مسلم مقرونا بعمر بن الحارث وغیرہ انتہٰی کاشف میں ہے۔ ضعفہ۔ ابن معین و قال احمد منکر الحدیث جداً انتہٰٰی۔ میزان میں ہے۔ خرج له مسلم فی الشواہد و قال الجوزجانی سمعت احمد منکر الحدیث جداً و قال یحییٰ ضعیف الحدیث و قال ابو حاتم لیس بالقوی، و قال ابن عدی روی الا وزاعی عن قرة بضعة عشر حدیثا وارجو انه لاباس به انتہٰی۔
پس ثابت ہوا کہ دار قطنی اور ابن خزیمۃ کی روایت صحیح نہیں بلکہ غیر محفوظ اور منکر ہے۔ حاشیہ عربی بلوغ المرام میں ہے، صحیحات ابن خزیمہ وغیرہ پر عمل جائز ہے یوں کہ ان کے مصنفین نے ان حدیث کی حصت پر حکم لگایا ہے۔ مگر جب کہ غیر ان کے نے معارضت اور منازعت کی ہو تو اس وقت دلیل کی ضرورت ہے۔ (برہان العجاب مع ترجمہ کشف الحجاب)

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 3 ص 234-239

محدث فتویٰ

تبصرے