سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(95) بغیر نماز کے صرف سجدہ کرنا جائز ہے یا نہیں-

  • 3031
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2243

سوال

(95) بغیر نماز کے صرف سجدہ کرنا جائز ہے یا نہیں-
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 بغیر نماز کے صرف سجدہ کرنا جائز ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیلکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سجدہ بغیر نماز کے بذات خود ایک مستقل عبادت ہے اور اللہ رب العزت اپنے بندوں کو اس عبادت پر اجر وافر عطا فرماتے ہیں، اور اس پر دلالت کرنے والی نصوص قرآن کریم میں معروف ہیں اور ان میں سے بعض نصوص کو نماز کے سجود یا نفس نماز پر محمول کرنا مجازی ہے۔ اور مجازی معنی استعمال کرنے کے لیے کوئی قرنیہ یا دلیل ہونی چاہیے اور منجملہ ان کے تلاوت کے سجدے بھی ہیں کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا منفرد سجدوں کے ساتھ ذکر فرمایا ہے اور اسی طرح سجدہ تلاوت ہے۔ اسے بھی منفرد سجود پر محمول کیا جائے گا۔ اور سجود منفردہ پر دلیل معدان بن طلحہ یعمری کی روایت ہے۔ جو صحیح میں ہے: قال لقیت ثوبان مولٰی رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم فقلت اخبرنی بعمل اعمله یدخلنی اللہ به الجنة او قال قلت باحب الاعمال الی اللہ عز و جل فسکت ثم سألته فسکت ثم سألته الثالثة فقال سألت عن ذالک رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم فقال علیک بکثرة السجود للہ فانک لا تسجد للہ سجدة الا رفعک اللہ بھا درجة حط عنک بھا خطیئة ثم لقیت ابا الدرداء فسألته فقال لی مثل ما قال ثوبان و ھذا لفظ مسلم۔
اور عرب آپ کے الفاظ جدہ سے سوائے منفرد سجدہ کے اور کچھ نہیں سمجھے گا۔ جو سجدے نماز میں ہوتے ہیں ان کا اجر تو نماز کے اجر میں داخل ہوتا ہے۔ نیز صحیح میں ربیعہ بن کعب اسلمی کی روایت ہے۔ قال کنت ابیت مع رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم فاتیته بوضوہ حاجته فقال لی سل فقلت اسألک مرافقتک فی الجنة فقال او غیر ذالک فقلت ھو ذاک قال فاعنی علی نفسک بکثرة السجود و ھذا لفظ مسلم۔ اور ان الفاظ سے مراد منفرد سجود حقیقی ہو گا۔ ایسی ہی روایت حضرت عائشہ کی صحیح میں ثابت ہے۔
انھا فقدت رسول اللہ لیلة من الفراش فالتمسة فوقعت یدھا علی بطن قدمیه و ھو فی المسجد و ھما منصوبتان و ھو یقول اللھم انی اعوذ برضاک من سخطک و بمعا فاتک من عقوبتک و اعوذ بک منک لا احصی ثنائً علیک انت کما اثنیت علی نفسک اسی طرح ابو ہریرہ کی روایت بھی سجود منفرد پر صادق آتی ہے قال اقرب ما یکون العبد من ربه و ھو ساجد فاکثروا الدعاء حضرت عائشہ کی حدیث میں ہے قالت کان رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم یصلی احدتی عشرة رکعة فیما بین ان یفرغ من صلٰوة العشاء الی صلٰوة الفجر سوی رکعتی الفجر ویسجد قدر ما یقرأ احدکم خمسین اٰیة شوکانی فرماتے ہیں کہ صاب عدۃ حصن حصین‘‘ نے غلطی کی ہے۔ کہ یہ سجود موضوع ہیں اور میں نے عدۃ کی شرح میں اس پر تنبیہ کر دی ہے۔
ابن ابی شیبہ نے اپنی کتاب المصنف میں ابو سعید سے روایت نقل کی ہے: انه قال ما وضع رجل جببھته للہ ساجداً فقال یا رب اغفرلی ثلثا الا رفع رأسه و قد غفر له: یہ حدیث اگرچہ ابو سعید پر موقوف ہے لیکن رفع کے حکم میں ہے چوں کہ ایسی بات رائے سے نہیں کہی جا سکتی۔ اسے طبرانی نے عن ابی مالک عن ابیه عن النبی صلی اللہ علیه وسلم سے بیان کیا ہے۔ ہیثمی نے مجمع الزوائد میں کہا ہے کہ طبرانی نے اسے معجم کبیر میں محمد بن جابر عن ابی مالک کی روایت سے ذکرکیا ہے۔ ابن ماجہ نے صحیح سند کے ساتھ عبادہ بن صامت سے روایت کی ہے۔ انہ سمع النبی صلی اللہ علیه وسلم یقول ما من عبد یسجد للہ سجدة الا کتب اللہ بھا حسنة و مما عنه بھا سیئة و رفع بھا درجة فاستکثرو من السجود ابن ماجه اور احمد نے جید سند کے ساتھ ابو فاطمہ سے روایت کی ہے۔
قال قلت یا رسول اللہ اخبرنی بعمل استقیم علیه و اعمل قال علیک بالسجود فانک لا تسجد للہ سجدة الا رفعک اللہ بھا درجة و حط عنک بھا خطیئة اور احمد کے الفاظ اس طرح ہیں انه صلی اللہ علیه وسلم قال یا ابا فاطمة ان اردت ان تلقانی فاکثر السجود۔ طبرانی نے اوسط میں ثقہ رجال کی سند سے حذیفہ کی حدیث ذکر کی ہے۔ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم ما من حالةیکون العبد العبد احب الی اللہ من ان یراہ ساجداً بعفر وجھه فی التراب۔ احمد اور بزار نے ابو ذر کی روایت سند صحیح سے نکالی ہے۔ قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم یقول من سجد للہ سجدة کتب اللہ له بھا حسنته و حط عنه بھا خطیئة و رفع  بھا درجة واضح ہو کہ ان احادیث میں مذکورہ سجود سے مراد منفرد سجود ہی ہیں۔ جو کہ حقیقی معنی ہے۔ اور ان سے مجازاً نماز کے سجدے سے مراد لینے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ اور یہ مجازی معنی لینے سے حقیقی منی و مدعا پر بھی اثر نہیں پڑے گا۔
الحاصل کہ سجدہ ایک بہترین عبادت ہے۔ جیسے بندے کو نماز سے تقرب الٰہی حاصل ہوتا ہے۔ اسی طرح سجدے سے بھی حاصل ہوتا ہے۔ جیسا کہ نبی علیہ السلام سے اس کی ترغیب اور اس پر اجر جزیل کے وعدے منقول ہیں۔
نبی علیہ السلام کا فعل بعض انواع سجود کو مانع نہیں ہے۔ آپ کے غیر کے لیے جیسا کہ ترغیب آپ کے اقوال سے ثابت ہے۔ اور افوال پر اقوال کی ترجیح کسی پر مخفی نہیں ہے۔ پس مومن کو چاہیے کہ جس طرح چاہیے اور جس وقت چاہے (اوقات ممنوعہ کے علاوہ) سجدے کرے۔ جو شخص اس بات کا انکار کرتا ہے۔ وہ مذکورۃ الصدر احادیث کو یا تو جانتا نہیں ہے یا اگر سمجھتا نہیں ہے کہ ان سے کم تر احادیث سے سجدے کی مشروعیت ثابت ہو سکتی ہے کجا ان احادیث صحیحہ کا نبوہ کثر اور جو شخص یہ کہے کہ صرف سجدئہ تلاوت اور سجدہ شکر کے انواع ہی مشروع ہیں۔ اس کا جواب اس طرح دیا جا سکتا ہے۔ کہ یہ شق نماز میں بھی لازم آتی ہے۔ پس اسے منتقل ہو جانا چاہیے مگر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے واقع شدہ نقل کے ساتھ اور منقول اس میں عدد یا صفت میں زیادتی نہ کی جائے اور صرف اس وقت سر انجام دی جائے جس وقت نبی علیہ السلام نے سر انجام دی اور ظاہر ہے کہ یہ قول سراسر جہالت ہے۔ چونکہ نماز کے بارے میں وارد شدہ ترغیبات اس ات پر دلالت کرتی ہیں کہ نماز نفل زیادہ سے زیادہ پڑھنا سنت ثابتہ اور شریعت قائم ہے بشرطیکہ اس کی ادائیگی کا وقت مکروہ اوقات میں سے نہ ہو۔ یہی صورت مجرد سجود کی ہے کہ ساجد کے لیے ترغیب اور اجر جزیل ثابت ہے۔ جیسا کہ ابھی ذکر ہوا ہے۔ اور خصوصاً جب کہ یہ سجدذہ رب العزت کے قرب کے اسباب میں سے ہو جیسا کہ فرمان نبوی ہے۔ ’’اقرب ما یکون العبد منربه وھو ساجد‘‘ اور پھر اس قرب رب العزت دعا کی طرف خصوصی توجہ دلائی گئی ہے۔ کس قدر زیادہ حق دار ہے قبولیت کا وہ شخص اجازت کا دروازہ اس حالت میں کھٹکھٹاتا ہے۔ جب وہ اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہے۔ اس کے لیے رحمت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں وہ رحمت جس کے ساتھ دعائیں قبول ہوتی ہیں اور درجات بلند ہوتے ہیں۔ اور غلطیان مٹ جاتی ہیں۔ چوں کہ انسان اس وقت اپنے رب العزت کے قرب بلکہ اقرب القرب مقام میں ہوتا ہے۔ یہ امام شوکانی کے الفاظ کا ترجمہ ہے۔ اور امام شوکانی اپنے آخری ایام زندگی میں کثرت کے ساتھ طویل ترین سجدے کیا کرتے تھے۔ اور کس قدر اچھے امام بیہقیؒ ک یاشعار اس بارے
و من اعتز بالمولی فذاک جلیل     و من رام عزا من سواہ فھو ذلیل
و لو ان نفسی مذبراھا ملیکھا     مضی عمرھا فی سجدة لقلیل
احب مناجاة الحبیب باوجه         و لکن لسان المدتبین کلیل
اللھم وقفنا لکثةۃ السجود لک و ارزقنا بھا مرافقة نبیک فی جنتک انک علی ما تشاء قدیر و بالاجابة جید۔ دلیل الطالب علی ارجح المطالب از ص ۲۹۷ تا ص ۲۹۹

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 3 ص 230-233

محدث فتویٰ

تبصرے