سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(93) نماز میں امام کے پیچھے توجہ اور استعاذہ کی قرأۃ بھی جائز ہے۔ یا نہیں ۔

  • 3029
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1066

سوال

(93) نماز میں امام کے پیچھے توجہ اور استعاذہ کی قرأۃ بھی جائز ہے۔ یا نہیں ۔
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نماز میں امام کے پیچھے توجہ اور استعاذہ کی قرأۃ بھی جائز ہے۔ یا صرف فاتحہ خاص ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیلکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جس قدر بھی احادیث مقتدیوں کے امام کے پیچھے قرأۃ سے ممانعت کی وارد ہوئی ہیں، وہ نفس قرآن کی قرأۃ سے خاص ہیں۔ جیسا کہ عبادہ بن صامت کی روایت کے الفاظ ہیں۔
انی اراکم تقرؤن وراء امامکم قال قلنا یا رسول اللہ ای و اللہ قال لا تفعلوا الا بام القرأن فانه لا صلٰوة لمن یقراء بھا اخرجه ابو داؤد و الترمذی و احمد و البخاری فی جزء القرأة و صححه۔ و صححه ایضاً ابن حبان و الحاکم و البیہقی و فی لفظ فلا تقرؤا بشئ اذا جھت به الا بام القرأن اخرجه ابوداؤد و النسائی و الدارقطنی و قال رجاله کلھم ثقات وفی لفظ لعلکم تقرؤن و الامام یقرأ قالوا انا لنفعل ذالک قال لا الا ان یقرأ احدکم بفاتحة الکتاب اخرجه من تقدم ذکرہ۔ حافظ ابن حجر کہتے ہیں اس کی تمام تر سندیں حسن ہیں اور ابو ہریرہ کی حدیث کے یہ الفاظ ہیں۔ فانتھٰی الناس عن القرأة مع رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم فیما جھر فیه حین سمعوا ذالک اخرجه فی المؤطا و النسائی و ابی داؤد و الترمذی و حسنه دار قطنی میں ان الفاظ سے ہے۔ و اذا جھرت بقرأتی فلایقرأ معی احد اور جیسی دیگر رویات اس پر دلالت کرتی ہیں کہ منہی عنه امام کی قرأۃ کے وقت نفس قرآن کریم ہے۔ اور یہ نہی قرأۃ توجہ اور استفادہ کو مشتمل نہیں ہے چنانچہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ توجہ اور استعاذہ کی قرأۃ کے بارے میں جمہور سلف و خلف بلکہ کسی صحابی، تابعی اور تبع تابعی سے عدم جواز منقول نہیں ہے اسی طرح کسی صاحب مذہب اور اہل علم سے بھی منقول نہیں ہے۔ مگر ابن حزم ظاہری فرماتے ہیں کہ مقتدی کو امام کے پیچھے توجہ اور استعاذہ کی قرأۃ سے باز رہنا چاہیے چونکہ اس میں ران کے بعض حصے ہیں اور نبی علیہ السلام نے ام القرأن کے علاوہ امام کے پیچھے قرآن کریم کی قرأۃ سے منع فرمایا ہے۔ علامہ شوکانی علیہ الرحمۃ الربانی فرماتے ہیں کہ یہ قول ابن حزم کا فاسد ہے چونکہ اگر ان قول سے مراد ہر توجہ ہے جس آپ جانتے ہیں اکثر توجہ قرآن نہیں ہے اور اگر اس سے مراد صرف حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی توجہ ہے۔ جس میں انی وجہت وجہی للذی الخ وارد ہے تو صرف یہ توجہ محل نزاع نہیں ہے۔ دیگر متعدد توجہات ہیں۔ جن میں قرآن کریم نذہیں ہے۔ چنانچہ ان کے قاری کو اس قول سے عغذا حاصل ہو جاتا ہے۔ اور مانعین قرأۃ توجہ یہ اعتراض کریں کہ آیت و اذا قرئ القرآن الخ اور حدیث انما جعل الامام لیؤتم به فاذا کبر فکبروا و اذا قرأ فانصتو اخرجه ابو دائود و النسائی و ابن ماجة و اخرجه ایضاً احمد و رجال اسنادہ ثقاة عموم کا فائدہ اور یہ اعتراض کہ و اذا قرأ فانصتو زیادتی صرف ابو خالد احمر سے ہے۔ اس لیے مرفوع ہے۔ کہ ابو خالد ثقات اثبات میں سے ہے بخاری مسلم نے اسے قابل حجت قرار دیا ہے اس صورت میں اس اس کا تفرد بھی نقصان دہ نہیں ہے۔ اور پھر وہ اکیلا ہی اس زیادتی کے ساتھ متفرد نہیں ہے بلکہ ابو سعید محمد بن سعد انصاری شہلی مدنی بھی اس زیادتی میں اس کا تابع ہے۔ ابو سعید کے طریق سے اس زیادتی کو امام نسائی نے نکالا ہے۔ نیز اسی زیادتی کو مسلم نے اپنی صحیح میں ابو موسٰی اشعریؓ سے بیان کیا ہے میں کہتا ہوں یہ دونوں عموم جو آیت قرآن اور حدیث رسول میں ہیں یہ مخصوص ہیں ایسے فعل سے جسے شریعت مقتدی کے لیے نماز میں مشروع قرار دیا ہے اور انہیں سے فاتحۃ الکتاب بھی ہے اور اس کی تخصیص کی تائید میں احادیث ہیں۔ جن میں قرآن کی قرأت خلف امام کی نہیں۔ بتصریح وارد ہوئی ہے۔ و اللہ اعلم

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 3 ص 226-228

محدث فتویٰ

تبصرے