سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(91) دوسری دو رکعتوں میں سورۃ فاتحہ کی بجائے تسبیح پر اکتفا جائز ہے یا نہیں-

  • 3027
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 932

سوال

(91) دوسری دو رکعتوں میں سورۃ فاتحہ کی بجائے تسبیح پر اکتفا جائز ہے یا نہیں-
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

دوسری دو رکعتوں میں سورۃ فاتحہ کی بجائے تسبیح پر اکتفا جائز ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیلکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جو شخص سورۃ فاتحہ یا اس کے ساتھ مزید کوئی سورۃ پڑھ سکتا ہے اس کے لیے فاتحہ چھوڑ کر تسبیح پڑھنے کے جواز کا کوئی وجود نہیں ہے۔ مجھے تو معلوم نہیں ہو سکا کہ بعض اہل علم جنہوں نے آخری دو رکعتوں میں فاتحہ اور تسبیح میں اختیار دیا ہے ان کی بنیاد کس چیز پر ہے۔
چوں کہ تسبیح کے جواز کی جو احادیث یا دلائل ہیں وہ صرف اس شخص کے لیے ہیں جو قرأت نہیں کر سکتا مثلاً عن رفاعة بن رافع ان رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم علم رجلا الصلٰوة فقال ان کان مع قرآن فاقرأو الا فاحمدو اللہ و کبرہ و لله ثم ارکع اخرجه ابو داؤد و الترمذی و حسنه و النسائی۔
مذکورہ حدیث میں نمازی کے ساتھ قرآن نہ ہونے کی قید ہے۔ اسی طرح عبد اللہ بن ابی اوفیٰ کی روایت، جاء رجل الی النبی صلی اللہ علیه وسلم فقال انی لا استطیع ان آخذ شیئا من القرأن فعلمنی ما یجزئنی فقال قل سبحان اللہ و الحمد للہ و لا اله الا اللہ و اللہ اکبر و لا حول و لاقوة الا باللہ رواہ احمد و ابو داؤد و النسائی و الدارقطنی و ابو الجارود و ابن حبان والحاکم۔
اس حدیث کی سند میں ابراہیم بن اسمٰعیل سسکی ہے۔ اگرچہ یہ رجال بخاری میں سے ہے۔ مگر محدثین نے امام بخاری پر اس کی حدیث لانے پر اعتراض کیا ہے۔ نسائی نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ ابن قطان کہتے ہیں۔ کہ ایک قوم نے اس کی تضعیف کی ہے۔ اور اس کی روایت قابل حجت نہیں ہے۔ ابن عدی کہتے ہیں کہ میں نے اس کی کوئی منکر المتن حدیث بھی نہیں پائی۔ نوویؒ نے ضعیف رواۃ کی فصل میں اس کا ذکر کیا ہے۔
میں کہتا ہوں اس حدیث کے ساتھ ابراہیم منفرد نہیں ہے۔ بلکہ طبرانی اور ابن حبانؒ نے اس کی روایت طلحه بن مصرف عن ابی اوفیٰ کے طریق سے ذکر کی ہے۔ لیکن اس کی سند میں فضل بن موفق ہے۔ ابو حاتم اور ابن حجرؒ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ اوریہ حدیث بھی آدمی کے قرآن کریم کو بالکل یاد نہ کر سکنے کی صورت میں ہے۔ اس سے حافظ فاتحہ کے لیے نہ پڑھنے کے جواز کا استدلال درست نہیں ہے۔ شوکانی نے فتح الربانی میں ذکر کیا ہے کہ جس نے مذکورۃ الصدر احادیث سے استدلال کیا اس نے صریح غلطی کا ارتکاب کیا۔
شارح مصابیح فرماتے ہیں کہ ضروری نہیں ہے کہ یہ صورت ہر وقت جائز ہو چوں کہ جو شخص کلمات تسبیح حفظ کر سکتا ہے وہ فاتحہ بھی یاد کر سکتا ہے۔ بلکہ اس کی صحیح تاویل اس طرح ہو گی۔ ایک آدمی مسلمان ہوا ہے اتنی جلدی وہ قرآن کریم کا کوئی حصہ یاد نہیں کر سکتا اور نماز کا وقت آ چکا ہے جبھی وہ اس نماز سے فارغ ہو گا تبھی اسے فاتحہ یاد کرنا ہو گی۔
اور یہ دونوں حدیثیں اس مسئلہ میں نہایت شافی فیصلہ کی حیثیت رکھتی ہیں اور اگر ہم فرض کر لیں۔ کہ ان ظو مقید احادیث کے علاوہ کوئی مطلق بھی موجود ہے تو بھی اسے ان مقید احادیث پر محمول کریں گے، چوں کہ صورت فاحتہ کی قرأۃ ہر رکعت میں ثابت ہے۔ جس کے دلائل علامہ شوکانی نے نیل الاوطار شرح منتقی الاخبار میں ذکر کیے ہیں۔     دلیل الطالب علی ارجح المطالب ص ۲۹۰ تا ۲۹۱

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 3 ص 224-225

محدث فتویٰ

تبصرے