یک اہل حدیث عالم ایک گاؤں میں جمعہ پڑھاتے تھے اور کئی گاؤں آس پاس والے میل دو میل نصف میل تک وہاں آتے تھے۔ مگر بہت لوگ بوجہ سستی حاضر جمعہ نہیں ہوتے تھے۔ اب بعض دوسرے گاؤں میں بھی جمعہ شروع کیا گیا ہے۔ اب پہلے جمعہ والے عالم نے فتویٰ دیا ہے کہ دوسرا جمعہ ان گاؤں میں حرام ہے۔ صرف اسی گاؤں میں جمعہ ہوسکتا ہے۔ جس میں پہلے شروع کیا گیا تھا۔ دلیل اس کی عوالی مدینہ والی حدیث ہے جو بعض عوالی آٹھ میل تک تھے وہ سب مدینہ میں حاضر ہوتے تھے۔ کیا واقعی پہلے جمعہ کے بعد دوسرے گاؤں میں جو میل دو میل تک ہوں بلکہ آٹھ میل تک ہے۔ جمعہ حرام ہے۔ اس میں شریعت کا کیا حکم ہے؟
قال اللہ تعالیٰ یا اھل الکتب لا تغلوا فی دینکم۔ وقال النبی ﷺ الدین یُسْرٌیہ مولوی صاحب غالی ہیں اور ایسے جمعہ کو حرام کہنا فی الحقیقت جمعہ فرفی القریٰ کی حرمت ثابت کرنا ہے۔ جو آج تک اہل حدیث اور احناف کا موجب تنازعہ ہے۔
عوالی سے بطور فضیلت آپ کے عہد و خلفاء کے عہد میں حاضر ہوتے تھے۔ کیوں کہ خلیفہ ثانی امیر المومنین عمر بن خطاب کا فرمان عام ہے کوئی استثناء نہیں ہے اَنّ جَمِّعُوْا حَیْثُ مَا کُنْتُمْ یعنی جہاں پر ہو جمعہ پڑھا کرو، یہ استثناء نہیں کہ صرف ایک ہی گاؤں میں جمعہ ہوسکتا ہے۔ دوسرے گاؤں میں جمعہ مت پڑھو۔ لہٰذا دوسرے گاؤں میں بھی جمعہ درست ہے۔ گو افضل یہی ہے کہ سب جمعہ ایک ہی جگہ ادا کریں۔
لوگوں کو فتوؤں سے اپنے قبضہ میں رکھنے کی کوشش کرنا فضول ہے۔ قُلْ لَھُمْ فِیْ اُنْفُسِھِمْ قَوْلاً بَلِیْغَاپر عمل کرتے ہوئے اور پر تاثیر خوش بیانی سے لوگ خود بخودہ گرویدہ ہوسکتے ہیں۔ حضور علیہ السلام کا فرمان ہے: بَشروا ولا تنفروا لوگوں کو خوشخبری سناؤ نفرت مت دلاؤ۔ کیا جمعہ کو حرام کہنے سے نفرت ہوگی یا بشارت۔ خصوصاً جب کہ اہل علم اسے جائز کہتے ہوں۔ عملی مسائل میں ایسا تشدد درست نہیں ہے۔ وفی ھٰذا کِفَایَة لِمَنْ له دِرَایة وَاللہ اعلم۔