مدرک رکوع کی رکعت ہوتی ہے یا نہیں؟
اس مسئلہ کی بنیاد مقتدی کے امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنے یا نہ پڑھنے پر ہے۔ اسحق بن راہویہ، احمد، مالک اور ابو حنیفہ رحمہم اللہ علیہم اجمعین کا خیال ہے کہ مقتدی امام کے پیچھے جہری قرأت والی نمازوں میں کچھ نہ پڑھے اور احناف کے نزدیک جہری اور سرّی دونوں میں کچھ نہ پڑھے۔ چونکہ ابو ہریرہ کی مرفوع حدیث میں آیا ہے انما جعل الامام لیؤتم به الخ یعنی امام اقتداء کرنے کے لیے مقرر کیا جاتا ہے۔ جب تکبیر کہے تم بھی تکبی کہو اور جب وہ (امام) پڑھے تم چپ رہو۔ رواہ الخمسة الا الترمذی۔ امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ و اذا قرأ فانصتو کی زیادتی محفوظ نہیں ہے۔ بلکہ ابو خالد سے وہم واقع ہو گیا ہے۔ لیکن منذری نے امام ابو دائود کے قول کو محل نظر قرار دیا ہے، چونکہ امام مسلم نے اسے صحیح کہا ہے۔ لہذا اس زیادتی کی صحت کو ترجیح حاصل ہے مگر اس سے مراد فاتحہ کے علاوہ ہے۔ چونکہ متعدد صحیح اور حسن احادیث میں وارد ہو چکا ہے کہ بغیر فاتحہ کے نماز نہیں ہوتی۔ احناف کی دلیل ایک یہ حدیث بھی ہے مَنْ کَانَ لَه اِمَامٌ فَقِرَأة الْاِمَامِ لَه قِرَأة: یعنی مقتدی کے لیے امام کی قرأۃ ہی کافی ہے۔ امام شوکانی کہتے ہیں ضعیف ہے۔ اس سے استدلال ٹھیک نہیں۔ نیز قرآن کی آیت فَاسْتَمِعُوْا لَه وَ اَنْصِتُوْا کو بھی احناف بطور دلیل پیش کرتے ہیں۔ اول تو یہ آیت نماز کے بارے میں نہیں ہے اگر نماز کے متعلق بھی مان لی جائے تو جہری کے متعلق ہے نہ کہ سرّی کے امام شافعی اور ان کے اصحاب کا مسلک وجوب فاتحہ خلف الامام ہے۔ بغیر سرّی اور جہری کے مابین فرق کے، خواہ مقتدی امام کی قرأۃ سنتا ہو یا نہ سنتا ہو۔ ان کی دلیل اس باب میں واقع عبادہ بن صامت کی حدیث ہے اور شوافع نے قول اول کا جواب اس طرح دیا ہے۔ کہ وہ احادیث عام ہیں اور عبادہ بن صامت کی حدیث ہے اور شوافع نے قول اول کا جواب اس طرحخ دیا ہے۔ کہ وہ احادیث عام ہیں اور عبادہ کی حدیث خاص ہے اور عام پرخاص کی ترجیح ضروری ہے جیسا کہ اصول میں مقرر ہے علامہ شوکانی نے ’’ارشاد الفحول‘‘ میں اور ہم نے ’’حصول المأمول‘‘ میں بیان کر دیا ہے۔ احادیث صحیحہ بھی امام شافعی کے قول کی تائید کرتی ہیں۔ کہ ہر رکعت میں فاتحہ واجب ہے خواہ مقتدی ہو یا امام۔ ان احادیث سے راہ فرار اختتار نہیں کیجا سکتی مگر احادیث صحیحہ کے ساتھ نہ کے عمومی دلائل کے ساتھ۔ پھر شافعہ میں اختلاف ہے کہ فاتحہ سکتات امام میں پڑھی جائے یا امام کے ساتھ، ظاہر احادیث سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ امام کے ساتھ ہی پڑھی جائے، لیکن اگر سکتات امام میں پڑھی جا سککے تو یہ زیادہ مناسب ہے۔ چونکہ قول اول والوں کے نزدیک بھی یہ جائز ہے۔ لہذا اس پر عمل کرنے والا اجماع پر عامل ہو گا۔ امام کی قرأۃ کے وقت یا سورۃ پڑھنے کے وقت فاتحہ نہ پڑھنے پر کوئی دلیل وارد نہیں، بلکہ تمام صورتیں جائز اور سنت ہیں۔
القصہ حق بات یہ ہے کہ فاتحہ کا پڑھنا امام اور ماموم دونوں پر ہر رکعت میں واجب ہے اور قرأۃ فاتحہ صحت صلوٰۃ کی شروط میں سے ہے۔ اور جس شخص نے گمان کیا ہے کہ کوی نماز یا کوئی رکعت بغیر فاتحہ کے بھی ہو سکتی ہے۔ وہ اقامت حجت کا محتاج ہے۔ و اذ لیس فلیس
اس بحث سے جمہور کے مسلک کا ضعف خود بخود ظاہر ہو گیا۔ جمہور کا خیال ہے کہ اگر مقتدی نے امام کو رکوع میں پایا ہے اور ساتھ شامل ہو گیا اس کی وہ رکعت بھی ہو جائے گی اگرچہ اس نے بالکل قرأۃ نہ کی ہو۔ اور ان کی دلیل ابو ہریرہ کی روایت ہے۔ مَنْ اَدْرَکَ الرُّکُوْعَ مِنَ الرَّکْعَة الْاَخِیْرَة فِیْ صَلٰوتِه یَوْم الجمعه فَلْیُضف الیھا رکعة اخرٰی جس شخص نے نماز جمعہ کی ایک رکعت پالی وہ دوسری کو اس کے ساتھ ملالے۔ دار قطنی نے اسے روایت کیا ہے۔ اور اس میں لیس بن معاذ متروک الحدیث راوی ہے۔ نیز دار قطنی سے ہی مروی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: اذا ادرک احدکم الرکعتین یوم الجمعة فقد ادرک و اذا ادرک رکعة فلیرکع الیھا الاخرٰی یعنی جس نیظ نماز جمعہ کی دو رکعتیں ادا کر لیں ٹھیک لیکن اگر ایک رکعت پڑھی ہے تو اسے ایک اور ساتھ ملا لینی چاہیے۔ مگر اس کی سند میں بھی سلیمان متروک الحدیث اور صالح ضعیف راوی موجود ہیں۔ دونوں روایتوں میں جمعہ کی قید سے معلوم ہوتا ہے، کہ غیر جمعہ کی نماز اس ک یخلاف ہے اور اسی طرح دوسری روایت میں ایک رکعت کی قید مزید گو مدعا کے خلاف ہے۔ چونکہ رکعت اصل میں پوری رکعت کو کہتے ہیں نہ کہ رکوع یا اس کے بعد کے کسی حصے کو جیسا کہ صحیح مسلم میں برا کی روایت کے الفاظ ہیں: فوجدت قیامه فرکعته فاعتدا له فسجدته۔ چونکہ رکوع کا سجدے اور قیام کے برابر واقع ہونا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ پہلی روایت میں رکعت سے مراد رکوع ہے۔ اور حدیث من ادرک الرکعة من صلٰوة الجمعة جتنے طرق سے بھی آتی ہے۔ ان میں کوئی کلام سے خالی نہیں ہے۔ حتیٰ کہ ابن ای حاتم نے علل میں اپنے باپ سے روایت کی ہے۔ کہ لا اصل لھذا الحدیث انا المتن من ادرک من الصلٰوة رکعته فقد ادرکہا: یعنی اس حدیث کا اصل نہیں ہے۔ صرف یہ ہے کہ جس شخص نے نماز سے ایک رکعت پا لی اس نے نماز پا لی۔ اسی طرح دار قطنی اور عقیلی نے کہا ہے۔ ابن خزیمہ نے ابو ہریرہ سے مرفوعاً روایت کی ہے جس کے الفاظ اس طرح ہیں جس نے ایک رکعت امام کے سیدھا ہونے سے قبل اس نے نماز پالی (یعنی ثواب) یہ حدیث بھی ان کے مدعا پر دلالت نہیں کرتی۔ حقیقت عرفیہ اور شرعیہ جو حقیقت لغویہ پر مقدم ہیں۔ جیسا کہ اصول کا مسئلہ ہے۔ دونوں میں رکعت جمیع اذکار و ارکان کا نام ہے پس ابن خزیمہ والی اور اس سے قبل واقع حدیث کو اپنے حقیقی معنی سے پھیرنا صحیح نہیں ہے۔ اور حدیث میں جو قبل ان یقیم الامام صلبه (یعنی امام کے سیدھا ہونے سے پہلے رکعت پا لے) کی قید وغیرہ ہوتی ہے۔ تو یہ دفع وہم کے لیے ہے۔ یعنی وہ شخص جس نے تمام قرأت امام کے رکوع جانے سے قبل پڑھ لی مراد ہے۔ اگر کسی کے فاتحہ سے فارغ ہونے سے قبل امام نے رکوع کر دیا وہ بھی غیر مدرک رکعت ہے۔ یہاں سے یہ سمجھنا بالکل آسان ہے کہ مدرک رکعت صرف وہ ہے جس نے مکمل رکعت مع تمام اذکار و ارکان کے پالی ہے۔
حضرت ابو ہریرہؓ کی ایک اور روایت بھی ہے۔ انه قال صلی اللہ علیه وسلم من ادرک الامام فی الرکوع فلیرکع معه و لیعد الرکعة یعنی جو شخص امام کو رکوع میں پائے تو اس کے ساتھ شامل ہو جائے اور رکعت کو لوٹائے۔ نیز امام بخاری نے جزہ القرأۃ خلف الامام میں حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت کی ہے کہ اگر قوم رکوع پالے تو اس رکعت کو شمار نہ کرے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ بات صحیح ہے یعنی ابو ہریرہ کی موقوف روایت لیکن (مذکورۃ الصدر مرفوع) کا اصل نہیں ہے۔ اور رافعی امام صاحب کی اتباع کرتے ہوئے فرماتے ہیں: کہ ابو عاصم عبادی ابن خزیمہ سے حکایت کرتے ہیں کہ وہ ابو ہریرہؓ کی (مرفوع) حدیث سے حجت پکڑتے ہیں۔
اور امام بخاریؒ نے قرأۃ فاتحہ خلف الامام کے ہر قائل وجوب سے یہ مسلک نقل کیا ہے۔ علامہ ابن حجرؒ نے شافعیہ کی ایک جماعت سے اس مذہب کی حکایت کی ہے۔ شیخ تقی الدین سبکی وغیرہ نے محدثین شافعیہ سے روایت کی ہے۔ عقیلی نے بھی اسی مذہب کو ترجیح دی ہے۔ او کہا ہے کہ میں نے اس مسئلہ کو خوب کھنگالا ہے۔فقہ اور حدیث دونوں کی رو سے اس پر نظر کی ہے۔ مجھے اس سے زیادہ کچھ حاصل نذہیں ہوا، جو میں نے ذکر کر دیا ہے (یعنی رکعت شمار نہ کی جائے) عراقی نے اپنے شیخ سبکی سے شرح ترمذی میں حکایت کی ہے کہ جس نے فاتحہ نہیں پڑھی اسے رکعت شمار نہ کرے۔ تعجب تو اس پر ہے جس نے اس مسئلہ پراجماع نقل کیا ہے: (باوجود ان آئمہ کبار کے واضح خیالات کے) جو مدرک رکوع کی عدم رکعت کے قائل ہیں۔ جمہور کا ابی بکرہ کی روایت سے استدلال کہ ایک شخص نے دور سے نماز شروع کر دی تو آں حضرت نے اسے فرمایا زادک اللہ حرصاً و لاتعد۔ یعنی جو جمہور کے مسلک کی مؤید ہو، جیسے اس میں اعادہ کا حکم مذکور نہیں ہے۔ اسی طر یہ بھی ذکر نہیں ہے کہ آپؐ نے اس رکعت کو رکعت شمار کیا ہو۔ (دعا صرف اس کی حرص میں اضافہ کے لیے ہے اور ممانعت صرف دور سے نیت باندھنے سے ہے) باقی مقتدی امام کے ساتھ مامور بہ ہے۔ خواہ وہ چیز قابل اعتماد ہو یا نہو۔ جیسے حدیث میں ہے اذا جئتم الی الصلٰوة و نحن سجود فاسجدو و لا تعدوھا شیئاً یعنی اگر کوئی شخص اس وقت جماعت سے ملا ہے۔ جب امام سجدے میں ہے تو اسے سجدہ کرنا ہو گا اور وہ سجدہ رکعت میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ اخرجہ ابو داؤد وغیرہ۔ نبی علیہ السلام نے ابو بکرہ کو صرف ایسے فعل سے روکا ہے۔ اس سے یہ استدلال کہ آپ نے رکعت لوٹانے سے روکا ہے۔ یہ صحیح نہیں ہے۔ ابن حزم نے محلی میں اس حدیث پر اس طرح نوٹ دیا ہے جمہور کے لیے اس حدیث میں ہرگز کوئی دلیل نہیں ہے۔ چونکہ اس میںمذکور نہیں ہے کہ آپنے اس رکعت کو کافی سمجھا تھا۔ ابن حزم نے قیام اور قرأۃ فاتحہ کے لازم ہون پر اس حدیث سے استدلال کیا ہے۔ ما ادرکتم فصلو و ما فانکم فاتمو اور جزماً کہا ہے کہ رکعت اور رکن رکعت کے فوت ہونے میں کوئی فرق نہیں ہے۔ چونکہ جملہ ارکان کی تکمیل کے بغیر نماز نہیں ہو سکتی اور حدیث کا تقاضا یہ ہے کہ جو چیز امام پہلے ادا کر چکا ہے اسے پورا کیا جائے۔ اس حکم سے کسی رکن کو خارج کرنا مناسب نذہیں ہے اس کے بعد ابن حزم فرماتے ہیں کہ بعض حضرات نے اس پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے۔ ( و هو کاذب فی ذالک) یعنی اجماع کا مدعی جھوٹا ہے۔ چونکہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔ کہ ایسی رکعت شمار نہ کی جائے کہ جس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی جائے، نیز حضرت زید بن ثابت سے مروی ہے کہ اگر سوال کیا جائے کہ آدمی کھڑا ہو کر تکبیر کہے اور رکوع میں شامل ہو جائے کیا اسے مدرک رکعت کہیں گے تو یہ ایک دوسری نافرمانی ہے کہ اللہ تعالیٰ اور رسول کا حکم صرف یہ ہے۔ کہ آدمی جب نماز میں داخل ہو تو صرف اسی حالت میں داخل ہو جس میں امام اس وقت (یعنی اگر امام رکوع میں ہے تو رکوع میں اور اگر کسی مدوسری حالت میں ہے۔ تو اسی حالت میں) ہے۔ نیز یہ کسی نماز کے حصے کی قضا امام کے سلام سے قبل ہرگز جائز نہیں ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ جمہور کی سب سے بڑی دلیل ابو ہریرۃ کی وہ روایت ہے جس میں ’’قبل ان یقیم صلبه‘‘ کے الفاظ ہیں اور اسے ابن خزیمہ نے روایت کیا ہے حالاں کہ وہ ان کے مطلوب پر دلالت نہیں کرتی، نیز امام ابن خزیمہ کا مذہب بھی دوسرا ہے۔ کیسے ممکن ہے کہ ابن خزیمہ کے نزدیک یہ روایت صحیح ہو، اور اس کا مذہب اس کے الٹ ہو اور ہماری منجملہ دلیلوں کے ابوہریرہؓ اور قتادہ کی وہ روایات ہیں جو متفق علیہا ہیں۔ (ما ادرکتم فصلو وما فاتکم فاتموا) حافظ ابن حجر فتح الباری شرح بخاری میں رقم طراز ہیں کہ وہ اس روایت سے استدلال کیا جاتا ہے کہ جو شخص امام کو رکوع میں پائے وہ اس رکعت کو شمار نہ کرے، چوں کہ اس کا قیام اور قرأۃ فوت ہو چکے ہیں، پھر ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ جمہور کی دلیل ابو بکرہ کی روایت ہے اور اس کا جواب آپ پڑھ چکے ہیں۔ صاحب شرح منتقیٰ فرماتے ہیں کہ سید علامہ محمد بن اسماعیل الامیر نے اس موضوع پر ایک رسالۃ تالیف کیا ہے اور اس نے جمہور کے مذہب کو ترجیح دی ہے اور میں نے اس کے جواب میں چند بحثیں لکھی ہیں۔ جب یہ ثابت ہو گیا کہ مدرک رکوع رکعت نہیں ہے اور بغیر قرأۃ فاتحہ کے رکعت نہیں ہوتی