کیا فرماتے ہیں، علمائے دین اس مسئلہ میں کہ آمین بالجہر خاص مقتدیوں کے واسطے بالفاظ صریح غیر متحمل المعینیں آیا، کسی حدیث صحیح مرفوع متصل الاسناد سے ثابت ہے یا نہیں اور امام پر قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے اس لیے کہ امام بہت سی چیزوں کو بالجہر کہتا ہے، مثلاً تکبیر و قرأت و سلام وغیرہ آیا کسی حدیث یہ ثابت ہے یا نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کسی مقتدی نے آمین بالجہر کہی ہے یا نہیں؟
ہاں آمین بالجہر خاص مقتدیوں کے واسطے بالفاظ صریح غیر متحمل المعنیین ایسی حدیث صحیح، مرفوع متصل الاسناد سے ثابت ہے وہ حدیث یہ ہے: عن ابی ھریرة ان رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم قال اذا قال الامام غیر المغضوب علیھم و لا الضالین فقولوا اٰمین فانه من وافق قوله قول الملائکة غفر له ما تقدم من ذنبه اخرجه البخاری و مسلم و اللفظ للبخاری (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ کہ جب امام غیر المغضوب علیہم و لا الضالین کہے تو تم آمین کہو، جس کا قول فرشتوں کے موافق ہو جائے گا، اس کے پچھلے گناہ بخشے جائینگے)
اس حدیث میں لفظ فقولوا کا مصدر قول ہے جو متضمن معنین یا معانی چند کا ہرگز نہیں ہے اور جب مشترک نہیں ٹھہرا، تو متحمل معینیں کا نہیں ہو سکتا، غایت ما فی الباب لفظ قول چونکہ مطلق ہے اس وجہ سے اس کے افراد نکلیں گے اور کم از کم اس کے دو فرد نکلیں گے، قول بالجہر و قول بالسر، پس اس حدیث متفق علیہ سے جو مرفوع متصل الاسناد اور نہایت صحیح ہے آمین بالجہر مقتدیوں کے واسطے بالفاظ صریح غیر متحمل المعنیین ثابت ہوا، اور اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے مقتدی آمین بالجہر کہتے تھے کیوں کہ لفظ قولوا کے اصل مخاطب صحابہ رضی اللہ عنہم ہیں جو آپ کے پیچھے نماز پڑھتے تھنے اور آپ کے حکم کی تعمیل کے لیے جان سے حاضر رہتے تھے اگر تم یہ کہو، کہ جب قول مطلق ہے اور اس کے دو فرد ہیں، قول باجہر و قول بالسر، تو اس حدیث سے جیسے مقتدیوں کے لیے آمین بالجہر کہنا صراحتًہ ثابت ہوتا ہیخ اسی طرح ان کے لیے آمین بالسر کہنا بھی صراحتہ ثابت ہوتا ہے۔ کیوں کہ اس حدیث میں لفظ قولوا مطلق واقع ہے۔ اور بالجہر بالسر کی قید نہیں ہے تو جواب اس کا یہ ہے کہ جب لفظ مطلق علی الاطلاق بلا کسی قید کے استعمال کیا جاتا ہے تو اس مطلق سے اس کا فرد کامل مراد ہوتا ہے۔ علامہ صدر الشریعت توضیح میں تحریر فرماتے ہیں لان المطلق لایتناول رقبة و ھو فایت جلس المنفعة و ھذا ما قال علماؤنا ان المطلق ینصرف الی الکامل انتہٰی اور علامہ محب اللہ البہاری مسلم الثبوت میں لکھتے ہیں فانتقال الذھن من المطلق الی الکامل ظاھر انتہٰی اور ملّا جیونؒ نور الانوار میں لکھتے ہیں۔ و لنا فی ھذا المقام ضابطتان احدھما ان المطلق یجری علی اطلاقه و الثانیة ان المطلق ینصرف الی الفرد الکامل فالاول فی حق الاوصاف کالایمان و الکفر و الثانی فی حق الذات کا لزمانة و العمی انتہٰی مختصرا۔ ان تمام عبارات سے صاف ظاہر ہوا کہ جب مطلق کا اسفتعمال بلا کسی قید کے ہوتا ہے تو اس کا صرف وہی فرد مراد ہوتا ہے جو کامل ہوتا ہے اور بالکل ظاہر ہے کہ مطلق قول کے دونوں فرد قول بالجہر و قول بالسر میں سے قول بالجہر ہی فرد کامل ہے اور مطلق قول سے اسی قول بالجہر ہی کی طرف ذہن منتقل ہوتا ہے، بناء علیہ حدیث مذکور میں لفظ فقولوا آمین سے آمین بالجہر کا مراد ہونا متعین ہے، اور مطابق قاعدہ مذکورہ کے آمین بالسر مراد لینا جائز نہیں ہے۔
اور دوسرا جواب یہ ہے کہ عند الحنفیہ یہ قاعدہ مسلم ہو چکا ہے کہ فعل صحابی مطلق یا عام کا مخصص ہوتا ہے، مسلم الثبوت میں ہے فعل الصحابی العادل العالمه مخصص عند الحنفیة و الحنابلة خلافا للشافعیة و المالکیة انتہٰی مختصرا۔
ترجمہ:عادل، عالم صحابی کا فعل حنفیوں اور حنبلیوں کے نزدیک حدیث مطلق کا مخصص ہے برخلاف شافعیہ اور مالکیہ کے ۱۲
اور اہل علم پر مخفی نہیں ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہ کا فعل آمین بالجہر ہی تھا، امام کے پیچھے صحابہؓ آمین بالجہر ہی کہا کرتے تھے، صحیح بخاری میں ہے امن ابن الزبیر و من ورائة حتی ان للمجسد للجة و کان ابو ھریرة ینادی الامام لاتفتنی باٰمین
ترجمہ: ابن زبیر اور ان کے مقتدیوں نے آمین کہی تو مسجد گونج اٹھی، حضرت ابو ہریرہ امام کو آواز دیا کرتے تھے کہ مجھے آمین کہہ لینے دینا۱۲
فتح الباری میں ہے وصله عبد الرزاق عن ابن جریج عن عطاء قال قلت له کان ابن الزبیر یؤمن علی اثر ام القراٰن قال نعم و یؤمن من ورائه حتی ان للمسجد للجة ثم قال انما اٰمین دعاء قال و کان ابو ھریرة یدخل المسجد و قد قام الامام فینادیه فقول لاتسبقنی باٰمین وروی البہقی من وجه اٰخر عن عطاء قال ادرکت مائتین من اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم فی ھذا المسجد اذا قال الامام و لا الضالین سمعت لھم رجة باٰمین۔
ترجمہ: ابن جریج کہتے ہیں کہ میں نے عطاء سے سوال کیا، کیا عبد اللہ بن زبیرؓ آمین کہا کرتے تھے، کہا ہاں آپ کے مقتدی بھی آمین کہتے تھے تو مسجد گونج اٹھتی تھی پھر فرمایا کہ آمین دعا ہے اور فرمایا کہ ابو ہریرہ مسجد میں آتے اور جماعت کھڑی ہو چکی ہوتی تو امام کو آواز دیتے میری آمین نہ ضائع کرنا۔ عطاء کہتے ہیں۔ کہ میں نے د سو صحابہؓ کو اس مسجد میں اس حال میں دیکھا کہ جب امام ولا الضالین کہتا، تو ان کے آواز سے مسجد کانپ جاتی۱۲
پس جب ثابت ہوا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم امام کے پیچھے آمین بالجہر کہتے تھے تو صحابہ کا یہ فعل مطابق قاعدہ مذکورہ حنفیہ کے حدیث مذکور میں لفظ فقولوا اٰمین کا مخصص ہو گا، یعنی اس سے صرف آمین بالجہر مراد ہو گی۔ اور انہی آثار صحیحہ سے یہ بھی ثابت ہوا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے آمین بالجہر کہیں اور ابن زبیرؓ وغیرہ امام کے پیچھے آمین بالجہر کہیں اور وہاں واضح رہے کہ کسی صحابہ سے آمین بالسر کہنا بسند صحیح ثابت نہیں ہے اور بعض آثار جو آمین بالسر کے بارے میں منقول ہیں وہ ضعیف ہیں۔ واللہ اعلم۔