سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(23) آمین بالجہر امام‘ ماموم و منفرد کےلیے صلوة جہر میں احادیث صحیحہ مرفوعہ ‘ غیر منسوخہ سے ثابت ہے

  • 2960
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1068

سوال

(23) آمین بالجہر امام‘ ماموم و منفرد کےلیے صلوة جہر میں احادیث صحیحہ مرفوعہ ‘ غیر منسوخہ سے ثابت ہے
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آمین بالجہر امام و ماموم و منفرد کے لیے صلٰوۃ جہرہ میں کہنا احادیث صحیحہ مرفوعہ غیر منسوخہ سے ثابت ہے یا نہیں اور اس کا کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیلکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آمین بالجہر کہنا حضرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہوا ہے جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے۔ عن ابی ھریرة قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم اذا فرغ من قرائة القراٰن رفع صوته و قال اٰمین رواہ الدار قطنی و حسنه و الحاکم و صححه کذا فی بلوغ المرام۔ عن وائل بن حجر قال سمعت النبی صلی اللہ علیه وسلم قرأ غیر المغضوب علیھم و لا الضالین و قال اٰمین و مد بھا صوته رواہ الترمذی
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب قرأت فاتحہ سے فارغ ہوتے، تو بلند آواز سے آمین کہتے۔ وائل بن حجر کہتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ے غیر المغضوب علیہم و لا لین پڑھا تو میں نے خود سنا، کہ آپ نے بلند آواز سے آمین کہی۔
پس ان حدیثوں سے آمین بالجہر کہنا امام کا ثابت ہوا، لیکن منفرد پس حکم منفرد اور امام کا ہر چیز میں واحد ہے جیسا کہ احادیث صحیحہ مرفوعہ سے ثابت ہو، پس جب کہ ثابت ہوا واسطے امام کے ثابت ہوا واسطے منفرد کے باقی رہا حکم مقتدی کا پس لکھتا ہوں میں کہ مقتدی کا بھی آمین پکار کے کہنا حدیث مرفوع سے مستنبط ہے اس واسطے کہ روایت ہے ابن عباس سے قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم ما حسدتکم الیھود علی شئ ما حسدتکم علی اٰمین فاکثروا من قول اٰمین رواہ ابن ماجه:
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عباس آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حترم چچا کے بیٹے ہیں۔ ہجرت سے تین سال قبل پیدا ہوئے۔ امت محمدیہ کے بڑے عالم اور بہترین اشخاص میں سے ہیں۔ بمقام طائف ۶۸ ھ میں بزمانہ ابن الزبیر وفات پائی۔ (سعیدی)
یعنی فرمایا حضرت نے کہ نہیں حسد کیا یہود نے تم لوگوں کے ساتھ کسی فعل کے کرنے سے جس قدر کہ حسد کرتے ہیں تم لوگو کے آمین کہنے سے، پس بہت کثرت کرو آمین کہنے کی، اور ظاہر ہے کہ جب تک آمین بالجہر کہی نہ جاوے اور کانوں تک یہود کے آواز نہ پہنچے، تب تک صورت حسد کی نہیں ہو سکتی، اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے باب جہرالماموم بالتامین میں روایت کی ہے عن ابی ھریرة ان رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم قال اذا قال الامام غیر المغضوب علیھم و لا الضالین فقولوا اٰمین فانه من وافق قوله قول الملائکة غفر له ما تقدم من ذنبه رواہ البخاری۔
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب امام غیر المغضوب علیہم و لا الضالین کہے تو تم آمین کہو جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے متحد ہو جائے گی اس کے پہلے گناہ بخش دیے جائیں گے۔
پس لفظ قولوا سے جہر قول بالتامین مراد ہے اور مؤید اس کے ہے عمل حضرت ابو ہریرہ کا کہ روایت کیا اس کو شیخ بدر الدین عینی نے کتاب عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری میں بیہقی سے و کان ابو ھریرة مؤذنا لمروان فاشترط ان لا یسبقه بالضالین حتی یعلم انه قد دخل فی الصف فکان اذا قال مروان و لا الضالین قال ابو ھریرة اٰمین یمد بھا صوته و قال اذا وافق تامین اھل الارض تامین اھل السماء غفر لھم رواہ البیہقی کذا فی العینی
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ ؓ مروان کے مؤذن تھے آپ نے اس شرط سے کر لی تھی کہ مروان اس وقت تک و لا الضالین نہ پڑھے گا۔ جب تک کہ ابو ہریرہؓ صف میں شامل نہ ہوں گے۔ جب مروان و لا الضالین کہتا تو حضرت ابو ہریرہ ؓ بلند آواز سے آمین کہتے اور فرماتے جب زمین والوں کی آمین آسمان والوں کی آمین مل جاتی ہے تو ان کو بخش دیا جاتا ہے۔
اور امام ترمذی بعد روایت حدیث وائل بن حجرؓ کے فرماتے ہیں قال ابو عیسیٰ حدیث وائل بن حجرؓ حدیث حسن و به یقول غیر واحد من اھل العلم من اصحاب النبی صلی اللہ علیه وسلم و التابعین و من بعدھم یرون ان یرفع الرجل صوته بالتامین و لا یخفیھا و به یقول الشافعی و احمد و اسحق انتھٰی۔
ترجمہ: امام ترمذی کہتے ہیں وائل بن حجر ؓ کی حدیث حسن ہے بہت سے اہل علم صحابہ، تابعین اور بعد کے لوگوں کا یہی ارشاد ہے۔ کہ آدمی بلند آواز سے آمین کہے، آہستہ نہ کہے آہستہ نہ کہے امام شافعی، احمد بن حنبل اور اسحاق وغیرہ کا یہی مذہب ہے۔

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 3 ص 139-140

محدث فتویٰ

تبصرے