سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(21) اگر مقتدی فاتحہ ختم نہ کر سکے تو آمین امام کے ساتھ کہے یا اپنی فاتحہ ختم کرنے کے بعد ۔

  • 2958
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1306

سوال

(21) اگر مقتدی فاتحہ ختم نہ کر سکے تو آمین امام کے ساتھ کہے یا اپنی فاتحہ ختم کرنے کے بعد ۔
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک شخص امام کے ساتھ اس وقت شامل ہوا، جب امام غیر المغضوب پڑھ چکا تھا، اب یہ مقتدی امام کے ساتھ آمین کہے یا پہلے اپنا الحمد ختم کرے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیلکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دونوں باتوں پر عمل کرے امام کے ساتھ بھی آمین کہے اور اپنی فاتحہ ختم کر کے بھی آمین کہے۔ پہلی آمین جو امام کے ساتھ کہتا ہے اس کی دلیل یہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ امام آمین کہے تو تم اٰمین کہو اور دوسری اٰمین کی دلیل یہ ہے کہ ایک شخص نے بہت عاجزی سے دعا کی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس نے جنت کو یا قبولیت دعا کو (اپنے لیے) واجب کر لیا۔۔۔۔ اگر ختم کیا۔ ایک شخص نے عرض کی کہ کس چیز کے ساتھ ختم کیا؟ فرمایا: اٰمین کے ساتھ (مشکوٰۃ باب القرأۃ فی الصلٰوۃ فصل نمبر۲ ص ۷۲)
چوں کہ فاتحہ بھی دعا ہے اس لیے اس کو بھی اٰمین کے ساتھ ختم کرنا چاہیے تا کہ قبولیت کے مقام کو پہنچ جائے یا اس کے لیے جنت واجب ہو جائے۔ خلاصہ یہ کہ پہلی آمین امام کی فاتحہ پر ہے جس کی دلیل پہلی حدیث ہے۔ دوسری آمین اپنی فاتحہ پر ہے جس کی دلیل دوسری حدیث ہے۔ اس طر ح دونوں حدیثوں پر عمل ہو گیا، بلکہ تینوں حدیثوں پر، تیسری حدیث میں ہے کہ ’’فاتحہ کے بغیر نماز نہیں۔‘‘
مسئلہ
اخرج البخاری عن عطاء تعلیقاً امن ابن الزبیر و من خلفه حتی ان للمسجد للجة و روی ابن حبان فی کتاب التفات فی ترجمة خالد بن ابی نوف عنه عن عطاء ابن ابی رباح قال ادرکت مائتین من اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم فی ھذا المسجد یعنی المسجد الحرام اذا قال الامام و لاالضالین رفعو ا اصواتھم باٰمین و اخرج النسائی و ابن خزیمة عن نعیم المجمر قال صلیت وراء ابی ھریرة فقرأ بام القراٰن حتی بلغ و لا الضالین فقال اٰمین و قال الناس اٰمین و یقول اذا سلم و الذی نفسی بیدہ انی لاشبھکم صلٰوة رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم و کان ابو ھریرة ینکر علی من یترک الجھر بالتأمین کما فی روایة ابن ماجة عن ابی ھریرة قال ترک الناس التامین و کان رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم اذا قال غیر المغضوب علیھم و لا الضالین قال اٰمین حتی یسمعھا اھل الصف الاول فیترتج بھا بالمسجد و کیف یظن بالخلفاء الاربعة ان یجھر رسول الہ صلی اللہ علیه وسلم و من خلفه حتی یکون للمسجد ارتجاج و یخالفھم الاربعة ۔۔۔۔ و ھل مذا الامکابرة او جھالة و لھذا صرح المولوی عبد الحی الکھنوی فی التعلیق الممجد و الانصاف ان الجھر قوی من حیث الدلیل ۱۲
ترجمہ: امام بخاری علیہ الرحمۃ نے عطاء سے تعلیقاً روایت کی ہے کہ ابن زبیر اور اس کے مقتدیوں نے اس قدر بلند آواز سے آمین کہی کہ مسجد گونج اٹھی اور ابن حبان نے کتاب الثقات میں خالد بن ابی نوف کے حالات کے بیان سے اسی خالد سے روایت کی ہے کہ خالد نے عطاء بن ابی رباح سے روایت ہے کہ عطاء نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو سو صحابہؓ کو مسجد حرام میں امام کے و لا الضالین کہنے کے وقت بلند آواز سے آمین کہتے ہوئے پایا۔ نسائی اور ابن خزیمہ نے نعیم مجمر سے روایت کی ہے کہ میں نے ابو ہریرہؓ کے پیچھے نماز ادا کی تو انہوں نے سورۃ فاتحہ پڑھی جب و لا الضالین پر پہنچے تو ابو ہریرہؓ اور سب لوگوں نے آمین کہی اور ابو ہریرہؓ سلام پھیر کر فرماتے تھے کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تحقیق میں تم سب سے بڑھ کر رسول اللہ کے ساتھ نماز میں مشابہ ہوں۔ اور ابو ہریرہ آمین اونچی نہ کہنے والے پر انکار کرتے تھے جیسے ابن ماجہ میں ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا لوگوں نے آمین کہنی چھوڑ دی حالاں کہ رسول اللہ جب غیر المغضوب علیہم و لا الضالین پڑھتے تو اس قدر بلند آواز سے آمین کہتے کہ پہلی صف والے سن لیتے اور مسجد مل جاتی۔ جب کہ رسول اللہؐ اور آپ کے مقتدیوں نے اس قدر بلند آواز سے آمین کہی کہ مسجد کانپ اٹھی تو خلفاء اربعہ پر یہ بد گمانی ہو سکتی ہے کہ انہوں نے ان سے مخالفت کی ہو اگر کوئی ایسا کہے تو صرف سینہ زوری اور جہالت ہے، اسی لیے تو مولانا عبد الحئ نے تعلیق ممجد میں تصریح کی ہے کہ دلیل کی رو سے اونچی آمین کہنا قوی ہے۱۲

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 3 ص 136۔137

محدث فتویٰ

تبصرے