سورہ فاتحہ پڑھنی مقتدی کو امام کے پیچھے بہ لحاظ حدیث ’’لا صلوٰة الا بفاتحة الکتاب‘‘ اور بلحاظ آیۃ شریف و اذا قرئ القراٰن فاستمعوا له و انصتوا۔ کیا حکم ہو گا اور امام ابو حنیفہؒ کے قول سے معلوم ہوتا ہے کہ الحمد پڑھنا امام کے پیچھے منع ہے۔ اور امام شافعیؒ کے نزدیک بدوں پڑھے نماز جائز نہیں۔ کیا کرنا چاہیے۔ اور کس کے فتویٰ پر عمل بہتر ہے؟
پڑھنا سورۃ فاتحہ کا مقتدی کو امام کے پیچھے امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک منع ہے اور امام محمدؒ کے نزدیک امام کے آہستہ پڑھنے میں (نماز سریہ میں) جائز بلکہ اولیٰ ہے۔ اور نزدیک امام شافعیؒ کے بغیر سورہ فاتحہ پڑھے نماز جائز نہیں اور نزدیک فقیر کے بھی قول امام شافعیؒ کا ترجیح رکھتا ہے اور بہتر ہے کیوں کہ بلحاظ حدیث صحیح ’’لا صلوٰة الا بفاتحة الکتاب‘‘ کے نماز باطل ہونا ثابت ہوتا ہے۔ اور قول امام ابو حنیفہؒ کا جا بجا وارد ہے کہ جس جگہ حدیث صحیح وارد ہو اور میری بات اس کے خلاف پڑے تو میرے قول کو ترک کر کے حدیث پر عمل کرنا چاہیے اور مطلب آیت کریمہ کا یہ ہے کہ جس وقت امام دوسری سورۃ ملادے تو مقتدی چپ رہے اور سنے تا کہ سورۃ فاتحہ کے لیے کہ ام الکتاب ہے۔ اور مستثنیٰ ہے بعض احادیث صحیحہ کے مفہوم سے علماء محققین و محدثین و مفسرین نے اس باب میں بہت گفتگو کی ہے۔ بالآخر تجویز یہ ہوئی کہ سورۃ فاتحہ پیچھے امام کے مقتدی پڑھے اس طور کہ جس وقت امام لفظ الحمد پڑھے مقتدی سنے اور کہے الحمد للہ آخر سورۃ تک اسی طور سے بآہستگی ملاوے اور جب امام آمین پر پہنچے تو سب مقتدی پکار کرآمین کہے اور اس باب میں صحیح بخاری میں بھی ایک حدیث وارد ہے۔ اب شان نزول موافق بیان اور تحقیقات شیخ کامل شاہ ولی اللہ صاحبؒ محدث دہلوی کے معلوم کرنا چاہیے کہ پیغمبر خدا صلی اللہ مدینہ کی مسجد میں نماز پڑھتے تھے اور صحابہ بھی آپ کے پیچھے نماز پڑھتے تھے اور جس سورۃ کو آپ جہر سے پڑھتے مقتدی بھی آہستہ اس کو پڑھتے جب سورۃ فاتحہ پڑھ کر ’’سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی الَّذِیْ الخ شروع کیا تو صحابہ بھی بنظر اتباع پڑھنے لگے اسی اثنا میں یہ آیت نازل ہوئی تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قرأۃ امام قرأۃ مقتدی کی ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے۔ کہ یہ آیت دوسری سورۃ کے منع میں نازل ہوئی نہ کہ سورۃ فاتحہ کے لیے۔ اور پھر سب صحابہ پیچھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سورۃ فاتحہ ہمیشہ ادا کرتے رہے کبھی آپ نے منع نہ فرمایا پس لازم ہے کہ سورہ فاتحہ کو مقتدی امام کے پیچھے پڑھا کریں تابعداروں میں مفسرین اور محدثین کے داخل رہیں۔ اور سورئہ فاتحہ کے چھوڑنے میں خلاف حدیث صحیح کے ہو گا۔ اور کیا تعجب ہے۔ کہ صحت اس حدیث کی امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو نہ پہنچی ہو اور جب کہ صدہا اور ہزارہا علماء محققین مثل امام بخاری و صاحب مسلم وغیرہ رحمہم اللہ پر صحت اس کی ثابت ہو گئی تو اس کے چھوڑنے میں مطعون ہو گا۔ انتہیٰ۔‘‘
قارئین کرام کو معلوم ہو گا کہ شاہ عبد العزیزؒ و شاہ ولی اللہ صاحب کہاں تک حق بجانب ہیں کیا ان کا یہ قول قابل عمل نہیں؟ سلیم الطبع حضرات فوراً اس پر عمل پیرا ہو کر ثواب دارین کے مستحق ہونگے لیکن جو لوگ تقلید کے پیچھے اپنی قوت مدرکہ سلب کر چکے ہوں اور ہٹ دھرمی کا مادہ جن کے رگ و ریشہ میں پیوست ہے۔ وہ کسی حالت سے اس پر عمل کرنے کے لیے تیار نہ ہوں گے۔ اور ایسے لوگ میری تحریر سے مستثنیٰ ہیں یہ تو ان لوگوں کے لیے لکھا گیا۔ جنہیں حق کی تلاش منظور ہے۔
حضرت مولانا عبد الحئ صاحب لکھنوی عمدۃ الرعایہ میں فرماتے ہیں وروی عن محمد انه استحسن قرأة الفاتحة خلف الامام فی السریة و روی مثله عن ابی حنیفة صرح به فی الھدایة و المجتبیٰ شرح مختصر القدری و غیرھما و ھذا ھو مختار کثیر من مشائخنا۔‘‘ یعنی امام محمدؒ سے مروی ہے کہ انہوں نے امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے کو سری میں مستحسن بتایا ہے۔ اور اسی طرح امام ابو حنیفہؒ سے روایت کیا گیا ہے۔ اور اسی کو ہمارے بہت سے مشائخ نے اختیار کیا ہے۔
عبد اللہ بن مبارک (شاگرد امام اعظم) فرماتے ہیں انا اقرأ خلف الامام و الناس یقرؤن الا قوم من الکوفین میں اور لوگ امام کے پیچھے پڑھتے ہیں مگر کوفے والوں میں سے ایک قوم (یہ اشارہ ہے امام اعظم صاحب کی طرف) علامہ شعرانی لکھتے ہیں: لابی حنیفة و محمد قولان احدھما عدم وجوبھا علی الماموم و لا تسن و ھذا قولھما القدیم و ادخله محمد فی تصانیفه القدیمة انتشرت النسخ الی الاطراف و ثانیھما استحسانھا علی سبیل الاحتیاط و عدم کراھتھا عند المخافة للحدیث المرفوع لاتفعلوا الا بام القران و فی روایة لتقرؤا بشیء اذا جھرت الا بام القران و قال عطاء کانوا یرون علی الماموم القرأة فی ما یجھر فیه المام فی ما لیس فرجعا من قولھما الاول الی الثانی احتیاط انتھٰی کذا فی غیث الغمام حاشیة امام الکلام۔ خلاصہ ترجمہ اس عبارت کا یہ ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام محمدؒ کے دو قول ہیں ایک یہ کہ مقتدی کو الحمد پڑھنا نہ واجب ہے اور نہ سنت اور ان دونوںگ ائمہ کا یہ قول پرانا ہے۔ اور امام محمدؒ نے اپنی قدیم تصنیفات میں اس قول کو درج کیا ہے۔ اور ان کے نسخ اطراف و جوانب میں پھیل گئے اور دوسرا قول یہ ہے کہ مقتدی کو نماز میں الحمد پڑھنا مستحسن ہے احتیاطاً اس واسطے کہ حدیث مرفوع میں بآواز بلند قرأت کروں تو تم لوگ کچھ نہ پڑھو مگر سورۃ فاتحہ اور عطاء نے کہا (عطاء کے متعلق امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ’’ما رأیت فیمن لقیت افضل من عطاء یعنی عطاء سے افضل میں نے کسی کو نہیں دیکھا۔ (تخریج زیلعی ص ۲۴۸ ج ۱) کہ لوگ (صحابہؓ و تابعینؓ) کہتے تھے کہ نماز سرّی و جہری دونوں میں مقتدی کو پڑھنا چاہیے۔ پس امام ابو حنیفہؒ اور امام محمدؒ نے احتیاطاً اپنے قول سے دوسرے قول کی طرف رجوع کیا۔‘‘
علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ شارح بخاری میں لکھتے ہیں: بعض اصحابنا یستحسنون ذلک علی سبیل الاحتیاط فی جمیع الصلٰوة و بعضھم فی السریة فقط و علھا فقہاء الحجاز و الشام کذا فی غیث الغمام ص ۱۰۶۔
یعنی ہمارے بعض فقہاء حنفیہ نے ہر نماز میں خواہ سری ہو یا جہری امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کو احتیاط مستحسن باتے ہیں اور بعض فقہاء فقط سری میں مکہ اور مدینہ اور ملک شام کے فقہاء کا اسی پر عمل ہے اور شیخ الاسلام مولانا عبد الرحیم صاحب فرماتے ہیں۔ لو کان فی فہی یوم القیامة جمرة احب الی من ان یقال لا صلٰوة لک اگر قیامت کے روز میرے منہ میں آگ ہو تو یہ بہتر ہے اس بات سے کہا جائے کہ تیری تو نماز ہی نہیں ہوئی۔ مولانا موصوف کے اس کلام سے اشارہ ہے اس گھڑی اور ضعیف حدیث کی طرف کہ جو شخص امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھے گا تو اس کے منہ میں قیامت کے دن آگ بھرا جائے گا۔
ملاّ جیون صاحب نور الانوار تفسیر احمدی لکھتے ہیں: فان رایت الطائفة الصوفیة و المشائخین الحنفیة تراھیم یستحسنون قرأۃ الفاتحة للمؤتم کما استحسنه محمدؒ ایضا احتیاطاً فیما روی عنه انتہٰی اگر جماعت صوفیہ اور مشائخین کو دیکھو گے تو تمہیں معلوم ہو گا کہ یہ لوگ امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کو مستحسن بتاتے ہیں جیسا کہ امام محمدؒ استحسان کے قائل تھے۔ اور مولانا شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلویؒ نے امام گکے پیچھے احلمد پڑھنے کو افضل بتایا ہے۔ دیکھو ۔۔۔۔ حجۃ اللہ البالعہ اور اپنے والد ماجد شاہ عبد الرحیم صاحب کے متعلق فرماتے ہیں۔ ’’مخفی نماند کہ حضرت ایشاں در اکثر امور موافق مذہب حنفی عمل مے کروند الابعض چیزہا کہ بحسب حدیث یا با وجدان بمذہب دیگر ترجیح مے یا فتند ازاں جملہ آنست کہ در اقتداء سورئہ فاتحہ می خواند ند ودر جنازہ نیز۔‘‘ اور مولانا محمد اسماعیل صاحب برادر زادہ شاہ عبد العزیزؒ تنویر العینین میں فرماتے ہیں۔
یظھر بعد التامل فی الدلائل ان القرأة اولٰی من ترکھا فقد قولنا فیه علی قول محمدؒ۔ تامل کے بعد دلائل میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سورہ فاتحہ امام کے پیچھے پڑھنا بہتر ہے نہ پڑھنے سے پس اس مسئلہ میں ہمارا قول امام محمدؒ کے قول کے موافق ہے۔
لباب الالباب حنفی شرح ہدایہ میں لکھتے ہیں انه لم یعتبر محمدؒ خلاف من قال تفسد صلوٰة المقتدی بقرأة خلف الامام لانہ بعید عن قواعد الشرع انتھٰی ’’زبدة الالباب۔‘‘
یعنی امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے نہیں اعتبار کیا اس شخص کا خلاف کرنے کا جو کہتا ہے کہ امام کے پیچے پڑھنے سے مقتدی کی نماز فاسد ہو جاتی ہے۔ کیوں کہ یہ بات قواعد شرع سے بعید ہے۔
تفسیر کبیر میں امام فخر الدین رازی نقل فرماتے ہیں، وافقنا ابو حنیفه فی ان القرأة خلف الامام لا تبطل الصلوٰة انتہٰی ہماری موافقت ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے کی اس بات میں کہ الحمد امام کے پیچھے پڑھنے سے نماز باطل نہیں ہوتی