سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(16) صحابہ کرام ﷜ اور دیگر ائمہ دین امام کے پیچھے سورة فاتحہ پڑھتے تھے یا نہیں ۔

  • 2953
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 4166

سوال

(16) صحابہ کرام ﷜ اور دیگر ائمہ دین امام کے پیچھے سورة فاتحہ پڑھتے تھے یا نہیں ۔
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم و آنجناب کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم و دیگر ائمہ و بزرگانِ دین جن کے اسم ہائے مبارک ذیل میں درج ہیں۔ ان کی نسبت جواب کو سوال کے مطابق ارقام فرمائیں اور ثواب دارین حاصل کریں۔
نمبر۱ بحالت نماز جماعت خلف امام سورۃ فاتحہ پڑھتے تھے یا نہیں؟
نمبر۲ آیا آپ بحالت نماز جماعت ختم قرأت فاتحہ آمین بالجہر کہتے تھے یا نہیں؟
نمبر۳ آیا بحالتِ نماز رفع یدین کے عامل تھے یا نہیں، آیا بحالت نماز ہاتھ زیر ناف باندھتے تھے یا سینہ پر؟
نمبر ۴ ماہِ رمضان المبارک میں تراویح معہ و ترکتنی رکعت پڑھتے؟ حوالہ کتب معتبرہ شرعیہ سے تحریر فرمایا جاوے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ، حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ، حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ، حضرت امام ابو جحنیفہ رضی اللہ عنہ حضرت امام مالک رضی اللہ عنہ، حضرت امام شافعی رضی اللہ عنہ، حضرت احمد حنبل رحمۃ اللہ علیہ، حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ، حضرت امام غزالی رضی اللہ عنہ۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیلکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 قرآن مجید بتا رہا ہے۔ کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کوئی حکم اپنی مرضی سے نہیں دیا کرتے تھے۔ بلکہ وہی فرماتے تھے جس کا حکم اللہ سبحانہ تعالیٰ کی طرف سے صادر ہوتا تھا۔ (۲) رسولِ خدا احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے بحکم خدا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو ارشاد فرمایا، لا تقرؤا بشئ من القراٰن اذا جھرت الا بام القراٰن (ابو دائود) جب میں جہری نمازوں میں قرأت پکار کر پڑھوں تو تم اس وقت سوائے سورہ فاتحہ کے اور کوئی سورت قرآن کی میرے پیچھے نہ پڑھا کرو۔
نمبر۳ فانہ لا صلٰوة لمن لم یقرء بفاتحة الکتاب کیوں کہ جو شخص سورۃ فاتحہ امام کے پیچھے نہ پڑھے اس کی نماز ہی نہیں ہوتی۔ (مشکوٰة باب القرأة فی الصلوٰة)
نمبر۴ آثار صحابہؓ سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنے پیارے رسول کے احکام عالیہ کی تعمیل بڑے تپاک سے کرتے تھے۔ آپ کا فرمان سن کر حاضرین میں سے ایک بھی ایسا نذہ تھا جو فاتحہ خلف الامام کا قائل نہ ہو۔
نمبر۵ چنانچہ امام ترمذی حدیث عبادہ کے ماتحت فرماتے ہیں۔ و العمل علی ھذا الحدیث فی القرأة خلف الامام عند اکثر اھل العلم من اصحاب النبی صلی اللہ علیه وسلم و التابعین و ھو قول مالک ابن انس و ابن المبارک و الشافعی و احمدو اسحق یرون القرأة خلف الامام۔
اکثر صحابہ کرام اور تابعین کا عمل فاتحہ خلف الامام پر تھا اور امام مالک اور شافعی اور احمد بن حنبل رحمۃ اللہ سب فاتحہ خلف الامام کے قائل تھے۔ (ترمذی)
نمبر۶ حارث اور یزید بن شریک فرماتے ہیں۔ امرنا عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ قرأة خلف الامام کہ ہم کو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ امام کے پیچھے پڑھا کریں۔ (جزء القرأۃ للبیہقی ص ۹۶، مستدرک حاکم ص ۲۳۹، کنز العمال ص ۱۸۷ ج ۳)
نمبر ۷و عن علی انه کان یامران یقرأ خلف الامام اور حضرت علی المرتضیٰ شیرِ خدا رضی اللہ عنہ بھی فاتحہ خلف الامام کا حکم کیا کرتے تھے۔ (جزء ۃ القراۃ ص ۶۲)
نمبر ۸ و عن الحسن انه یقول اقرء و اخلف الامام فی کل صلٰوة بفاتحة الکتاب فی نفسک: اور امام حسنؓ فرماتے ہیں کہ امام کے پیچھے ہر ایک نماز (خواہ سری ہو یا جہری) سورۃ فاتحہ پڑھا کرو۔ (جزء القرأۃ)
نمبر۹ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ بھی فاتحہ خلف الامام کے قائل ہیں اور فرماتے ہیں جو شخص امام کے پیچھے الحمد نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی۔ (دیکھو احیاء العلوم مصنفہ امام غزالیؒ)
نمبر ۱۰ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ بھی سرّی نمازوں میں فاتحہ کے جواز کے قائل تھے اور جہری نماز میں بھی اگر سکتات میں پڑھ لے تو کوئی حرج نہیں۔ (عمدۃ الرعایہ ص ۱۷۳)
نمبر ۱۱ ملاّ جیون حنفی مصنف نور الانوار اپنی تفسیر احمدی میں فرماتے ہیں: فان الطائفة الصوفیة و المشائخین الحنفیة تراھم یستحسنون قرأة الفاتحة للمؤتم کما استحسنه محمد احتیاطا فیما روی عنه: صوفیہ کرام اور مشائخ حنفیہ بھی امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کی طرف فاتحہ خلف الامام کو مستحسن اور اچھا سمجھتے تھے احتیاطا جس طرح ہدایہ وغیرہ میں بھی ہے۔
نمبر ۱۲ امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ فاتحہ خلف الامام واجب ہے۔ اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی یی مذہب ہے۔ امام مالک اور امام شافعی اور جمہور علماء صحابہ اور تابعین اور تبع تابعین رضوان اللہ علیہم اجمعین کا (نوی شرح مسلم)
نمبر3 ۱ پیر عبد القادر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سورۃ فاتحہ ارکان نماز میں سے ہے۔ (غنیہ ص ۱۰)اور اگر کوئی رکن جان بوجھ کر چھوڑ دے یا بھول جاوے تو اس کی نماز باطل ہو جاتی ہے۔ (لہٰذا فاتحہ ضرور پڑھنی چاہیے) (غنیۃ الطالبین ص ۱۲)
نمبر ۱۴ عبد اللہ بن مبارک شاگرد امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: انا اقرء خلف الامام و الناس یقرؤن الا قوم من الکوفین کہ میں امام کے پیچھے پڑھتا ہوں اور تمام لوگ پڑھتے ہیں۔ مگر کوفیوں کی قوم نہیں پڑھتی (ترمذی)
نمبر ۱۶ خلاصہ تمام مضمون کا یہ ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے بامر اللہ تعالیٰ صحابہ کرام کو فرمایا میرے پیچھے سورہ فاتحہ ضرور پڑھا کرو۔ ورنہ تمہاری نماز باطل ہو جائے گی۔ یہ حکم سن کر تمام جاں نثار فاتحہ خلف الامام کے قائل و فاعل تھے، حضوصاً حضرت عمر فاروضؓ و علی المرتضیٰ وغیرہ تو حکماً پڑھوایا کرتے تھے اسی طرح تابعین بھی فاتحہ خلف الامام کے قائل تھے اور ائمہ کرام میں سے امام مالک اور امام شافعیؒ اور امام احمدؒ اور امام غزالی اور امام حسینؓ اور دیگر ائمہ بھی فاتحہ خلف الامام کے قائل تھے۔
نمبر ۱۷ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ آمین بالجہر بعد قرأت فاتحہ کہا کرتے تھے۔ وائل بن حجر کہتے ہیں:
صلیت خلف النبی صلی اللہ علیه وسلم فلما قال و لا الضالین قال اٰمین و مد بھا صوته: کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے جب کبھی نماز پڑھی آپ نے ولا الضالین کے بعد آمین دراز آواز سے کہی۔‘‘ (ترمذی ص ۳۴ ابودائود ص۱۳۷ ابن ماجہ، تلخیص الحبیر ص ۸۹، منتقی ص ۵۹، دارمی ص ۱۰۶، دار قطنی ص ۱۲۷، مشکوٰۃ ص ۸۰
نمبر۲ ایک روایت ہے: اذا قرأ و لا الضالین قال آمین رفع بھا صوته: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ فاتحہ ختم کی تو آپؐ نے بلند آواز سے آمین کہی۔ (ابودائود ص ۱۳۶ و عون المعبود ص ۳۵۱)
نمبر۳ ایک روایت میں ہے: انه صلی خلف النبی صلی اللہ علیه وسلم فجھر بآمین کہ وائلؓ نے رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی تو آپ نے آمین بالجہر کہی۔ (ابودائود ص ۱۳۶)
نمبر۴ علامہ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو ابن حبان نے بھی روایت کیا ہے۔ وسندہ صحیح اور سند اس کی صحیح ہے۔ و صححہ الدارقطنی اور صحیح کہا اس کو دار قطنی نے۔ (تلخیص الحبیرص ۸۹)
نمبر۵ امام ترمذی فرماتے ہیں حدیث وائل ابن حجر حدیث حسن کہ حدیث وائل ابن حجرؒ جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آمین پکار کر کنے کا ذکر ہے۔ حسن ہے۔ (ترمذی ص ۳۴)
نمبر۶ اس حدیث کے آگے امام ترمذی فرماتے ہیں: و به یقول غیر واحد من اھل العلم من اصحاب النبی صلی اللہ علیه وسم و التابعین و من بعدھم یرون ان یرفع الرجل صوته بالتامین ولا یخفیھا و بہی یقول الشافعی و احمد و اسحق۔
اور بہت سے اہل علم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین اور تابعین و تبع تابعین فرماتے ہیں کہ ٓٓآمین پکار کر کہی جاودے۔ اور آہستہ نہ کہی جائے۔ اور اس طرح امام شافعیؒ اور امام احمد اور اسحق فرماتے ہیں کہ آمین بالجہر کہنی چاہیے۔ (ترمذی ص ۳۴)
نمبر۷ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان اذا قر۷ و لا الضالین رفع صوتہ بامین۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسم جب و لا الضالین پڑھتے تو آمین بلند آواز سے پکار کر کہتے۔ (اعلام الموقعین جلد ۲ ص ۴، کنز الاعمال ص ۳ جلد ۱۸۷)
نمبر۸ اور تحفۃ الاحوذی میں مولانا عبد الرحمن فرماتے ہیں: و لم یثبت من احد من الصحابة الاسرار بالتامین بالسند الصحیح۔ کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی سے بھی صحیح سند سے آمین آہستہ کہنا ثابت نہیں۔ (تحفۃ الاحوذی۲۰۹)
نمبر۹ حضرت عطاء فرماتے ہیں ادرکت مأتین من الصحابة اذا قال الامام ولا الضالین رفعوا اصواتھم بآمین۔ کہ میں نے مدینہ منورہ کی مسجد میں سے دو سو صحابہ کو دیکھا کہ جب امام سورۃ فاتحہ کرتا ختم، تو سب کے سب بلند آواز سے آمین کہتے اور مسجد میں گونج پیدا ہوتی۔ (بیہقی جلد۲ ص ۵۹ اعلام جلد نمبر۲ ص ۵ قسطلانی ج ۲ ص ۸۵)
نمبر ۱۰ پیر عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: و الجھر بالقرأة و اٰمین کہ جہری نمازوں میں جب قرأۃ بلند آواز سے پڑھی جائے اس میں آمین بھی پکار کر کہی جائے۔ غنیۃ الطالبین ص ۱۰)
نمبر ۱۱ امام غزالیؒ آمین بالجہر کو سنت قرار دیتے ہیں۔ (احیاء العلوم)
نمبر ۱۲ خلاصہ مضمون یہ ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ نمازوں میں سورۃ فاتحہ ختم کرنے کے بعد آمین پکار کر کہا کرتے تھے۔ اور آپ کے صحابہ کرام کا یہی دستور تھا۔ ائمہ اسلام متبع سنت اسی طرف گئے ہیں۔ امام حسن و حسین و زین العابدین رضی اللہ عنہم اپنے نانا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف عمل نہیں کرتے تھے۔ حضرت معین الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کا حال مجھے معلوم نہیں۔ کسی صاحب کو معلوم ہو تو لکھ دیں۔

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 3 ص 122۔125

محدث فتویٰ

تبصرے