بسم اللہ الرحمن الرحیم کا جس طرح قبل سورۃ فاتحہ کے نماز میں پڑھنا سنت ہیز اسی طرح نماز میں اس کا درمیان فاتحہ اور سورۃ کے پڑھنا حسن ہے یا نہ؟
حسنء ہے۔ رد المختار کے صفحہ ۵۱۱ میں ہے صرح فی الذخیرة و المجتبیٰ بانه ان سمی بین الفاتحة و السورة المقروئة سرا او جھرة کان حسنا عند ابی حنیفة رحمه اللہ و رجحه المحقق ابن ھمام و تلمیذہ الحلبی لشبھة الاختلاف فی کونھا اٰیة من کل سورة (بحراہ) (تصریح کی ہے ذخیرہ اور مجتبیٰ میں اس بات کی کہ اگر بسم اللہ پڑھے درمیان سورۃ فاتحہ اور سورۃ کے جو پڑھی گئی آہستہ یا جہر ہو گا بہتر نزدیک امام اعظمؒ کے اور ترجیح دیا ہے اس کو محقق اب ہمام اور شاگرد ان کے حلبی نے واسطے شبہ اختلاف کے بیچ ہونے بسم اللہ کے آیت ہر سورۃ کے نقل کیا ہے اس کو بحر الرائق سے) اور عمدۃ الرعایہ میں ہے اما عدم الکراھة متفق علیہ و لھذا صرح فی الذخیرة و المجتبیٰ بانه لو سمی بین الفاتحة و السورة کان حسناً عند ابی حنیفة رحمہ اللہ سواء کانت السورة مقرئوة جھراً او سرًّا الخ (اور نہ مکروہ ہونا بسم اللہ کے پڑھنے کا پس اتفاق کیا گیا ہے۔ اس پر اور اسی لے ذخیرہ اور مجتبیٰ میں تصریح کی ہے بایں طور کہ بسم اللہ پڑھے درمیان سورئہ فاتحہ اور سورۃ کے ہو گا) بہتر نزدیک امام ابو حنیفہؒ کے خواہ وہ سورت پڑھی گئی ہو بآواز یا آہستہ)
فتاوٰی مفید الاحناف ص ۵