قرآن مجید کی جن سورتوں کے آخر میں جوابات دینا احادیث میں آیا ہے، کیا وہ جوابات صرف امام کو دینے چاہئیں یا مقتدی کے لیے بھی جائز و مستحب ہیں؟
قرآن مجید کی جن سورتوں کے جوابات حدیثوں میں آگئے ہیں وہ جس طرح امام کے لیے جائز و مستحب ہیں اسی طرح مقتدی کے لیے بھی جائز و مستحب ہیں، بلکہ مندرجہ ذیل واقعہ سے جو حدیث میں آیا ہے ثابت ہوتا ہے، کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سامعین کا جواب دینا بہت محبوب تھا۔ چنانچہ مشکوٰۃ باب القرأۃ فی الصلوٰۃ میں ہے۔ عن جابر قال خرج رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم علٰی اصحابه فقرأ علیھم سورة الرحمٰن من اولھا الٰی اٰخرہ فسکتوا فقال لقد قرأتھا علی الجن لیلة الجن فکانوا احسن مردوداً منکم کنت کلما اتیت علی قوله فبایّ الاء ربکما تکذبان۔ قالوا لا بشئ من نعمک ربنا نکذب فلک الحمد۔ (رواہ الترمذی و قال ھذا الحدیث غریب ص ۷۳) یعنی ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہؓ کے پاس آئے اور سورئہ رحمن ساری پڑھی، صحابہ خاموش سنتے رہے۔ آپ نے فرمایا میں نے سورہ رحمن جنوں پر لیلۃ الجن میں پڑھی تھی۔ جب بھی میں آیت ’’فبای اٰلآء ربکما تکذبان‘‘پر پہنچتا تو وہ نہایت اچھا جواب دیتے تھے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات بہت پیاری لگتی تھی کہ سامعین بھی جواب دیں۔ لہٰذا مقتدی کو جواب دینا چاہیے۔